پاکستان میں آکسیجن کی فراہمی دباؤ میں، حکومتی منصوبہ بندی کیا ہے؟

عابد حسین - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد


پاکستان

انڈیا میں کورونا وائرس کی دوسری لہر نے ملک بھر میں تباہی کا جال پھیلا دیا ہے اور ملک میں تیزی سے بڑھتے ہوئے متاثرین کے باعث وہاں کے ہسپتالوں میں آکسیجن کی شدید قلت دیکھنے میں آ رہی ہے۔

وہاں سے آنے والی افسوسناک خبریں اور سوشل میڈیا پر شئیر کیے گئے مناظر کو دیکھنے کے بعد سے پاکستان میں بھی مسلسل نہ صرف انڈیا ہسپتالوں میں آکسیجن کی قلت اور ملک میں کووڈ 19 کی بگڑتی ہوئی مجموعی صورتحال پر بات ہو رہی ہے بلکہ ساتھ ساتھ وہ صارفین پاکستان میں بھی آنے والی تیسری لہر کے خطرات کے بارے میں تبصرے کر رہے ہیں۔

اور انھی خدشات کو مزید جلا بخشا وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر کے گذشتہ روز کے بیان نے جس میں انھوں نے تنبیہ کی کہ پاکستان میں بھی آنے والے وقتوں میں آکسیجن کی فراہمی میں مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں اور اس وقت ملک میں پیدا ہونے والی آکسیجن کا نوے فیصد زیر استعمال ہے۔

اسد عمر، جو کہ پاکستان میں کورونا وائرس سے نمٹنے کے نگراں ادارے نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر کے سربراہ بھی ہیں، نے بھی وزیر اعظم عمران خان کی طرح خبردار کیا کہ اگر پاکستانیوں نے اس معاملے کی سنگینی کو نہیں سمجھا تو یہاں بھی حالات انڈیا جیسے ہو سکتے ہیں۔

اسی حوالے سے مزید پڑھیے

سانس لینے کی جدوجہد: ’آکسیجن کی فراہمی رکی تو زیادہ تر مریض مر جائیں گے‘

پاکستان میں آکسیجن کی کمی: ’13 لیٹر کا سلینڈر 30 ہزار کا خریدا‘

پاکستانی صارفین کی انڈیا کے لیے نیک تمنائیں: ’اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے دل صحیح جگہ پر ہیں‘

اس سے قبل بھی انھوں نے اپریل کے مہینے میں متعدد ٹویٹس کے ذریعے اسی نوعیت کے تنبیہی کے پیغامات جاری کیے جیسے 19 اپریل کو انھوں نے بتایا کہ ملک میں سنگین بیمار افراد کی تعداد 4500 سے زیادہ ہو چکی ہے اور ملک میں آکسیجن کی فراہمی اب دباؤ کا شکار ہو رہی ہے۔

آکسیجن کی فراہمی کے بارے میں اسد عمر نے جمعے کو بریفنگ میں مزید کہا کہ ملک میں آکسیجن کی کُل پیداوار کا 80 فیصد ہسپتالوں میں استعمال ہو رہا ہے اور حکومت فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات اٹھا رہی ہے اور اگر ضرورت پڑتی ہے تو وہ درآمد بھی کریں گے۔

جبکہ سنیچر کو این سی او سی کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ملک بھر میں صحت سے منسلک اداروں کو گیس کی فراہمی یقینی بنائی جائے گی اور ساتھ ساتھ آکسیجن کی طلب کی بغور نگرانی کی جا رہی ہے۔

اب اگر وزیر اعظم اور وفاقی وزیر دونوں کے پیغامات کو دیکھیں تو ذہنوں میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت خالات خراب ہونے کا انتظار کر رہی ہے اور اس کے بعد وہ اقدامات لیں گے یا یہ بہتر نہیں ہے کہ پہلے پیش قدمی کرتے ہوئے آنے والے وقتوں کیا منصوبہ بندی کر لی جائے۔

پاکستان

بی بی سی نے جب اس بارے میں مزید جاننے کے لیے اسد عمر سے رابطہ کیا تو ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

تاہم جب بی بی سی نے پاکستان میں گیس فراہم کرنے والی بڑی کمپنیوں میں سے ایک، غنی کیمیکل انڈسٹری کے کنٹری ہیڈ بلال بٹ سے اس حوالے سے سوال کیا تو ان کا کہنا تھا انھیں اور گیس فراہم کرنے والے دیگر اداروں کو حکومت کی جانب سے گیس درآمد کرنے یا فراہمی کے حوالے سے کوئی باضابطہ احکامات نہیں ملے ہیں تاہم اس سلسلے میں گفت و شنید اور منصوبہ بندی ضرور ہو رہی ہے۔

‘ہمارے پاس ایک مشترکہ فورم ہے جہاں این سی او سی، این ڈی ایم اے اور دیگر سرکاری ادارے اس حوالے سے مل بیٹھ کر بات چیت کرتے ہیں۔ لیکن فی الحال جو حالات ہیں ان کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ صنعتی استعمال والی گیس کی فراہمی کم کرنی ہوگی اور گیس درآمد کرنے کا آپشن استعمال کرنا ہوگا۔’

بلال بٹ کا مزید کہنا تھا کہ عالمی منڈی میں کورونا وائرس کی وجہ سے آکسیجن کی فراہمی میں بھی تعطل ہے اور اس حوالے سے حکومت کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

‘گیس در آمد کرنے کے لیے بین الاقوامی منڈی میں قیمتوں اور ان کی فراہمی کو دیکھنا ہوتا ہے اور اس وقت انڈیا میں جو صورتحال ہے اس کی وجہ سے فراہمی میں کافی مشکلات ہیں۔ درآمد کرنے کی صورت میں پاکستان عام طور پر متحدہ عرب امارات میں گیس سپلائی کرنے والے اداروں سے رابطہ کرتا ہے لیکن اس وقت وہ بھی ممکن نہیں ہے۔ حکومت کو اس موقع پر خود سے اقدامات لینے ہوں گے، اور دوست ممالک سے سرکاری سطح پر مدد لینی ہوگی۔’

پاکستان میں گیس فراہم کرنے والی ایک اور بڑی کمپنی پاکستان آکسیجن کے عہدے دار زوہیب خان نے بھی انھی نکات کی تائید کی۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے زوہیب نے کہا کہ انڈیا کی صورتحال کافی مخدوش ہے جس کی وجہ سے گیس فراہم کرنے والی عالمی کمپنیاں بھی اس وقت وہاں کی صورتحال پر توجہ دے رہی ہیں۔

‘ہمارے پاس ابھی تو سٹاک موجود ہے لیکن طلب میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور اس کی وجہ سے ہمیں دوسری صنعتوں کو گیس کی فراہمی بند کرنی، یا کم کرنی پڑے گی۔ جو صنعتیں ہم سے گیس خریدتی ہیں، ہم نے ان صارفین کو کہہ دیا ہے کہ فی الوقت ہم ان کو آکسیجن نہیں دے سکتے۔’

زوہیب کے مطابق ان کی کمپنی پاکستان آکسیجن کے ملک میں گیس تیار کرنے کے کراچی اور لاہور میں ایک ایک پلانٹ ہیں جس میں سے کراچی کا پلانٹ سو ٹن گیس فی دن جبکہ لاہور کا پلانٹ 70 ٹن فی دن گیس تیار کرتا ہے۔

‘ہم زیادہ تر گیس صنعتوں کو یا ہسپتالوں کو ہی دیتے ہیں لیکن تیسری لہر میں شدت آنے کے بعد ہم نے صنعتوں کو پہلے گیس دینا کم کی، اور اب ان کو منع کر دیا ہے کہ ترجیح ہسپتالوں کو گیس دینا ہے۔’

آکسیجن

ادھر غنی گیس کے پاس گیس بنانے کے تین پلانٹ ہیں جن میں سے دو لاہور اور ایک کراچی میں ہے۔

بلال بٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے لاہور کے مرکزی پلانٹ میں پیداواری صلاحیت 160 ٹن فی دن ہے لیکن کووڈ کی موجودہ صورتحال کی وجہ سے نہ صرف انھیں کراچی کے پلانٹ سے اوسطاً 20 ٹن گیس منگوانی پڑ رہی ہے بلکہ ان کا کہنا تھا کہ کمپنی کو لاہور میں اپنے بیک اپ پلانٹ کو بھی استعمال کرنا پڑ رہا ہے۔

‘ابھی صورتحال یہ ہے کہ مارچ کے وسط سے جب تیسری لہر کا آغاز ہوا تھا تو ملتان سے لے کر وسطی، شمالی پنجاب اور پورے خیبر پختون خوا میں آکسیجن کی طلب میں زبردست اضافہ آیا۔ پہلے پہل یہ ہوتا تھا کہ کچھ علاقوں میں کچھ دنوں کے لیے طلب بڑھتی تھی لیکن اب تو بس ہر جگہ پر طلب میں اضافہ ہوا ہے اور گیس فراہم کرنے والے تمام ادارے ہی دباؤ میں ہیں۔’

بلال بٹ بتاتے ہیں کہ اوسطاً ان کی کمپنی سے پیدا ہونے والی گیس کا 45 سے 50 فیصد حصہ ہسپتالوں کے لیے مختص ہوتا ہے لیکن اس وقت وہاں پر شدید طلب ہے لاہور سے پیدا ہونے والی گیس میں سے 90 فیصد صرف پنجاب اور خیبر پختون خوا کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔

ماضی کی صورتحال سے موازنہ کرتے ہوئے بلال بٹ نے بتایا کہ کورونا سے پہلے اور کورونا کی پہلی دو لہروں کے دوران ان کے پاس اضافی گیس تھی اور پیداوار پر اتنا دباؤ نہیں آیا تھا جو اس وقت ہے۔

جبکہ دوسری طرف انھیں اس بات کا بھی ادراک ہے کہ اگر دیگر صنعتوں کو گیس نہ دی گئی تو ان کی پیداوار بھی متاثر ہونا شروع ہو جائے گی جو کہ معیشت کے لیے نقصان دہ ہے۔

‘اگر آپ سٹیل کی صنعت کو گیس دینا بند کر دیں تو آپ کا تعمیرات کا شعبہ بیٹھ جائے گا، جس سے 40 سے زیادہ دیگر صنعتیں منسلک ہیں اور یہی صنعت ملک میں کووڈ کے دور میں معیشت کا پہیہ چلا رہی ہے۔’

آکسیجن کی فراہمی کے حوالے سے جب بی بی سی نے کراچی میں ملک کے بڑے سرکاری ہسپتالوں میں سے ایک، جناح پوسٹ گریجویٹ سینٹر کی سربراہ ڈاکٹر سیمی جمالی سے سوال کیا تو ان کا کہنا تھا کہ فی الحال ان کے پاس بستروں کی بھی گنجائش ہے اور مریضوں کے لیے جگہ ہے لیکن کسی بھی ناگہانی صورتحال سے نمٹنے کے لیے انھوں نے آکسیجن ٹینک کے لیے آرڈر دے دیے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32295 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp