’آکسیجن! آکسیجن! کیا آپ مجھے آکسیجن دے سکتے ہیں؟‘، دہلی میں آکسیجن کی کمی، متاثرین کے خاندانوں کی اپیل

سوتک بسواس - بی بی سی نامہ نگار، انڈیا


انڈیا

آکسیجن دستیاب نہیں، مریض کو داخل نہیں کیا جا سکتا۔ ہسپتالوں کا رخ کریں تو انڈیا میں یہ نوٹس دکھائی دینا عام بات بن چکی ہے جسے دیکھ کر مریضوں کو واپس پلٹنا پڑتا ہے

‘آکسیجن! آکسیجن! کیا آپ مجھے آکسیجن دے سکتے ہیں!‘

میں آج صبح اٹھا تو مجھے ایک سکول ٹیچر کی پریشانی والی فون کال موصول ہوئی جن کے 46 سالہ شوہر آکسیجن کی کمی کے شکار دہلی ہسپتال میں کووڈ سے جنگ لڑ رہے ہیں۔

میں نے خود سے کہا کہ ہم پھر وہیں چلے گئے ہیں۔ اس شہر میں ایک اور دن جب سانس بہت سوں کے لیے ایک لگژری چیز بن چکی ہے۔

ہم نے فون گھمانے شروع کیے، امداد کے لیے کوششیں کیں۔ ہسپتال کی مشینوں کی آوازوں کے درمیان سے اس خاتون نے ہمیں بتایا کہ ان کے شوہر کی آکسیجن سیچوریشن کی سطح 58 سے کم ہے مگر پھر تھوڑی دیر میں 62 تک بڑھی۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا: کورونا وائرس کے مریضوں کو زندہ رکھنے کی جدوجہد

کورونا وائرس: جب انڈیا کا دارالحکومت دہلی سنسان ہو گیا

انڈیا میں کورونا: ’جس طرف بھی دیکھیں لاشیں اور ایمبولینس نظر آتی ہیں‘

انڈیا کورونا کی خطرناک دوسری لہر کو روکنے میں ناکام کیوں رہا؟

اگر آکسیجن کی سیچوریشن لیول 92 یا اس سے کم ہو تو ڈاکٹر سے رابطہ کرنا ہوتا ہے۔

اس خاتون نے ہمیں بتایا کہ وہ خوش ہیں کہ آکسیجن کا لیول اوپر چلا گیا ہے اور اب ان کے شوہر بات کر رہے ہیں سمجھ پا رہے ہیں۔

میں ایک ڈاکٹر دوست کو فون کیا جو انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں کام کر رہی تھی۔ ڈاکٹر نے مجھے بتایا کہ لیول اگر 40 ہو تب بھی مریض بات تو کر رہا ہوتا ہے۔

میں نے اخبار نکالا۔ ایک معروف ہسپتال میں 25 مریض ہلاک ہوئے۔ ہسپتال کا کہنا ہے کہ آکسیجن پریشر کی کمی کی وجہ سے انتہائی نگہداشت کے بہت سے ہسپتالوں میں آکسیجن خودکار کے بجائے زبردستی طریقے سے دی جا رہی ہے۔

وہاں اخبار کے صفحہ اوّل پر ایک تصویر چھپی جس میں دو مردوں اور ایک خاتون کو ایک سلینڈر سے آکسیجن فراہم کی جا رہی ہے۔

تین اجنبی ایک عوامی سانحے اور حکومتی غفلت کی وجہ سے پیش آنے والی مصیبت میں پھنس گئے ہیں۔

انھیں مردوں میں سے ایک کا 40 سالہ بیٹا اسی ہسپتال کے باہر بستر کا انتظار کرتے کرتے کچھ دن پہلے مر گیا تھا۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسے آخر میں سٹریچر تو مل گیا تھا۔

17 جون کو کورونا کی وجہ سے ریکارڈ اموات ہوئیں

17 جون کو بھی کورونا کی وجہ سے ریکارڈ اموات ہوئیں اور اب ایک بار پھر صورتحال خراب ہو چکی ہے

اور اب یہ صورتحال ہے کہ بہت سے غمزدہ انڈین اس پر بھی شکرگزار ہیں کہ اگر آپ ہمارے پیاروں کو بستر، دوا یا آکسیجن نہیں دے سکتے تو کم ازکم ان کی لاشوں کو منتقل کرنے کے لیے سٹریچر تو فراہم کریں۔

جیسے جیسے دن آگے بڑھے میں نے محسوس کیا کہ کچھ بھی نہیں بدلا۔ لوگ اس لیے مر رہے ہیں کیونکہ آکسیجن نہیں ہے۔

ادویات اب بھی کم ہیں اور بلیک مارکیٹ میں ہیں۔ ان کی ذخیرہ اندوزی ہو رہی ہے اور انھیں خریدتے ہوئے اتنا خوف و ہراس ہے جیسے کہ ہم حالت جنگ میں ہیں۔

اس استاد نے پھر فون کیا۔ ہسپتال کے بعد اب فالتو آکسیجن فلو میٹر بھی نہیں رہا جس کے بعد خاتون نے اسے خود خریدا۔

وی ورک دا فونز نے ٹوئٹر پر اپیلیں کی جارہی ہیں۔ ایک میں کہا جا رہا ہے کہ کوئی جا کر اس ڈیوائس کو لے کر آئیں جس سے سلینڈر کے ذریعے مریض کو آکسیجن کی سپلائی ریگولیٹ کی جاتی ہے۔

باوجود اس کے جو حکومت کہہ رہی ہے چیزیں بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہیں۔ شہر میں آکسیجن کے ٹینکرز مریضوں کی جان بچانے کے لیے وقت پر نہیں پہنچ رہے۔ وہاں بستر بھی نہیں ہیں اور ادویات کم رہ گئی ہیں۔

یہاں تک کہ انڈیا میں امرا کے پاس بھی کوئی سہولت نہیں رہی ہے۔

ایک میگزین ایڈیٹر نے مجھے دوپہر میں کال کی جنھیں ایک بیمار مریض کے لیے آکسیجن سلینڈر کی ضرورت تھی۔

کورونا

دہلی انڈیا میں صحت کے شعبے میں سہولیات فراہم کرنے کے حوالے سے بہترین ہے لیکن اس وقت وہاں بھی انتھائی نگہداشت کے شعبے میں 99 فیصد سے زیادہ میں نئے مریضوں کے لیے گنجائش ختم ہو چکی ہے

میری رہائش جس بلڈنگ میں ہے وہاں کے رہنے والے آکسیجن خریدنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ اگر کسی کو کبھی سانس لینے میں دشواری ہو تو اس سے مدد ملے۔

یہاں 57 رہائشیوں میں کورونا کی تشخیص ہوئی ہے جو گھروں میں بند ہیں۔

مریضوں کو اپنی جان خود بچانے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ بہت سے لوگوں کے لیے یہ موت کی جانب ایک سست رفتار راستہ ہے۔ کوویڈ 19 ایک مرض ہے جو بہت زیادہ بار اچانک حملے کرتی ہے۔

ایک نیورو سرجن پال کالنیتھی نے اپنی تکلیف دہ یادوں جس کا عنوان تھا جب سانس ہوا بن گیا میں لکھا حتیٰ کہ اگر میں مر رہا ہوں۔ تو جب تک میں اصل میں مر نہ جاؤں میں زندہ ہی ہوں۔

انڈیا میں اس اندھوناک وائرس کے شکار ہانپتے کانپتے مریضوں کے لیے بہت تھوڑا رحم ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32299 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp