بروس لی کی نقل کرنے والے سلطانی کا افغانستان سے اولمپکس کے لیے سفر

رہیا چوہان - بی بی سی سپورٹس


‘ہمیں چوروں نے روک لیا اور ہم پر بندوقیں تان کر ہمارے پاس جو بھی سامان تھا، وہ چھین لیا۔ میں فقط سات سال کا تھا اور میں خوفزدہ تھا۔‘

آصف سلطانی اور ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والا ان کا خاندان، جنگ سے متاثرہ افغانستان میں ظلم وستم سے بچنے کے لیے وہاں سے فرار ہوا تھا۔ انھیں وہ سفر بہت زیادہ یاد نہیں، لیکن کچھ یادیں اب بھی باقی ہیں۔

جب وہ پناہ کی تلاش میں ایران آئے تو انھیں بہت زیادہ محسوس نہیں ہوا کہ وہ مہاجر ہیں۔ سلطانی نے بی بی سی سپورٹس کو بتایا کہ ‘مگر شناختی دستاویزات نہ ہونے کی وجہ سے ہم سے امتیاز برتا گیا۔‘

یہ بھی پڑھیے

افغانستان کے انسانی سمگلر کی کہانی: ’پتا نہیں خدا معاف کرے گا یا نہیں!‘

’جب اہلیہ کو چھوڑا تو وہ حاملہ تھیں، اب بیٹا آٹھ برس کا ہے جسے آج تک گلے نہیں لگا سکا‘

برازیل سے بے دخل 23 یہودی جنھوں نے نیو یارک کے قیام میں مدد کی

کیا ترکی شامی پناہ گزینوں کا ’نیا وطن‘ بن گیا ہے؟

وہ کہتے ہیں کہ ‘مجھے یاد ہے کہ مجھے بہت زیادہ ڈرایا دھمکایا جاتا تھا۔ لوگ مجھے مکّے مارتے تھے، کِک مارتے تھے، تھوک پھینکتے تھے اور میری بے عزتی کرتے تھے۔ اور مجھے مجبور کرتے تھے کہ میں رحم کی التجا کروں۔‘

ایسی صورتحال میں اپنے والد کی جانب سے حوصلہ افزائی ملنے پر اپنی حفاظت کرنے کے لیے وہ مارشل آرٹس کی جانب گئے۔ اور اب وہ ٹوکیو اولمپکس میں کراٹے کے کھیل کے لیے تارکین وطن کی ٹیم کی جانب سے لڑنے کے لیے کوشاں ہیں۔

ایران میں دستاویزات نہ ہونے کی وجہ سے وہ مقامی جم میں نہیں جا سکتے تھے۔ انھوں نے اپنے گھر کے پیچھے ایک تربیتی جم بنا لیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘میں شکستہ دل تھا کیونکہ کراٹے وہ واحد چیز تھی جو میری زندگی میں تھی۔‘

میں نے اپنے کچھ دوستوں کو اکٹھا کرنا شروع کیا اور انھیں اکھٹے تربیت دینے کی کوشش کی۔ بروس لی کی فلمیں دیکھنا اور اس کی طرح مظاہرہ کرنا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ یہ تربیت دینے کے لیے کوئی متاثر کن مقام نہیں تھا مگر ہمارے پاس جو تھا وہ حوصلہ، امید اور ایک خواب تھا۔’

مگر وہ خواب اس وقت کچلا گیا جب 16 برس کی عمر میں انھیں واپس افغانستان میں بھیج دیا گیا اور وہ جان کے خطرے کے باعث ہوٹل کے ایک چھوٹے سے کمرے میں رہنے پر مجبور ہو گئے۔

سلطانی کہتے ہیں کہ ‘لوگوں کو گلیوں میں چلتے ہوئے دیکھنا، بڑی بڑی بندوقیں اٹھائے ہوئے، میں دہشت کا شکار تھا کیونکہ ہزارہ (برادری) کو افغانستان میں کئی سال تک بہت ستایا جاتا رہا ہے۔’

سلطانی نے محسوس کیا کہ ان کے پاس ایک ہی راستہ بچا تھا۔ کچھ ماہ کے بعد وہ 100 کے قریب لوگوں سے جا ملے جو ایک چھوٹی سی کشتی جس میں جگہ بہت محدود تھی، جو انڈونیشیا سے آسٹریلیا جا رہی تھی۔

لیکن یہ تکلیف دہ سفر اس وقت مشکل میں پڑ گیا جب ان کی کشتی کے انجن نے کام کرنا چھوڑ دیا اور وہ ساری سمندر میں پھنس گئے۔

سلطانی کہتے ہیں کہ ‘ہر کوئی رو رہا تھا، دعائئں کر رہا تھا اور پانی میں چھلانگ لگانے کی تیاری کر رہا تھا۔ یہ ایک ڈراؤنے خواب کی طرح تھا۔‘ کئی گھنٹے پانی میں گزارنے کے بعد وہ گروپ بچنے میں کامیاب ہوا۔

سلطانی نے اپنے لڑکپن کے زیادہ سال حراستی مراکز میں گزارے۔ لیکن 18 برس کی عمر میں وہ آسٹریلیا کے ایک سکول مں داخلہ لینے میں کامیاب ہوئے۔ پھر دو بار روزانہ کراٹے کے تربیتی مشقیں ہوگئیں۔

تارکین وطن کی ٹیم نے پہلی مرتبہ رئیو اولمپکس میں سنہ 2016 میں شرکت کی۔ انٹرنیشنل اولمپک کاؤنسل ریفیوجی سکالر شپ کے حامل سلطانی جو پتا چلے گا کہ کیا انھوں نے جون میں ٹوکیو میں اپنی ٹیم بنائی ہے یا نہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘میں وہاں گولڈ میڈل جیتنے کے لیے نہیں جا رہا۔‘

‘بطور مہاجر ہم نے اپنی زندگی کا انتخاب خود نہیں کیا۔ ہم ظلم کیے جانے، اپنے خاندان سے الگ ہونے اور اپنا وطن چھوڑنے کا انتخاب خود نہیں کیا۔‘

‘میں چاہوں گا کہ میں وہ شخص بنوں جو ان لاکھوں بچوں کو امید کا پیغام بھیجے جو دنیا بھر میں بے گھر ہو چکے ہیں ۔ میں ان میں سے ہر ایک میں خود کو دیکھتا ہوں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32297 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp