کورونا کی تیسری لہر



دنیا بھر میں کورونا وبا پھیلی ہوئی ہے اور اس کی تباہ کاریاں جاری ہیں ، کروڑوں لوگ اس وبا کا شکار ہو چکے ہیں جبکہ لاکھوں کی اموات ہوئیں۔ پاکستان میں اس وقت اس کی تیسری لہر جاری ہے جو کہ اچھی خاصی خطرناک ثابت ہوئی ہے ۔ گزشتہ چند ہفتوں سے کورونا کیسز کی روزانہ کی تعداد پانچ ہزار سے زائد رہی جبکہ روزانہ سو سے زیادہ اموات ہو رہی ہیں۔ اس وقت پنجاب اور خیبرپختونخوا میں برا حال ہے ۔ ہسپتالوں اور پیرامیڈیکل اسٹاف پہ بہت بوجھ پڑا ہوا ہے۔ صوبہ سندھ میں بھی اب تیزی سے کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے۔

اپریل کے مہینے میں اب تک دو ہزار چار سو گیارہ اموات ہو چکی ہیں۔ جہاں ایک طرف یہ صورتحال ہے، وہیں یہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ جیسے جیسے کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے ویسے ویسے لوگوں کے دلوں سے کورونا کا خوف ختم ہوتا جا رہا ہے۔ عوام نے آہستہ آہستہ حکومت کے جاری کردہ ایس او پیز میں عمل کرنا کم کر دیا ہے۔ لوگ اب ماسک پہننے اور سماجی فاصلہ رکھنے پہ زیادہ توجہ نہیں دے رہے۔

یہ صورتحال دیکھ کر اب حکومت نے فوج کو بڑے شہروں میں طلب کر لیا ہے تاکہ فوج پولیس کے ساتھ مل کر ایس او پیز پہ عمل درآمد کروا سکے۔ دیکھتے ہیں کہ فوج کی بات بھی لوگ مانتے ہیں یا لوگوں کی لاپروائی جاری رہتی ہے۔

این سی او سی کے سربراہ اور وفاقی وزیر اسد عمر کا ایک بیان نظروں سے گزرا۔ ان کا کہنا تھا کہ ”عوام کے دلوں سے کورونا کا خوف ختم ہو گیا اور انتظامیہ تھک گئی ہے“ اس ایک جملے میں پوری صورتحال واضح ہو جاتی ہے۔ ہم اپنا طرز زندگی بدلنے کو تیار نہیں ہے جب تک کورونا ہم تک نہ پہنچ جائے ہم اسے ماننے سے ہی انکاری ہیں ، بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ کورونا کوئی حکومتی پروپیگنڈا ہے۔

کم از کم میں تو اس بات کو نہیں مانتی کیونکہ میں نے اپنی ایک فیملی ممبر کو اسی وبا کی دوسری لہر کے دوران کھویا ہے ، مجھے یہ سب جھوٹ نہیں لگتا، ہم نے اپنی آنکھوں سے ہسپتالوں کا حال دیکھا ہے ، وہاں مریضوں کو تڑپ تڑپ کر مرتے دیکھا ہے ، ہم کیسے مان لیں کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں جھوٹ بول رہی ہیں۔

جس دوران میری فیملی ممبر کی موت ہوئی ، ہم نے دیکھا کہ ہسپتال کا عملہ تن دہی سے اپنا کام کرنے میں مصروف ہے۔ انہیں دیکھ کر مجھے رحم آتا تھا اور میں سوچتی تھی کہ یہ لوگ کتنے عظیم ہیں جو اپنی جان کی پروا کیے بنا اپنے پیاروں کو چھوڑ کر یہاں ہماری مدد کے لئے موجود ہیں۔ وہ بھی تو کسی کے بچے کسی کے باپ، بھائی، ماں اور بہن ہوں گے ، ان کا بھی تو دل چاہتا ہو گا کہ سب چھوڑ چھاڑ کر اپنے پیاروں کے پاس چلے جائیں مگر وہ ڈیوٹی دے رہے ہیں۔ اگر ہم ان کا خیال کریں تو مجھے یقین ہے کہ خود بخود ہم ایس او پیز فالو کریں گے۔ ذرا سوچیں کہ اس وقت جب روزانہ 5 سے 7 ہزار کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں تو ہسپتالوں کا کیا حال ہو گا۔

پڑوسی ملک بھارت کی مثال بھی ہم سب کے سامنے ہے بھارت کے دارالحکومت دہلی سمیت تمام بڑے شہروں کا حال خراب ہے۔ ہسپتالوں میں مریضوں کو داخل کرنے کی جگہ نہیں ، آکسیجن کی شدید کمی کا بھی انہیں سامنا ہے ۔ وہاں سے جو ویڈیوز، تصاویر اور خبریں سامنے آ رہی ہیں ، ان کو دیکھ دل دکھی ہو رہا ہے اور خوف آ رہا ہے کہ اگر خدانخواستہ پاکستان میں یہی صورتحال ہوئی تو کیا بنے گا۔ ہماری حکومت ہماری معیشت اور سب سے بڑھ کر ہسپتالوں پہ کس قدر بوجھ پڑے گا ، ہم کیسے اس صورتحال کو سنبھالیں گے؟ کیا ہمارے پاس اتنے وسائل ہیں کہ روزانہ ہزاروں لاکھوں لوگوں کا علاج ہو سکے؟ یہ سب دیکھ کر اور جان کر بھی ہمیں سمجھ نہیں آ رہی تو اپنی کم عقلی پہ ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔

خدارا اپنا اور اپنے پیاروں کا خیال رکھیں ، ماسک پہنیں ، ہاتھ دھوئیں اور سماجی فاصلہ رکھیں ۔ کسی اور کے لئے نہیں اپنے لئے، اپنا خیال رکھیں۔ میری اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ یہ برا وقت ٹال دے اور پاکستان اور بھارت سمیت تمام ممالک سے اس وبا کو ختم کر دے۔ آمین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments