انڈیا میں کورونا کے باعث طبی نظام پر بوجھ: ’اپنے آس پاس روز موت کو دیکھنا کسی کو بھی تھکا سکتا ہے‘

ونیت کھرے - نمائندہ بی بی سی


ڈاکٹر

جولائی میں ممبئی کے ہسپتال میں ڈاکٹر راہل بخشی کووڈ وارڈ کے دورے پر تھے جب انھیں ایک کمرے میں سفید پی پی ای کٹ (حفاظتی لباس) میں ملبوس طبی عملے کا ایک فرد ٹیبل فین کے سامنے کرسی پر بیٹھا نظر آیا۔

وہ کووڈ مریضوں کے وارڈ میں آٹھ گھنٹے کی اپنی شفٹ مکمل کرنے کے بعد شاید آرام کررہا تھا۔

کووڈ کے علاج کے دوران دیے جانے والے سٹیرائڈز سے مریضوں میں شوگر کی سطح بڑھ جاتی ہے۔ اسی لیے ڈاکٹر بخشی جیسے ہیلتھ ورکرز کا کردار اہم ہو جاتا ہے۔

کووڈ وارڈ کے دوروں کے دوران عام طور پر ڈاکٹر اپنا فون اپنے پاس نہیں رکھتے ہیں، لہذا ڈاکٹر بخشی نے نرسنگ سٹیشن سے ایک جونیئر ڈاکٹر کا فون لے کر پنکھے کے سامنے بیٹھے عملے کی تصویر کھینچ لی۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا کے ‘اتائی ڈاکٹر’ کیسے کووڈ 19 کے خلاف جنگ میں دیہات کو محفوظ رکھ رہے ہیں

’کورونا کے خطرے کے باوجود وہ اپنے مریضوں کی خدمت کرتے رہے‘

آپ کووڈ 19 کے وائرس سے بچنا کیوں چاہتے ہیں؟

پی پی ای یعنی پرسنل پروٹیکٹو ایکیوپمنٹ کا مطلب ہے ذاتی حفاظتی ساز و سامان جس میں این 95 ماسک، سرجیکل ماسک، عینک، فیس شیلڈ، گاؤن اور ٹوپی پہننا شامل ہیں۔

حفاظتی پی پی ای لباس پہن کر ڈاکٹر نہ تو کھانا کھا سکتے ہیں، نہ پانی پی سکتے ہیں، نہ واش روم جا سکتے ہیں اور نہ ہی کسی سے مدد حاصل کرسکتے ہیں۔

سوچیے کہ اگر آپ کو مہینوں خطرے کے درمیان اسی طرح کا کام کرنا پڑے تو آپ کی کیا حالت ہوگی؟

پی پی ای پہننے کا خوف

اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر ڈاکٹر بخشی نے اس تصویر کے نیچے لکھا ہے کہ پی پی ای پہننے کے آدھے گھنٹے کے بعد ہی آپ پسینے میں شرابور ہوجاتے ہیں کیوںکہ آپ ’اوپر سے نیچے تک پیک‘ ہوتے ہیں۔

انھوں نے لکھا کہ ایک وارڈ سے دوسرے وارڈ میں جانے والے ڈاکٹروں، نرسوں، وارڈ ہیلپرز، لیب اسسٹینٹس، ریڈیولاجی سٹاف، صفائی کا عملہ اور دیگر افراد کے لیے پریشانی زیادہ ہے۔

اور یہ کہ ‘سو میٹر سے زیادہ پیدل چلنے کے بعد آپ کی سانسیں پھول سکتی ہیں۔ دو منزل سے زیادہ چڑھنے سے سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔’

ڈاکٹر بخشی لکھتے ہیں کہ جب آپ پی پی ای کٹ پہن کر پنکھے کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں تو آپ کو پنکھے کی آواز تو آتی ہے لیکن ہوا نہیں لگتی۔ اگرچہ باہر تیز ہوا ہو لیکن آپ کو اس کا احساس نہیں ہوتا ہے، اور ایسے حالات میں کام کرنے کا ذہنی اثر ہوتا ہے۔

پچھلے تقریباً 13 ماہ سے اس ملک کے لاکھوں ڈاکٹر اور طبی عملہ جو کورونا وبائی امراض کا مقابلہ کر رہے ہیں انتہائی مشکل حالات میں کام کر رہے ہیں۔

ممبئی میں ریزیڈنٹ ڈاکٹر بھاگیہ لکشمی نے کہا: ‘کووڈ کی اس دوسری لہر میں اپنی زندگی میں پہلی بار مجھے بہت سے پریشان لوگوں کو ‘نہیں’ کہنا پڑ رہا ہے۔

’لوگ وینٹیلیٹر، آکسیجن، بیڈ کے لیے آ رہے ہیں لیکن ایسے مشکل وقت میں لوگوں سے ‘نہیں’ کہنا پڑا کیونکہ کوئی بستر خالی نہیں۔ یہ بہت مایوس کن ہے۔’

ڈاکٹرز کی موت

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وبا کی وجہ سے اب تک انڈیا میں ایک لاکھ 87 ہزار افراد ہلاک ہوگئے ہیں اور انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن کے صدر پروفیسر جے اے جے لال کے مطابق ان میں 780 ڈاکٹرز شامل ہیں۔

کورونا نے کتنی نرسوں اور دیگر طبی عملے کی جان لی، اس کا علم نہیں ہے۔

پچھلے 13 ماہ میں طبی پیشے سے وابستہ افراد خاندانی پریشانیوں، کام کے دباؤ میں اضافے، آس پاس کی اموات اور تمام خوف کے باوجود مستقل کام کر رہے ہیں۔

بھاگیہ لکشمی نے کہا: ‘ہم ایک طویل عرصے سے ایسے دباؤ کے ماحول میں کام کر رہے ہیں۔ ہم گھبرا گئے ہیں۔’

ڈاکٹر بھاگیہ لکشمی کو کئی بار 10 گھنٹے پی پی ای کٹ پہن کر کام کرنا پڑتا ہے۔

افسردہ ماحول

کشمیر کے بارہمولہ ہسپتال میں بچوں کے امراض کے ڈاکٹر سہیل نائیک کا کہنا ہے کہ ایسی صورتحال میں کام کرنا انتہائی مشکل ہے ‘جب آپ پر اتنا ذہنی دباؤ ہے، آپ کے آس پاس کورونا ہی کورونا ہے، لوگ سانس نہیں لے پارہے ہیں۔’

ممبئی میں ریزیڈنٹ ڈاکٹر روہت جوشی کے مطابق ایسے حالات میں مستقل طور پر کام کرنا افسردگی کا باعث ہوتا ہے اور ’کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ کیا کسی کو اتنا کام کرنا چاہئے یا چھوڑ دینا۔’

سینئر ڈاکٹروں اور کنسلٹینٹس کے مقابلے میں ریزیڈنٹ ڈاکٹر 24 گھنٹے ڈیوٹی پر ہوتے ہیں۔

’مسلسل کئی دنوں تک 10-10 گھنٹے تک پی پی ای کٹ پہن کر کووڈ مریضوں کے درمیان کام کرنا، چاہ کر بھی لوگوں کی مدد نہ کر پانا، رات کے وقت کسی بھی وقت ڈیوٹی کے لیے بلایا جانا، کئی دن تک نیند نہیں آنا، صبح سے شام تک مستقل دباؤ والے ماحول میں کام کرنا، ٹھیک محسوس نہ ہونے کے باوجود کام کرنا، اپنے آس پاس موت کو دیکھنا اور رشتہ داروں کا رونا تڑپنا دیکھنا۔ اس طرح کے دباؤ کے ماحول میں مستقل طور پر کام کرنا کسی کو بھی تھکا سکتا ہے۔‘

ڈاکٹر روہت جوشی کہتے ہیں: ‘مریض بہت زیادہ ہیں، عملہ بہت کم ہے۔ ایک ڈاکٹر کو بہت سارے مریض دیکھنا پڑتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں اگر دو تین مریضوں کی حالت خراب ہوجاتی ہے تو مسئلہ بڑھتا ہے۔

‘ایسا لگتا ہے کہ ہمیں بہت سارے مریض دیکھنے ہیں اور ہمارے پاس وقت کم ہے۔ ہمیں تیزرفتاری سے کام کرنا ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے آپ مریض کو 15-20 منٹ سے زیادہ وقت نہیں دے سکتے ہیں۔’

ایسا نہیں ہے کہ ہسپتالوں میں کووڈ مریضوں کی تعداد میں ہی اضافہ ہوا ہے۔ کووڈ منفی افراد کو بہتر طبی نگہداشت کے لیے غیر کووڈ وارڈ میں بھیجا جاتا ہے۔ مریضوں کی تعداد وہاں بھی بڑھ چکی ہے۔

آخر کب تک

لیکن جیسے ہی کووڈ کی دوسری لہر پھیلی ہے آکسیجن، ہسپتال مین بیڈ اور دوائیوں کی کمی کی وجہ سے لوگ مر رہے ہیں۔ ایسے میں ڈاکٹر پوچھ رہے ہیں کہ یہ دور کب تک جاری رہے گا۔

ریاست بہار کے بھاگلپور میں ایک طویل عرصے سے اپنے کنبے سے دور کام کرنے والی ایک خاتون ہیلتھ ورکر کے مطابق ‘اگر مزید طویل عرصے تک جاری رہا تو ہم اپنے اہل خانہ سے علیحدہ نہیں رہ سکتے ہیں۔’

لوگوں نے ہیلتھ ورکرز کے جذبے کو سراہتے ہوئے تھالیاں اور تالیاں دونوں بجائيں لیکن صحت کے لیے کام کرنے والے کارکن لوگوں سے التجا کر رہے ہیں کہ وہ وائرس کو روکنے اور معاشرتی دوری کے قواعد پر عمل پیرا ہونے اور ماسک پہننے میں اپنا تعاون کریں۔

جموں میں خواتین کے امراض کی ماہر امندیپ کور آنند کا کہنا ہے کہ ‘پہلے ہم اپنی جان کی بازی لگاکر کام کرتے تھے۔ لیکن اس بار ہم اپنے اہل خانہ کی زندگی کو بھی خطرے میں ڈال رہے ہیں۔’

امندیپ گاندھی نگر کے ایک سرکاری ہسپتال میں کام کرتی ہیں ان کے والدین کی عمر 60 سال سے زیادہ ہے اور ان کی والدہ ذیابیطس کی مریض ہیں۔ اسی وجہ سے انھوں نے ان کے ہاں آنا جانا چھوڑ دیا ہے۔

اگست میں کووڈ سے متاثرہ حاملہ خواتین کی سرجری کے دوران امندیپ خود بھی کووڈ سے متاثر ہوگئیں۔

ڈاکٹر

ڈاکٹر امنیپ نے کہا: ‘اگست کے اس ہفتے میں میں نے دس کووڈ مثبت خواتین کے سیزیریئن آپریشن کیے۔ ان کے بچے کووڈ منفی تھے۔ اس سے مجھے یہ احساس ہوا کہ اوپر والا ہمارے ساتھ ہے۔’

اس وقت پورے جموں میں ان کا ہی ایک ہسپتال تھا جہاں کوڈ مثبت لوگوں کی سرجری ہوتی تھی۔

وہ ہر سرجری کے بعد نہاتیں اور پھر سرجری کرتیں۔

لوگ پونچھ، راجوری، کشتواڑ، ڈوڈا سے آتے اور امندیپ روزانہ دو سے تین سرجری کرتی تھیں۔

لاک ڈاؤن میں بھی وہ رات گئے سرجری کرنے کے لیے ہسپتال جاتی تھیں۔ ان دنوں کے ماحول، کام کا دباؤ، کام کے بعد ایک وقت تک سب سے فاصلہ رکھنا، ان سب کا ان کے جھوٹے بیٹے پر اس طرح اثر ہوا کہ امندیپ کو اپنے استاد سے بات کرنی پڑی۔

پی پی ای کٹس پہن کر سرجری کرتے وقت ایسا بھی ہوا کہ انھیں چکر آنا شروع ہوگیا۔ ایسی صورتحال میں وہ تھوڑی دیر بیٹھتیں اور پھر کام کرتیں۔

پی پی ای کے ساتھ بھی احتیاط

پی پی ای پہننے سے آپ پسینے سے شرابور ہوجاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کا جسم نمک اور پانی تیزی سے خارج کرتا ہے۔ یہاں تک کہ ایسے حالات میں آپ ماسک بھی نہیں کھول سکتے ہیں۔

لیکن ایسا نہیں ہے کہ اگر آپ نے پی پی ای کٹ پہن رکھی ہے تو آپ کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ جیسا کہ امندیپ اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ ہوا ہے اور انھیں بھی کورونا ہو گیا۔

دراصل کووڈ وارڈ میں صحت کے کارکن انتہائی خطرناک وائرل لوڈ کے ماحول میں کام کرتے ہیں۔

کھانسی اور چھینک کے ساتھ، وائرس ہوا کی بوندوں میں گھل جاتا ہے اور پی پی ای لباس پر بیٹھ جاتا ہے۔

اس کی وجہ سے ماسک کی اوپری سطح بھی انفکشن والی ہوجاتی ہے۔

پی پی ای کو کھولنے کا ایک طریقہ ہے اور آپ کو گاؤن، گوگلز کو ترتیب میں ہٹانا ہوتا ہے کیونکہ پی پی ای کھولتے وقت ایروسولز اور ذرات اسی کمرے میں رہ جاتے ہیں۔

ڈاکٹر امندیپ کور کے شوہر ڈاکٹر سندیپ ڈوگرا کے مطابق کورونا کی پہلی لہر میں پی پی ای پہننے کے باوجود بہت سارے ڈاکٹر کووڈ مثبت تھے کیونکہ وارڈ سے آنے کے بعد ان کا خیال تھا کہ اب وہ باہر آگئے ہیں اور ان کا کچھ نہیں ہوگا لیکن آپ کو کمرے میں ماسک نہیں ہٹانا ہوتا ہے۔

وہ کہتے ہیں: ‘یہ بات اس وقت معلوم نہیں تھی۔ اب سمجھ آ رہی ہے۔’

اہل خانہ سے متعلق خوف

لیکن جس خوفناک طریقے سے دوسری لہر میں کورونا وائرس پھیل رہا ہے، ڈاکٹروں میں یہ خوف ہے کہ کہیں وہ اپنے خاندان میں اس وائرس کو نہ پھیلارہے ہیں۔

بہار کے ضلعے موتیہاری کے سرجن ڈاکٹر آشوتوش شرن کا کہنا ہے کہ ‘گاؤن، دستانے او پی ڈی سے آنے کے بعد سب کچھ تبدیل کردیتے ہیں۔ خود کو سنیٹائز کرتے ہیں۔ گھر جاتے ہیں تو ہم گرم پانی سے نہاتے ہیں۔ اس کے بعد ہی گھر میں داخل ہوتے ہیں۔’

ڈاکٹر شرن کا اپنا نرسنگ ہوم ہے۔

انھیں ویکسین لگ چکی ہے لیکن وہ ڈرتے ہیں کہ کہیں وہ اپنی پوتی اور دوسرے عملے کو متاثر تو نہیں کریں گے۔

پینسٹھ سالہ ڈاکٹر شرن کا دن صبح نو بجے شروع ہوتا ہے اور رات کے دو بجے ختم ہوتا ہے۔

پچھلے 13۔14 مہینوں میں صرف ایک بار خاندان کے ساتھ پوتی کی سالگرہ منانے کے لیے سلی گوری جا سکے۔ وہ بھی اس وقت جب یہ محسوس ہوا کہ ملک میں دسمبر، جنوری میں کورونا کے واقعات کم ہو رہے ہیں۔

دوسری طرف ممبئی کے ڈاکٹر جوشی کا خیال ہے کہ بہت سارے لوگ ڈاکٹروں کی ہمت اور جذبے کو نہیں سمجھتے ہیں۔

ڈاکٹر روہت جوشی کے مطابق: ‘لوگ کہتے ہیں کہ اگر کسی ڈاکٹر نے ریمڈیسویر لکھ دی ہے تو وہ پیسے کے لیے لکھی ہے۔ یا یہ کووڈ ہسپتالوں کا پیسہ کمانے کا طریقہ ہے۔ جب میں یہ سنتا ہوں تو میں کچھ نہیں کہتا ہوں۔ آپ لوگ بدل نہیں سکتے۔ لیکن بہت سارے لوگ ہیں جو ان کی حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں۔ ان کی وجہ سے حوصلہ بڑھتا ہے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp