مسٹر ’فے‘ کی کمپنی (آخری حصہ)۔


پہلا حصہ: مسٹر ’فے‘ کی کمپنی (1)۔

مسٹر فے اپنی کمپنی کی بنائی ہوئی ’چِپ‘ کی کامیابی پر بہت خوش تھا، اسے یقین تھا کہ وقت گذرنے کے ساتھ یہ چِپ امیر طبقے کے علاوہ عام لوگوں میں بھی مقبول ہو جائے گی مگر اِس کے لیے ضروری تھا کہ چِپ کی پیداواری لاگت کم کی جائے اور پیدا واری لاگت کم کرنے کے لیے ضروری تھاکہ چِپ کی فروخت وسیع پیمانے پر ممکن بنائی جائے۔ مگر فی الحال یہ تمام باتیں دور ازکار تھیں، فوری ضرورت اِس بات کی تھی کہ امیر طبقہ، جو اِ س چِپ کا اصل طلبگار تھا، اسے زیادہ سے زیادہ تعداد میں یہ چِپ فروخت کی جائے۔ مسٹر فے نے اپنی کمپنی کے چند ملازمین کو بطور نمونہ یہ چِپ لگا کر اِس کی افادیت کا عملی مظاہرہ تو پیش کردیا تھا مگر کمپنی کے لیے یہ ممکن نہیں تھاکہ وہ ہر چِپ کے ساتھ ایک انسان بھی ’فروخت ‘کرتی۔ شہر کے امیر آدمیوں نے اِس چپ کی خریداری میں دلچسپی ظاہر کی تھی مگر انہیں معلوم تھا کہ یہ چِپ اُس وقت تک کسی کام کی نہیں جب تک اسے کسی انسان کے بازو میں پیوست نہ کیا جائے۔

مسٹر فے پہلے ہی اِس مسئلے کو بھانپ چکا تھااور اِس کی کوشش تھی کہ کسی طرح کچھ لوگوں کو رضاکارانہ طور پر اِس بات پر آمادہ کیا جائے کہ وہ سائنس کے نام پر یہ چِپ اپنے بازو میں لگوائیں تاکہ اس کے ثمرات کا درست اندازہ لگایا جا سکے۔ اُس شہر میں البتہ ایسے رضاکار ملنا مشکل تھے۔ مگر پھر ایک واقعے نے یہ مشکل آسان کر دی۔ ہوا یوں کہ شہر کے سب سے رئیس آدمی کا ایک سابقہ ملازم رئیس کے پاس آیا اور کچھ روپوں کی درخواست کی، اُس نے کہا کہ اگلے ماہ اُس کی بیٹی کی شادی ہے جس کے لیے اسے قرض چاہیے، ایسے میں اگر رئیس اُس کی مدد کر دے تو وہ زندگی بھر اُس کا احسان مند رہے گا۔ رئیس نے جب یہ بات سنی تو فوراً اُس کے دماغ میں ایک خیا ل آیا، اُس نے اپنے ملازم سے کہا کہ اسے جتنے پیسے چاہئیں مل جائیں گے مگر اِس شرط پر کہ اسے اپنا بیٹا بطور ملازم حویلی میں رکھوانا ہوگا۔ اُس غریب نے جب یہ سنا تو بہت خوش ہواکہ نہ صرف بیٹی کی شادی کا مسئلہ حل ہو گیا بلکہ جوان بیٹے کو بھی حویلی میں ملازمت مل گئے۔ رئیس نے البتہ ایک شرط رکھی کہ حویلی میں داخلے سے پہلے اُس کے بیٹے کو بازو میں چِپ لگوانی پڑے گی۔ اُس غریب نے چِپ کے بارے میں سنا ضرور تھا مگر اسے مکمل علم نہیں تھا کہ یہ چِپ کیا کام کرتی ہے۔ اُس کی مجبوری ایسی تھی کہ ہامی بھرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا، سو اُس نے روپوں کے عوض اپنا بیٹا رئیس کے حوالے کر دیا اور یوں پہلا چِپ لگا انسان رئیس کے گھر آ گیا۔

مسٹر فے کو اِس واقعے کا علم ہوا تو اُس نے فوراً اپنے سیلز منیجر کو بلایا اور ذمہ داری سونپی کہ وہ شہر کے ایسے ضرورت مند لوگوں کا پتا لگائے جنہیں پیسے کی اشد ضرورت ہے اور جو گھر میں کام کاج کرنے کے قابل ہیں اور پھر ان لوگوں کو بازو میں چِپ لگوانے کے عوض پیسوں کی پیشکش کی جائے۔ مسٹر فے کی اسکیم کامیاب رہی، چندلوگ اس کام کے لیے آمادہ ہو گئے۔ اِس ضمن میںمسٹر فے کی کمپنی نے کچھ چالاکی بھی دکھائی اور لوگوں کو باور کروایا کہ یہ چِپ صرف اُن کی ملازمت کے وقت کا حساب رکھے گی تاکہ انہیں معاوضے کی ادائیگی میں کوئی دقت نہ ہو، لوگ سادہ تھے، انہیں لگا کہ یہ چِپ انہی کے فائدے میں ہے سو وہ مان گئے۔ کمپنی نے یہ یقین بھی دلایاکہ وہ جب چاہیں اِس چِپ کو نکلوا سکتے ہیں۔ تاہم جو بات مسٹر فے کی کمپنی نے نہیں بتائی وہ یہ تھی کہ ایک مرتبہ چِپ لگوانے کے بعد انسانی ذہن یہ فراموش کر دیتا ہے کہ وہ کسی کمپیوٹر چِپ کے تابع ہے، وہ بالکل اسی طرح کام کرتا ہے جیسے کوئی بھی دوسرا نارمل انسان، فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ چِپ والا شخص اپنے مالک کے حکم سے سرتابی نہیں کر سکتا اور مالک اُس کے ذہن کی سلیٹ پر جو چاہے لکھ سکتا ہے۔

یوں اُس شہر میں روبوٹ نما انسان وجود میں آ گئے۔ گو اِن کی تعداد ابھی زیادہ نہیں تھی مگر یہ بات ایسی حیرت انگیز تھی کہ چند ہی دنوں میں اِس کی گونج حکومتی ایوانوں تک پہنچ گئی۔ بائیں بازو کے ایک اخبار نے، جو انسانی حقوق کا علمبردار تھا، مسٹر فے کی کمپنی کے خلاف ایک تحقیقاتی خبر شائع کی جس میں بتایا کہ کیسے یہ کمپنی انسانوں کو روبوٹ میں تبدیل کرکے غلام بنا رہی ہے۔ یہ خبر ایک اعلی ٰ حکومتی اہلکار کی نظر سے گذری تو اُس کا ماتھا ٹھنکا، اُس نے فوراً ایک خفیہ رپورٹ بنا کر حکام بالا کو بھیج دی۔ عموماً اس قسم کی سرکاری رپورٹوں پر غور کرنے کی فرصت کسی کے پاس نہیں ہوتی مگر یہ معاملہ کچھ ایسا تھا کہ حکام بالاکو فی الفور ایک اجلاس طلب کرنا پڑا۔ طویل سوچ بچار کے بعداُس اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ مسٹر فے کی کمپنی کو حکومتی تحویل میں لے کر ربوٹ نما انسانوں کی تیاری فوری طور پر بند کی جائے کہ یہ انسانی حقوق کی صریحاً خلاف ورزی کے ذمرے میں آتا ہے۔ البتہ اِس فیصلے کے نیچے باریک حروف میں یہ عبارت بھی لکھ دی گئی کہ مصنوعی ذہانت جدید سائنس کا ایک ایسا کارنامہ ہے جو انسانیت کا مستقبل تبدیل کر دے گا لہذا اِس سے استفادہ کرنے کے لیے حکومت ’ضروری اور مناسب اقدامات ‘ کرے گی۔

مسٹر فے کی کمپنی بند کر دی گئی، بائیں بازو کے اخبار پر پابندی لگا دی گئی مگر چِپ تیار کرنے والا کارخانہ بند نہیں کیا گیا، اسے حکومتی اہلکاروں نے اپنے قبضے میں لے لیا اور وہاں سائنس دانوں کو کہا کہ وہ اپنا کام پہلے کی طرح ہی جاری رکھیں۔ کمپیوٹر چِپ کا نام تبدیل کرکے ’مائیکرو نالج ‘ رکھ دیا گیا اور لوگوں کو باور کروایا گیا کہ یہ مائیکرو نالج چِپ اُن میں مصنوعی ذہانت پیدا کردے گی جس کی مدد سے اُن کی زندگیوں میں انقلابی تبدیلی آجائے گی۔ امتحانات میں کامیابی، اعلیٰ اور پرکشش ملازمتوں کے حصول اور حب الوطنی کے معیار پر پورا اترنے کے لیے اِس مائیکرو نالج چِپ کا حصول ضروری قرار پایا۔ اُس شہر کے لوگ اب اسے بخوشی اپنے بازومیں پیوست کرواتے ہیں اور کسی کو احساس ہی نہیں ہو پاتا کہ وہ روبوٹ نما انسان ہے!

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 490 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments