دور جدید میں ٹیکنالوجی کی مدد سے ’سکرین ٹائم‘ کیسے کم کیا جائے؟

کرسٹینا کریڈل - ٹیکنالوجی رپورٹر


یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ ٹیکنالوجی ہماری زندگی کا لازمی جزو ہے اور گذشتہ ایک برس میں تو اس بات پر یقین مزید پختہ ہو گیا ہے۔

ہم اپنی ڈیوائسز سے دوستوں اور گھر والوں سے رابطے میں رہتے ہیں، اپنے بچوں کو تفریح اور معلومات دونوں ہی فراہم کرنے کے لیے انھیں استعمال کرتے ہیں، اور سب سے بڑھ کر ہم انھیں استعمال کرتے ہوئے گھر سے کام کرتے ہیں۔

لیکن امریکہ کی سٹین فورڈ یونیورسٹی کی جانب سے کی گئی ایک نئی تحقیق کے مطابق مسلسل انٹرنیٹ کے ذریعے میٹنگ کرنے سے لوگ تھکاوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں اور اس کو ‘زوم فٹیگ’ (یعنی زوم استعمال کرتے کرتے تھک جانا) کہا گیا ہے۔

لیکن اس تھکن سے بچنے کے لیے ٹیکنالوجی کمپنیاں اب ایسے طریقے ڈھونڈ رہی ہیں جن کی مدد سے لوگ اپنے کام کرنے کی صلاحیت کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ اس کے ذریعے انھیں سکرین پر زیادہ وقت بھی گزارنا نہیں پڑتا۔

کام کے دوران وقفہ لیں

دنیا میں سافٹ ویئر بنانے والی معروف کمپنی مائیکرو سافٹ نے آؤٹ لُک پر ایک ایسی سہولت دی ہے جس کی مدد سے لوگوں کو کم دورانیے والی میٹنگز لینے پر مائل کیا جاتا ہے اور اس میں بار بار وقفہ ہوتا ہے۔

یہ سہولت مائیکرو سافٹ کی اپنی تحقیق کے بعد بنایا گیا جس میں کمپنی نے یہ دریافت کیا کہ مسلسل ہونے والی میٹنگز کی وجہ سے لوگ نہ صرف تھک جاتے ہیں بلکہ ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں اور وہ اپنی توجہ مرکوز نہیں کر پاتے۔

محققین نے 14 افراد کے دماغوں کا سکین کیا جب انھوں نے آدھے گھنٹے پر محیط چار میٹنگز متواتر لیں، جن میں سے ایک بغیر وقفے کے تھی اور دوسری میں ہر میٹنگ کے درمیان میں دس منٹ کا وقفے تھا۔

اس تحقیق کے تجزیہ سے یہ بات سامنے آئی کہ اگر وقفے کے بغیر میٹنگز کی جائیں تو اس سے لوگوں میں ذہنی دباؤ بڑھ جاتا ہے۔

برطانیہ میں مائیکرو سافٹ کے عہدیدار نک ہیڈرمان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘جسمانی طور پر سکرینز سے وقفہ لینا نہایت ضروری ہے، اور اس کی مدد سے آپ اپنی توجہ بحال کر سکتے ہیں۔’

انھوں نے کہا کہ کمپنیوں میں جو لوگ اہم عہدوں پر فائز ہیں ان کو چاہیے کہ وہ ‘گھر سے کام کرنے کے مثبت کلچر کو فروغ دیں’ اور اس کے لیے چند تراکیب بتائیں۔

  • میٹنگز کو 20 سے 40 منٹ تک محدود رکھیں۔
  • لوگوں سے ان کی خیر خیریت دریافت کرنے کے لیے بات چیت کریں جس میں کام کے حوالے سے کوئی گفتگو نہ ہو۔
  • کچھ ایسی میٹنگز کریں جس میں لوگ چل پھر سکیں اور صرف بیٹھے نہ رہیں۔
  • باؤنڈریز سیٹ کریں یعنی حدود کا تعین کریں۔

ایپل کمپنی کے بانی سٹیو جابز کی اسسٹنٹ ناز بہشتی کہتی ہیں کہ اگر ہم اپنے رویوں اور شیڈول کا حساب کتاب رکھیں تو ہم ٹیکنالوجی اپنے خلاف استعمال ہونے کے بجائے اپنے حق میں استعمال کرسکتے ہیں۔

ایسی متعدد تحقیق سامنے آئی ہیں جن کے مطابق فون اور ان میں بار بار پیغامات کے نوٹیفیکیشن آنا صحت اور توجہ برقرار رکھنے پر بُرا اثر ڈالتا ہے۔

یونیورسٹی آف کیلیفورنیا اروائن کی تحقیق کے مطابق ایک نوٹیفیکشن آنے کے بعد انسان اپنے کام کی جانب 23 منٹ کے بعد لوٹتا ہے۔ اور لوگ اپنے کمپیٹورز پر صرف 47 سیکنڈز تک توجہ دے سکتے ہیں کیونکہ پھر وہ اپنے فون کی سکرین دیکھنا چاہتے ہیں۔

حدود کا تعین

ایپل کمپنی اور گوگل دونوں نے اپنے سمارٹ فون استعمال کرنے والے صارفین کو ایسی سہولت دی ہے کہ انھیں احساس رہے کہ فون کس حد تک استعمال کیا جا رہا ہے۔

ان کے فون پر اس معلومات کی تفصیل آتی ہے جو یہ بتاتی ہے کہ انھوں نے کس ایپ پر کتنا وقت صرف کیا ہے اور ان کو کتنے نوٹیفیکیشن ملے ہیں۔

گوگل ایک ایسا فیچر بھی متعارف کرانے والا ہے جس میں صارف کو یہ بتایا جائے گا کہ اگر وہ چلتے ہوئے فون استعمال کر رہے ہیں تو ایسا نہ کریں اور سامنے دیکھیں۔

یونیورسٹی آف شکاگو کی تحقیق کے مطابق نوٹیفیکیشن نہ بھی آئیں تو محض فون کی موجودگی آپ کی توجہ کرنے کی صلاحیت کو متاثر کر سکتی ہے۔

ڈیجیٹل پرہیز

وہ لوگ جو اپنے فون کے نوٹیفیکیشن بند رکھنے سے قاصر ہوں، ان کے لیے دوسرے حل موجود ہیں۔

لائٹ فون ایک ایسا سادہ موبائل فون ہے جو صارفین کی توجہ برقرار رکھتا ہے۔

اس فون میں صرف کال اور میسج کی سہولت ہے اور اس کے علاوہ الارم کلاک بھی ہے۔ آپ اس میں کیکلولیٹر اور پاڈ کاسٹ کا ٹول بھی ڈال سکتے ہیں۔

لیکن اس فون کو بنانے والی کمپنی نے کہا ہے کہ ان کا وعدہ ہے کہ وہ ‘کبھی بھی اس میں سوشل میڈیا یا انٹرنیٹ یا ای میل کی سہولت نہیں دیں گے۔’

وبا کے دور میں لائٹ فون کو خریدنے والوں کی تعداد میں بتدریج اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

لیکن یہ بات بھی ہے کہ صرف 50 فیصد ایسے لوگ ہیں جن کا پہلا اور اصل فون لائٹ فون ہو، کیونکہ باقی لوگ اس فون کو ہفتہ وار، چھٹیوں یا پھر شام میں استعمال کرتے ہیں جب وہ اپنے کام سے وقفہ لینا چاہتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹیکنالوجی کمپنیوں کی یہ ’منافقت‘ ہے کہ وہ سکرین ٹائم کم کرنے کی ذمہ داری صارفین کو دے رہے ہیں جب اس ڈیوائس میں ہر چیز کو بنایا ہی ایسے گیا ہے کہ لوگ ہر وقت اسے استعمال کرتے رہیں۔

گہرے کام کی طرف توجہ

یونیورسٹی کالج لندن کے پروفیسر ڈنکن برمبی کہتے ہیں کہ یہ بات اب سمجھ آ رہی ہے کہ ‘بہت توجہ والا کام’ کرتے وقت انسان کو تنگ نہ کیا جائے۔

‘ہم یہ بات جانتے ہیں کہ بہت توجہ والا کام کرنے کے لیے گہری سوچ میں رہنا اور کام کرنا بہت مشکل ہے اور اس کے لیے وقت نکالنا دشوار ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’لیکن انھیں اس بات کا بھی ادراک ہے کہ ایسا کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ آپ اپنے باس کی مرضی کے مطابق چل رہے ہوتے ہیں۔

‘دور جدید میں کام کرنے کا طریقہ ہی توجہ برقرار رکھنے کے لیے مشکل ہے۔ ہم سکرین ٹائم کے دباؤ میں ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32289 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp