حادثات کو تحریک میں بدلنے کا ہنر


تاریخ ایسے بے شمار واقعات سے بھری ہوئی ہے جہاں استبدادی حکومتوں نے اپنے خلاف اٹھنے والی تحریکوں کو شروع ہوتے ہی بے دردی کے ساتھ کچل دیا اور یہ تحریکیں پیدا ہوتے ہی دم توڑ گئیں۔ تاریخ بشریت کے اندر نہایت قلیل تعداد ایسی تحریکوں کی نظر آتی ہے جن کی پربصیرت قیادت نے استبدادی حکومتوں کے سفاکانہ اقدامات کو انہی کے خلاف استعمال کر کے اپنی تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کر دیا ہو۔

ظالم و ستم گر حکومتوں کا شیوہ ہے کہ اپنے خلاف اٹھنے والی تحریک کو آغاز میں ہی عبرت کا نشان بنا دیا جائے تاکہ اس تحریک کے حامی افراد اس راستے پر چلنا تو درکنار، اس کے بارے میں سوچنا بھی چھوڑ دیں۔ اگر کوئی تحریک اس مرحلے میں جانبر ہو جائے تو کوئی بھی طاقت اس کو کامیاب ہونے سے نہیں روک سکتی۔ حکومت اپنے خلاف اٹھنے والی تحریکوں پر ابتدا ہی میں شدید ضرب لگاتی ہے اور کسی بھی غیر انسانی فعل سے دریغ نہیں کرتی جس کی سب سے بڑی مثال واقعہ کربلا کو قرار دیا جا سکتا ہے۔

امام حسینؑ کو راستے سے ہٹانے کے لیے اموی حکومت کو اس قدر پرتشدد اقدامات کی ضرورت نہیں تھی جو اس نے اٹھائے۔ شیر خوار بچوں کو ذبح کرنا، لاشوں کو گھوڑوں سے پائمال کر دینا، ناموس نبی کو اسیر کر کے کوچہ و بازار میں لانا وغیرہ۔ کیا یہ سب اقدامات صرف اس لیے تھے امام حسینؑ کو سرکوب کیا جائے؟ جی نہیں، ان سفاکانہ اقدامات کا مقصد صرف امام حسینؑ کو سرکوب کرنا نہیں تھا بلکہ پورے عالم اسلام کو یہ پیغام دینا تھا کہ کوئی بھی شخص جو حکومت کے خلاف اگر سوچتا بھی ہے تو اس انجام کے لیے تیار ہو جائے، اور ایسا ہی ہوا، اس وقت کا سارا عالم اسلام واقعہ کربلا کے بعد شدید خوفزدہ ہو گیا۔

لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ امام حسینؑ کی بہن زینب بنت علیؑ نے واقعہ کربلا کو صرف ایک واقعہ نہیں رہنے دیا بلکہ اس حادثے کو یزیدیت کے خلاف مضبوط تحریک میں بدل دیا۔ ایسے ہی کئی دیگر واقعات تاریخ بشریت کے اندر مختلف مواقع پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ غرض یہ کہ سارا انحصار قیادت کی بصیرت پر ہوتا ہے کہ وہ ایک تحریک کو معمولی واقعہ میں بدل دے یا ایک واقعے کو مستقل تحریک میں تبدیل کر دے۔

جب امام خمینی نے عملی طور پر اسلامی تحریک آغاز کیا، اسی زمانے میں انقلاب کے نام پر دو اور تحریکیں بھی ایران کے اندر عروج پر تھیں۔ انقلاب سفید کے نام پر ایک تحریک خود حکومت کی جانب سے شروع کی گئی، جبکہ دوسری تحریک کمیونسٹ انقلاب کے لیے حزب تودہ کی طرف سے جاری تھی۔ شاہ ایران اسلامی تحریک کی طرف سے زیادہ پریشان نہیں تھا کیونکہ اس کے خیال میں علماء اس قابل نہیں ہیں کہ حکومت کے لیے کوئی خطرہ بن سکیں جبکہ کمیونسٹ تحریک سے وہ شدید خوفزدہ تھا اور اس کا راستہ روکنے کے لیے دن رات منصوبہ بندی کرتا رہتا۔

حکومت کمیونسٹوں کو حکمت عملی کے ذریعے سے روکنا چاہتی تھی اور اسلامی تحریک کو طاقت کی مدد سے، یہی وجہ تھی کہ شہید مرتضیٰ مطہری (جو کہ اسلامی تحریک کا حصہ تھے ) کو کمیونزم کے خلاف نظریاتی و علمی محاذ کھڑا کرنے کے لیے تہران یونیورسٹی میں بطور پروفیسر قبول کر لیا گیا۔ اسلامی تحریک اور کمیونسٹ دونوں شاہ کے مخالف تھے، شاہ اور کمیونسٹ اسلامی تحریک کے مخالف تھے، اسی طرح شاہ اور اسلامی تحریک دونوں کمیونسٹ تحریک کے مخالف تھے۔ اس پیچیدہ صورتحال میں ہر کوئی ہر واقعے سے اپنے مقصد کو تقویت دینا چاہتا تھا، شہید مرتضیٰ مطہری نے بھی اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے جہاں کمیونسٹ نظریات کو سرکوب کیا، وہیں اسلامی حکومت کے لیے بھی تہران یونیورسٹی کے اندر زمین سازی کر دی جس کی توقع شاہ ایران کو بالکل نہیں تھی۔

شاہ نے اسلامی تحریک کو عبرت کا نشان بنانے کے لیے قم میں موجود مدرسہ فیضیہ پر حملے کا منصوبہ بنایا۔ مدرسہ فیضیہ اس زمانے میں اتنا آباد نہیں تھا، دن بھر میں چند دروس ہوا کرتے تھے، مدرسے کی دوسری منزل پر چند طالب علم رہائش پذیر تھے جبکہ مدرسے کے باقی حصے میں تاجروں نے قبضہ کر کے گودام بنائے ہوئے تھے۔

اس روز مدرسہ فیضیہ کے اندر امام جعفر الصادقؑ کے روز شہادت کی مناسبت سے مجلس برپا تھی جب شاہ کے فوجی کارندے مدرسے میں داخل ہوئے اور بے دردی کے ساتھ دینی طالب علموں کو زد و کوب کرنا شروع کیا۔ لباس روحانیت کو پارہ پارہ کرنے لگے، دوسری منزل سے طلاب کو اٹھا کر نیچے صحن میں پھینکتے۔ اس حادثے میں کچھ طالب علم شہید ہو گئے جبکہ طلاب کی کثیر تعداد شدید زخمی ہوئی۔

علماء نے اس واقعے کا ذمہ دار امام خمینی کو ٹھہرایا کہ نہ وہ سیاسی امور میں مداخلت کرتے اور نہ ہی شاہ یہ قدم اٹھانے پر مجبور ہوتا۔ اس واقعے کے بعد طالب علموں کے اندر خوف و ہراس کی لہر دوڑ گئی۔ ہر کوئی خوفزدہ تھا لیکن امام خمینی کے قول و فعل میں خوف کا شائبہ تک نظر نہ آیا کیونکہ وہ اس حادثے کے لیے ذہنی طور پر پہلے ہی سے آمادہ تھے۔

شاہ ایران نے یہ کارروائی اس لیے کروائی تھی کہ وہ لوگ جو امام خمینی کا ساتھ دینے کا سوچ بھی رہے ہوں وہ اس خوفناک انجام کو آنکھوں سے دیکھ لیں اور اس راہ کو ترک کر دیں۔ لیکن نتیجہ اس کے برعکس ہوا، اسلامی تحریک نے جو فاصلہ کئی سالوں میں طے کرنا تھا، امام خمینی کی پربصیرت قیادت سے وہ اسی حادثے نے طے کروا دیا۔ کیونکہ ملت کو اس حقیقت سے آشنا کرنے میں کئی سال لگ جاتے کہ یہ حکومت فاسد ہے، بے رحم ہے اور اس کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات نہیں ہو سکتے۔ اس نظام کو اصلاح کی نہیں بلکہ ایسے انقلاب کی ضرورت ہے جو اس ظالم و ستم گر حکومت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے۔

مدرسہ فیضیہ کا حادثہ اسلامی تحریک کو سرکوب کرنے کے لیے انجام دیا گیا تھا لیکن امام خمینی نے اسی حادثے کو دستاویز بنا کر عوام کے اندر موجودہ نظام کے خلاف شدید بیزاری اور نفرت بیدار کر دی اور اسلامی تحریک کو اس مرحلے میں پہنچا دیا جس تک پہنچنے کے لیے شاید کئی سال لگ جاتے۔ اب مدرسہ فیضیہ معمولی مدرسہ نہیں رہا تھا بلکہ حکومت کے خلاف مزاحمت اور مبارزت کا مرکز بن چکا تھا۔

پاکستان کے اندر ہر روز ایسے حادثات رونما ہوتے ہیں جن کو ایک تحریک میں تبدیل کر کے عوام کو فاسد نظام سے نجات دلائی جا سکتی ہے لیکن بدقسمتی سے یہ قوم حقیقی قیادت و رہبری کی الف ب سے بھی آشنا نہیں ہے۔ ذلت کے ساتھ سمجھوتہ کیے ہوئے یہ قوم اپنے لیے کسی پربصیرت رہبر کو نہیں چاہتی بلکہ ایسے دلال کو چاہتی ہے جو اسی فاسد حکومت کے ساتھ بات چیت کر کے ان کے پھنسے ہوئے معاملات حل کروا دے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments