عامر لیاقت کا ناگن ڈانس اور دیگر کہانیاں


عروج و زوال کی بہت سی کہانیاں بہت سے قصے ہم ہمیشہ سے سنتے آئے ہیں۔ مثلاً برطانیہ کا زوال دیکھئے۔ میرے والد 1940 ء میں پیدا ہوئے اور آپ کا 1999 ء میں انتقال ہوا۔ آپ کی محض انسٹھ سال کی زندگی میں تقریباً سارا ہی برطانوی سامراج ختم ہو گیا۔ بس کچھ ڈومینین بچ گئے۔ مگر زوال صرف سیاسی یا جنگی طاقت کا نہیں ہوتا۔ زوال علم کا بھی ہوتا ہے، اخلاقیات کا بھی ہوتا ہے اور جمالیات کا بھی ہوتا ہے۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ایک قسم کا عروج دوسرے قسم کے عروج کا باعث بنتا ہے اور ایک قسم کا زوال دوسری قسم کے زوال کا باعث۔

برصغیر پاک و ہند کے سیاسی زوال کی ابتداء 1707 ء میں اورنگزیب کے انتقال سے ہوئی تھی۔ پھر یہ سلسلہ 1757 ء میں پلاسی کی شکست اور بعد ازاں بکسر اور دیگر شکستوں میں بڑھتا گیا۔ 1857 ء اس زوال کا آخری اعلان تھا۔ اس کے بعد مسلمانان ہند کا سیاسی زوال مکمل ہو گیا۔ یہ شکست سیاسی تھی، سرسیدؔ، حالی ؔ اور بعد کے اسی فکر کے حاملین نے اس کو تہذیبی شکست میں بدل دیا۔ خواجہ حسن نظامی ؔ اپنے 1857 ء کے مجموعے میں فرماتے ہیں (جس کا مفہوم ہے ) کہ مسلمان اب بندوق کی طاقت سے انگریز کو ہرانے کی سعی کرنا چھوڑ ہی دیں تو بہتر ہے اس لیے کہ 1857 ء میں بندوق انگریز کے آگے کیسے ناکام ہوئی یہ سب پر عیاں ہے۔ نظامی صاحب پر انگریز کی فوجی قوت اور عالمی طاقت کا خوف کتنا طاری ہے یہ ان کے مجموعے میں واضح ہے۔ مگر یہ سوچ صرف نظامی صاحب کی کہاں تھی۔ جب اپنی تلوار اور بندوق پر سے مسلمانان ہند کا اعتماد ختم ہوا تو یہ سلسلہ ہر سطح پر بڑھتا ہی گیا۔

رفتہ رفتہ ہمارا سیاسی زوال پھول اور پھیل کر ہمارے نفسیاتی زوال میں ڈھل گیا۔ کہنے کو اب ہم آزاد ہیں بلکہ ہمیں آزاد ہوئے سات دہائیاں سے زیادہ بیت گئیں مگر ہم میں زوال کی علامات بڑھتی ہی جاتی ہیں۔ اب یہ زوال صرف سیاسی یا جنگی نہیں۔ ہمارا زوال اب بڑی حد تک اخلاقی ہے اور اس سے بھی بڑھ کر جمالیاتی۔ ہماری اخلاقیات مری ہو یا زندہ ہو مگر ہماری جمالیات مر چکی ہے۔ کون کہے گا کہ ہم نے ’خیال‘ جیسا راگ ایجاد کیا تھا۔

کون مانے گا کہ میر ؔکی غزل اور امیر خسروؔ کے دوہے ہمارے تھے۔ کون کہے گا کہ بابا فرید، بھلے شاہ اور شاہ لطیف کی شاعری ہماری تھی۔ کون مانے گا کہ تاج محل اور تخت طاؤس، شالیمار باغ اور گولکنڈہ کا قلعہ ہم نے تعمیر کیا تھا۔ ہمارے تہذیبی نشانات مکلی سے احمد آباد تک، اراکان سے سورت بندر تک پھیلے ہیں۔ ہم مسجد قوت الاسلام کے معمار اور قلات سے لے کر دوآبہ گنگا و جمن پر بنے قلعوں کے وارث ہیں۔ ہماری جمالیات تو وہ تھی کہ ہم نے تلوار، زرہ و خود کو بھی منقش کر دیا تھا۔ ہم نے تو سکوں پر بھی ایسی خطاطی نقش کی تھی کہ ان کی وقعت میں چار چاند لگا دیے تھے۔

اب ہماری خطاطی ختم ہوئی، قوالی و موسیقی نے دم توڑا، انگ رکھے، شیروانیاں غائب ہوئیں، کلاہ اور پگڑیاں مٹ گئیں، زیورات اور پکوان بے نگ و بدمزہ ہوئے۔ عمارات اب کنکریٹ کی ہیں۔ ان کی شکلیں ڈبوں جیسی ہیں۔ لالچ و ہوس نے آنگن اور صحن کھا لئے۔ کمروں میں ہوا کے راستے اب بند ہیں۔ غریب کے گھروں کی بد ہیئت دیواروں پر باہر چونا تو کیا پلستر بھی نہیں، امیر کے گھروں کی دیواروں پر گھٹیا ٹائل لگے ہیں۔ سڑکوں پر گٹر ابلتے ہیں۔

میدانوں پر قبضہ کر کے گھر بنتے ہیں، فلیٹ بنتے ہیں، مساجد، امام بارگاہیں اور خانقاہیں بنتی ہیں۔ یہ ایسا زوال ہے کہ جو ساری دنیا کے فتح کر لینے سے بھی ختم نہیں ہو سکتا۔ یہ زوال تب بھی ختم نہیں ہو سکتا اگر ایک روپیہ سو ڈالر کا ہو جائے۔ جب تاج محل بنانے والوں کے وارث ’پاکستان مانیومنٹ‘ بنانے لگیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ اب ہماری زبان اتنی اخباری کیوں ہے اور ہماری شاعری بازاری کیوں ہے۔

لوگ سمجھتے نہیں کہ انسان جمال کے بغیر انسان نہیں رہ سکتا۔ آپ کسی کو کتنی بھی تعلیم دے دیں مگر جمالیات ایک طویل تربیت کا ثمر ہوتی ہے۔ میر ؔکی شاعری کی برتری آج کے کسی بھی شاعر پر صرف اس لیے نہیں ہے کہ وہ 3 سو سال پہلے پیدا ہوئے تھے۔ ان کی شاعری اپنے جمال اور تجربے میں برتر ہے۔ تاج محل اس لیے ایک عظیم عمارت نہیں کہ وہ تب بہت خطیر سرمایہ خرچ کر کے تعمیر ہوئی تھی اس کی برتری کی بنیاد اس کا بے مثال جمال ہے۔ آپ آج اتنے ہی پیسے بھی خرچ کر لیں تو بھی تاج محل نہیں بنا سکتے اس لئے کہ وہ جس جمالیات کا ثمر ہے وہ وہ تجربہ مکمل طور پر ختم ہو چکا۔

چند دن قبل میری نظروں سے عامر لیاقت حسین کی ایک ویڈیو گزری جس میں وہ ناگن ڈانس کر رہا ہے۔ اس ناگن کا رقص میرے لئے ایک بہت بھیانک جمالیاتی جھٹکا تھا۔ میں اس ”ریپٹائل“ کو پہچانتا تو تھا مگر اس کے رقص نے میرے سامنے ہمارے قومی زوال کی ہر جہت کو واضح کر دیا ہے۔ آئیے اس ناگن کا پوسٹ مارٹم کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ہمارا زوال بکسر اور پلاسی سے آگے بڑھ کر کیسے ہمارے اخلاقی اور جمالیاتی قلعوں کے تاراج ہونے تک پھیل گیا ہے۔

سوچئے یہ وہ شخص ہے جو کہ 2002 ء سے کم و بیش ایک دہائی تک ’عالم آن لائن‘ نام کا پروگرام کیا کرتا تھا۔ سوچنے کی بات ہے کہ اگر یہ عالم نہیں بھی ہے تو علماء کی صحبت نے بھی اس پر کوئی اثر نہیں ڈالا؟ بلکہ اس کی ایک ایسی ویڈیو بھی موجود ہے کے جس میں یہ مولویوں اور نعت خانوں سے نہایت فحش مذاق کر رہا ہے، انہیں ذلیل کر رہا ہے، گالیاں بک رہا ہے مگر پھر بھی وہ علماء اور نعت خواں اس کے پروگراموں میں شرکت کرتے رہے اور اس سے چپکے رہے۔ سوچئے کہ یہ کیسا اخلاقی زوال ہے۔ لوگ گالیاں کھانے، توہین برداشت کرنے کے لئے تیار تھے کیونکہ وہ ٹی وی پر اپنی شکل دکھانا چاہتے تھے۔ اور ایسے لوگ علماء یا مذہبی طبقے کے تھے۔ لوگ دو ٹکے کی شہرت اور طاقت کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں اور جو طاقتور ہے وہ کمزور کا مذاق اڑا سکتا ہے اسے گالی بک سکتا ہے اس کے ساتھ کچھ بھی کر سکتا ہے۔

پھر سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ یہ شخص آج سے بیس سال پہلے ہی وفاقی وزیر مذہبی امور بن چکا ہے۔ یعنی اس کو ہمارے ملک کے مذہبی امور کی وزارت دی گئی تھی۔ کاش یہ شخص کسی اخلاقیات کا نہیں تو اپنے امیج کا ہی پاس رکھ سکتا۔ مگر آج کی تاریخ میں ہمارے معاشرے میں سب سے اہم ہو گئی ہے شہرت۔ باقی تمام چیزیں اس کے آگے چھوٹی ہیں۔ لوگ عجیب و غریب حرکات کرتے ہیں کہ اس بہانے لوگ ان کی یوٹیوب ویڈیوز دیکھنے لگیں۔ ایسا ہو تو ان کو پیسے ملتے ہیں۔ عامر لیاقت، میرا، متھیرا اور اس نوع کی چیزیں خبروں میں رہنے کے لئے کچھ بھی کر سکتے ہیں اس لیے کہ اب ہر قسم کی توجہ، چاہے وہ مثبت ہو یا منفی، محض ان کی انا کی آبیاری کے لئے ہی نہیں بلکہ دولت میں اضافے کے لئے بھی لازمی ہے۔

ہمارا زوال اتنا تیز ہے کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ ہماری نعت اور حمد، ام حبیبہ اور مظفر وارثی کے خوبصورت اور سادہ انداز سے کیسے محض تیس سالوں میں اویس قادری سے ہوتی ہوئی ’کنفرم جنتی‘ تک آ پہنچی یہ حیرت سے زیادہ ہیبت کا مقام ہے۔ ہر چیز کا ایک معیار ہوتا ہے۔ کیا آپ نے طارق عزیز، دلدار پرویز بھٹی، یا معین اختر کو کبھی اسٹیج پر ناگن ڈانس کرتے دیکھا؟ مگر ڈبلیو 11 اب ہمارا تاج محل ہے۔ عامر لیاقت نام نہاد مذہبی سکالر ہے، نام نہاد ڈاکٹر ہے، ’نام نہاد تحریک انصاف‘ کا لیڈر ہے مگر وہ اسٹیج پر ناگن بن کر لوٹ رہا ہے۔ اس کوا اپنی عمر اور رتبہ کچھ بھی اس عمل میں مانع نہیں۔ لوگ خوشی خوشی یہ رقص دیکھ رہے ہیں۔ انہیں اس حرکت پر ہنسی آ رہی ہے۔ یہ ہے عوام کے مزاح کی سطح۔ دیکھنے والوں کو کراہیت نہیں آتی۔ کرنے والے کو شرم نہیں آتی۔ ڈبلیو 11 اب ہمارا تاج محل ہے۔

زوال آدم خاکی زیاں تیرا ہے یا میرا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments