کرونا سے لڑنا ہے یا احتیاط کرنی ہے؟


شروع شروع میں تو کپتان نے قوم کو بتایا تھا کہ کرونا سے گھبرانا نہیں ہے۔ پچھلے اپریل میں کپتان نے کہا تھا کہ یہ بس عام سا فلو ہے اور ”ہر سو میں سے جن کو یہ بیماری ہو گی، اس میں سے ایک یا ڈیڑھ انسان مر سکتا ہے“ ۔ پھر 17 مارچ 2020 کو قوم کو بتایا کہ ”یہ وائرس ایک قسم کا فلو ہے۔ اور ایک ایسا فلو ہے، کہ جس کی خاصیت یہ ہے کہ بڑی تیز پھیل جاتی ہے۔ لیکن دوسری طرف لیکن دوسری طرف آپ سب کو اس چیز سے تھوڑا ذرا مطمئن ہونا چاہیے کہ ستانوے فیصد کیسز کرونا کے بالکل ٹھیک ہو جاتے ہیں۔“

یعنی قوم کو مشورہ دیا گیا کہ چڑھ جا بیٹا سولی پر رام بھلی کرے گا۔ لیکن یہ بات سب جانتے ہیں کہ اگر بات سمجھ میں آ جائے تو کپتان ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں یوٹرن لینے میں توقف نہیں کرتا۔ اسی لیے تین ماہ بعد کپتان کی سمجھ میں بات آ گئی کہ کرونا سے چھوٹا موٹا مسئلہ از قسم مرگ پیدا ہو سکتا ہے، تو یوٹرن لے لیا۔

یوں 8 جون 2020 کے دن قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”لوگ اس کو سیریس ہی نہیں لیتے۔ عام لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ کچھ ہے ہی نہیں۔ یہ ایک فلو ہے کیونکہ عام لوگ اس کو اس طرح دھیان نہیں دیتے اس لیے ایس او پی پر عمل نہیں کرتے۔ تو آج میں سب کو آپ کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر ہم نے اسی طرح بے احتیاطی کی تو ہم اپنے اوپر، اپنے بزرگوں کے اوپر، وہ لوگ جن کی بیماریاں جن کی جانیں خطرے میں جا سکتی ہیں، ہم سب کی زندگی خطرے میں ڈال رہے ہیں، اپنے ملک کو مشکل میں ڈال رہے ہیں“ ۔

یوں حکومت ایک نئے جوش، جذبے اور سلوگن کے ساتھ میدان میں اتری۔ اب حکومت کا سلوگن تھا ”کرونا سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے“ ۔

غالباً یہی وجہ ہے کہ اب کپتان نے لڑائی دیکھ کر شہروں میں فوج بلانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ حالانکہ اسلامی نظریاتی کونسل نے مارچ 2021 میں کہا بھی تھا کہ لڑنے کا سلوگن غلط ہے، اور احتیاط کا مشورہ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ ”کرونا وبا ہے، احتیاط جس کی شفا ہے“ ۔ حکومت نے وفاقی کابینہ سے منظوری کے بعد احتیاط کرنے کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا تھا۔

حاصل کلام یہ کہ اگر اسلامی نظریاتی کونسل کی ہدایت پر عمل کیا جائے تو کرونا سے لڑنے کے لیے فوج بلانے کی بجائے احتیاط کی مہم چلانے کے لیے محکمہ بہبود آبادی کو بلانا چاہیے تھا جو پہلے دن سے ہی احتیاط کا مشورہ دیتا آیا ہے۔ بلکہ محکمہ تو اس حد تک احتیاط کرنے کا حکم دیتا ہے کہ میاں بیوی میں بھی سوشل ڈسٹنس رکھنے کا کہتا ہے۔ ہاں زیادہ ہی مجبوری پیش آئے تو اس صورت میں ایس او پی پر عمل کرتے ہوئے اور مکمل لاک ڈاؤن میں احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے میل جول کی اجازت دے دیتا ہے۔

ہماری رائے میں بھی فوج کسی حد تک تو ایس او پی پر عمل کروا سکتی ہے، یعنی کسی شہری نے پبلک مقام پر ماسک نہ پہنا ہو تو اسے ماسک پہنا دے گی، اور ڈبل سواری پر پابندی لگا دے گی، مگر وبا کے دنوں میں عام شہری کا بیشتر وقت گھر کے اندر گزرتا ہے اور وہاں بعض قانونی اور اخلاقی مجبوریوں کی وجہ سے ریاستی ادارے ابھی تک لڑائی میں حصہ لینے سے قاصر ہیں۔ وہاں صرف محکمہ بہبود آبادی والے سہولت کار کا کردار ادا کرتے ہوئے پراکسی وار لڑ سکتے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ وہ شہریوں کو چہرے پر بھی ماسک پہننے پر رضامند کر لیں گے کہ احتیاط کا یہ بھی تقاضا ہے۔ یوں وہ جان آنے کے علاوہ جان جانے سے روکنے میں بھی اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ یاد رکھیں، ”کرونا وبا ہے، احتیاط جس کی شفا ہے“ ۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments