طالبان کا تصور جمہوریت اور اشرف غنی


آزاد اور خودمختار افغانستان میں مستحکم مرکزی حکومت کا قیام اور اسلامی نظام کا نفاذ اولین ترجیح ہو گا امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کے بعد طالبان کا دعوی ہے کہ وہ یہی دو اہم بنیادی اہداف حاصل کریں گے۔ امارت اسلامی افغانستان کو بدعنوانی، ظلم اور نا انصافی کے خاتمے اور ملک میں مرکزی اسلامی حکومت کے قیام کے لئے عمل میں لایا گیا تھا جسے امریکی شاطروں نے سازشیں کر کے ختم کر دیا تھا۔

کابل کٹھ پتلی انتظامیہ کے کارندے اور امریکی جارحیت کے حامی نام نہاد دانشور اور تجزیہ کار بار بار یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ طالبان کس طرح کا اسلامی نظام چاہتے ہیں؟ وہ افغان عوام کو گمراہ کرنے کے لئے اضطراب پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں اسلامی نظام کو ناقابل عمل دکھانا اور ثابت کرنا چاہتے ہیں۔

قرآن مجید، احادیث اور فقہ میں اسلامی نظام کی تعریف اور اصول بیان اور مرتب کیے گئے ہیں اور عملی طور پر اسلامی نظام نے سیکڑوں سالوں تک حکمرانی کی ہے۔

اس دور جدید میں بھی ملا عمر کی قیادت میں فقہ حنفی کے قواعد و ضوابط کے تحت طالبان نے اسلامی حکومت کا نظام کامیابی سے چلا کر دکھایا جس میں امن و امان کی مثالی صورتحال کی تعریف کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے ادارے بھی نہیں تھکتے تھے جس کا تختہ امریکیوں نے سازشیں کر کے الٹا تھا اور اب 20 سال کی ذلت و خواری کے بعد بے نیل و مرام واپس جا رہے ہیں۔

اسی طرح اسلام کے دوسرے بڑے سکول آف تھاٹ فقہ جعفر یہ کے اصول و ضوابط کے تحت گزشتہ 40 برسوں شرعی اسلامی حکومت تہران میں ہزار مشکلات کے باوجود کامیابی سے رواں دواں ہے۔ اسلامی نظام کے امن اور ہمدردی کے سائے میں اقلیتوں نے ہمیشہ پر امن زندگی بسر کی ہے۔ جبکہ ملوکیت اور بادشاہت کا ”اسلامی نظام“ بھی سارے مشرق وسطی میں جاری و ساری ہے وہاں انسانی حقوق اور خواتین کی حالت زار پر ”مہذب“ دنیا دکھاوے کے آنسو بہاتی رہتی ہے۔

رہی خالص مغربی جمہوریت تو اس کا کلی نفاذ امریکیوں کو کسی طرح گوارا نہیں مصر کے صدر مرسی اس کا زندہ ثبوت تھے جن کی حکومت کا تختہ الٹنے پر فرعون جدید جنرل فاتح سیسی کو نقد 6 ارب ڈالر ”انعام“ عطا کرنے کے لئے سابق خادم حرمین شریفین شاہ عبداللہ مرحوم آخری سانسوں پر قاہرہ ائرپورٹ پہنچے تھے جہاز سے نہ اتر سکے تو جنرل سیسی نے جہاز میں آ کر جمہوریت کے قتل کا معاوضہ وصول کیا تھا جس کی چند بعد حرمین شریفین کا یہ خادم انجام بد کا شکار ہوا تھا۔

افغانستان میں طالبان حکومت کے خاتمے سے اقوام عالم کو بہت نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ افسوس صد افسوس کہ مسلم دنیا اپنے نمک حرام بیٹوں کی غداری کی وجہ سے حقیقی اسلامی نظام کے برکات سے محروم ہے سیکولرازم اور کمیونزم اور بادشاہت کے مظالم کا شکار ہے۔

طالبان افغانستان میں کس طرح کا نظام چاہتے ہیں ان کا تصور حکمرانی کیا ہے؟

طالبان کا تصور اسلامی طرز حکمرانی بڑا سادہ اور عام فہم ہے جس کا بنیادی زور امن و امان کے قیام اور فوری انصاف کی فراہمی پر ہے وہ ایسا اسلامی نظام چاہتے ہیں جہاں قاتل کو قصاص دینا پڑے، چور کا ہاتھ کاٹ دیا جائے، زانی پر حد جاری کی جائے، ظالم کا ہاتھ طاقت سے روکا جائے، مظلوم کو ظلم سے نجات دلائی جائے، رشوت لینے والوں کو فوری سزا دی جائے، غاصبوں سے بیت المال کو بچایا جائے۔

اب کی بار طالبان کی دوسری ترجیح خواتین کے حقوق کا تحفظ ہو گا وہ ایسا نظام حکومت چاہتے ہیں جس میں خواتین کے حقوق محفوظ ہوں، وراثت میں انہیں حق دیا جائے، دشمنی میں انہیں صلح کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے، خواتین کو اپنی مرضی سے شادی اور شوہر کے انتخاب کا حق دیا جائے گا۔ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانے والوں کو کوڑے لگائیں، عورت کو شرعی حجاب میں تعلیمی، صحت، تجارتی اور معاشرتی معاملات میں معاشرے کی خدمت کرنی چاہیے۔

وہ ایسا اسلامی نظام چاہتے ہیں جس میں ملکی سالمیت کا تحفظ ہو، افغان غیر ملکی افواج، اجنبی نظریات اور مغربی قانون سے پاک ہو۔ وہ اپنی مذہبی اقدار، معاشرتی روایات قومی مفادات، ثقافت اور افغان روایات کا تحفظ کرے۔

وہ ایسا نظام چاہتے ہیں جو معاشرتی اور انفرادی حقوق اور حیثیت کا تحفظ کرے، لوگوں کی جان، مال، عزت اور وقار کو کوئی بری نظر سے نہیں دیکھ سکتا اور روز مرہ زندگی کے سارے معاملات شریعت کے مطابق طے کیے جائیں۔

افغان طالبان بتا رہے ہیں کہ وہ ایسے نظام ”جمہوریت“ برداشت نہیں کر سکتے جس میں قوم کا قاتل ’مارشل‘ ، چور ’جج‘ اور غاصب اور خائن ’سینیٹر‘ ہو۔

وہ ایسا نظام نہیں چاہتے جس میں افغان صدر فخر کے ساتھ اپنا بنیادی کام نیویارک اور واشنگٹن کے مفادات کی حفاظت کرنا سمجھیں اور اس کے لئے وہ افغان بچوں اور خواتین کو مار ڈالیں، مساجد، مدرسوں، اسکولوں اور اسپتالوں پر حملے کریں اور قابض افواج کے جرنیلوں کو پھولوں کے ہار پہنائیں اور تمغوں سے نوازیں۔

وہ ایسا نظام نہیں چاہتے جہاں صدارتی محل میں انتظامی اور اخلاقی کرپشن عروج پر ہو، اور اس طرح کی شرمناک اور گھناؤنی حرکتوں کا حکام کی برطرفی اور تقرر میں فیصلہ کن کردار ہو۔

وہ ایسی جمہوریت نہیں چاہتے جہاں قابض ممالک کے سول اور فوجی حکام صدر مملکت کو اطلاع دیے بغیر آتے جاتے ہوں، اور افغان صدر کو اپنے فوجی اڈوں پر طلب کرتے ہوں اور پھر فوجیوں کی لائن میں ایک عام سپاہی کی طرح کھڑا کر دیتے ہیں۔

مختصر یہ کہ وہ ایسا نظام حکومت چاہتے ہیں جو مرد و خواتین، جوان اور بوڑھے، مسلمان اور کافر کے حقوق کا تحفظ کرے، جو امن و انصاف فراہم کرے، اپنے حقوق کا دفاع کرے، آزادی کو برقرار رکھے، ہر حملہ آور اور باغی کو عبرتناک شکست دے اور اپنے دین، ملک، عوام، عزت، مفادات اور وقار کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل کرے، وہ اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کر سکتے ہیں کہ روحانی اور مادی مفادات کسی بھی دوسرے نظام کی نسبت اسلامی حکومت میں زیادہ محفوظ ہیں کیونکہ اسلامی نظام وہ قدر مشترک ہے جس میں تمام اقوام اور طبقات اپنے حقوق اور مفادات محفوظ دیکھتے ہیں اور صرف اسلامی نظام ہی خوشحال، ترقی یافتہ اور مستحکم افغانستان کی ضمانت دے سکتا ہے۔

‎افغان صدر اشرف غنی نے اپنے اہلکاروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم جمہوریت اور آزادی چاہتے ہیں۔ جمہوریت ہمارے لئے بہترین معیار ہے پھر بڑے ہی دھمکی آمیز لہجہ میں خبردار کرتے ہوئے کہا کہ طالبان اگر جمہوریت کے دائرہ میں بات چیت اور امن عمل کو بڑھانے کے لئے تیار ہیں تو ہم خیر مقدم کرتے ہیں اور اگر وہ اس دائرہ میں نہیں آنا چاہتے تو سن لیں! ان کے لئے افغانستان میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ اسی طرح سے اشرف غنی نے جمہوریت سے بیزاری دکھانے والے قبائلی رہنماؤں کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں جمہوریت کو بہر طور تسلیم کرنا ہو گا ورنہ انہیں بھی برداشت نہیں کیا جائے گا۔

‎ سوال یہ ہے کہ اشرف غنی کس قسم کی جمہوریت کی بات کر رہے ہیں؟

‎طالبان کے سیاسی دفتر دوحہ قطر میں کے ترجمان ڈاکٹر محمد نعیم نے طالبان کے تصور جمہوریت کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایسے عمل کو انتخابات اور جمہوریت کی توہین سمجھتے ہیں جس میں 10 لاکھ سے کم ووٹروں نے ووٹ ڈالے ہوں اسی بنیاد پر ایک ہی ملک میں دو افراد صدارت کے دعویدار بن جائیں۔

‎ چند ماہ ہوتے ہیں افغانستان کی عظیم تاریخ کو اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ نے رسوائی کی انتہا پر پہنچا دیا۔ تھا ان کے پاس 50 فیصد تو درکنار 20 فیصد ووٹ نہ ہونے کے باوجود دونوں جمہوریت پسندوں نے اپنی اپنی صدارت کا نہ صرف باضابطہ۔

‎ اعلان کیا بلکہ باقاعدہ تقاریب کر کے حلف بھی لے لئے گئے۔ اپنے ہی خوشامدیوں سے مبارکباد بھی وصول کی۔ اس شرمناک کردار پر دونوں بجا طور پر فخر کرتے نظر آئے اور ہر ایک بڑی ہی سینہ زوری سے اپنے کو قوم کا نمائندہ بھی کہلواتا رہا۔

‎بھلا یہ کون سی جمہوریت ہے؟

‎ طالبان قیادت کہتی ہے کہ ہمیں جمہوریت کی دعوت دینے سے پہلے اپنی گزشتہ بیس سالہ جمہوریت کی تاریخ پر گہری نظر کر لینی چاہیے اور شرم آنی چاہیے کہ اس سیاہ ترین کردار کے باوجود وہ کس منہ سے جمہوریت کا نام لیتے ہیں؟ جمہوریت کے نام پر جو کالے دھبے اور سیاہ کرتوت یہاں سرانجام دیے گئے ان سے نہ صرف افغان تاریخ کو دھچکا پہنچا بلکہ دنیا بھر میں جمہوریت اور انتخابات کی بھرپور رسوائی اور سبکی ہوئی۔

گزشتہ انتخابات میں، زر و زور کے بھرپور استعمال کے باوجود، اسی کابل انتظامیہ کی کے اعداد شمار کے مطابق انتخابات میں بمشکل 20 لاکھ لوگوں نے حصہ لیا جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ 2 کروڑ 80 لاکھ رائے دہندگان انتخابات اور جمہوری عمل سے گریزاں رہے ہیں۔ اب ایک طرف صرف 20 لاکھ ہیں اور دوسری طرف پورا افغانستان اور اس کی 2 کروڑ 80 لاکھ ‎آبادی۔ ہے جس جمہوریت کا نعرہ اشرف غنی بلند کرتا ہے اسی کی رو سے جمہوریت افغانستان میں مسترد اور نا چلنے والا نظام ہے جسے افغانستان میں ذرا بھر بھی پذیرائی حاصل نہیں ہے جسے اشرف غنی زور زبردستی سے اس نام نہاد جمہوریت کو مسلط کرنا چاہتا ہے اور جمہوریت نہ چاہنے والوں کے لئے کوئی جگہ نہیں چھوڑتا تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ یہ ملک افغانوں کا نہیں بلکہ ان معدودے چند افراد کا ہے جنھیں اشرف غنی کی طرح بیرون ملک سے برآمد کیا گیا ہے۔

‎اشرف غنی کی یہ بات کیونکر درست ہوگی کہ جو جمہوریت قبول نہیں کرے گا اسے کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ یہاں تو پورا ملک جمہوریت قبول کرنے کو تیار نہیں ہے اور اس کا مشاہدہ خود اشرف غنی دوسروں کو کراتا ہے پھر اشرف غنی کو اس حقیقت سے کس طرح صرف نظر کرنے کی گنجائش ہوتی ہے کہ یہ ملک آخر افغانوں کا ہے۔ ان افغانوں کا جن کی زندگی اور موت یہاں ہی ہوتی ہے جن کے بال بچے اور اہل خانہ سمیت سب کچھ سرمایہ حیات یہاں ہوتے ہیں جو ہر طرح کی سختی اور مصیبت میں ملک کے اندر ہی رہتے ہیں تو یہ فیصلہ کہ یہاں جمہوریت ہوگی یا نہیں۔

‎ اس فیصلہ کا اختیار ان لوگوں کو کیسا دیا جاسکتا ہے جن کے لئے یورپی پاسپورٹ افغان قومیت سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے جن کی زندگی یہاں گزرتی ہے اور نہ ہی موت یہاں آتی ہے جن کے بچے یہاں ہوتے ہیں اور نہ ہی گھر کے دوسرے افراد جو حکمرانی کے لئے تو آتے ہیں مگر مصیبت کے وقت بھگوڑے بن جاتے ہیں جو امریکا اور بیرونی آقاؤں کے وفادار ہوتے ہیں۔ انہیں افغان قوم کے مقدر کا فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں دیا جا سکتا جو اس ملک میں اپنے بچوں کا رہنا سہنا گوارا نہیں کر سکتا وہ افغان قوم کے مستقبل کا فیصلہ کیسے کر سکتا ہے۔

حرف آخر یہ کہ شعلہ جوالہ جمہوری رہنما مریم نواز شریف کی لندن روانگی تمام مراحل بتدریج عبور کر رہی ہے آخری رکاوٹ وزیر اعظم عمران خان کو سمجھایا جا رہا ہے۔

جمہوریت کی اس شہزادی مریم نواز شریف کی رہائی کے لئے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور معروف قطری شہزادہ باہم مل کر سر توڑ کوششیں کر رہے ہیں قطر اور سعودی بحران کے خاتمے میں بھی مریم بی بی کی رہائی نے اہم کردار ادا کیا ہے اب دبئی کے شہزادے نے پاکستان کو دیے جانے والے 2 ارب ڈالر قرض کو قرض حسنہ میں بدلنے کی پیش کش کر دی ہے یہ بھاری رقم قطری شہزادہ ادا کرنے کا پابند ہو گا۔

جناب نواز شریف کی پراسرار خاموشی کا سبب بھی یہی کوششیں ہیں۔

اسلم خان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اسلم خان

محمد اسلم خاں گذشتہ تین دہائیوں سے عملی صحافت کے مختلف شعبوں سے منسلک رہے ہیں اب مدتوں سے کالم نگار ی کر رہے ہیں تحقیقاتی ربورٹنگ اور نیوز روم میں جناب عباس اطہر (شاہ جی) سے تلمیذ کیا

aslam-khan has 57 posts and counting.See all posts by aslam-khan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments