مہنگائی کا تاثر یا اصل مہنگائی؟ پاکستان میں افراطِ زر جانچنے کا نظام کتنا مؤثر ہے؟

تنویر ملک - صحافی، کراچی


مہنگائی

پاکستان کے وزیر خزانہ شوکت ترین نے ملک میں مہنگائی کی شرح کے تعین کے لیے ادارہ شماریات پاکستان کو ملک کے مزید شہروں سے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں اکٹھا کرنے کی ہدایت جاری کی ہے تاکہ ملک میں مہنگائی کی صحیح شرح کا تعین ہو سکے۔

اُنھوں نے ہدایات جاری کی ہیں کہ ہول سیل اور ریٹیل سطح پر قیمتوں کی باقاعدہ نگرانی کا طریقہ کار اپنایا جائے تاکہ ملک کے مختلف حصوں میں قیمتوں کے درمیان فرق کو بہتر انداز میں اکٹھا کیا جا سکے۔

پاکستان میں مہنگائی کی شرح کے تعین کا ذمہ دار ادارہ شماریات پاکستان ہے۔ پاکستان میں کھلی منڈی کی قیمتیں اور سرکاری ادارے کی جانب سے اُنھیں اکٹھا کر کے اس کی بنیاد پر مہنگائی کی شرح کا تعین کرنے پر بہت سارے سوالات اٹھتے رہتے ہیں۔

وزارت خزانہ کے زیر تحت ادارہ شماریات کی طرف سے جاری کیے جانے والے مہنگائی پر اعداد و شمار پر بھی شکوک و شبہات اٹھتے رہے ہیں کہ حکومتیں مہنگائی کی شرح کو کم دکھانے والی اس ادارے پر اثر انداز ہوتی ہیں۔

پاکستان میں معیشت کے شعبے کے ماہرین کے مطابق ادارہ شماریات کی جانب سے مہنگائی کی شرح کے تعین کے لیے اپنایا گیا ماڈل تو ٹھیک ہے تاہم اس کے اطلاق پر بہت سارے سوالات ہیں کہ ملک کے مختلف علاقوں سے اکٹھے کیے جانے والے اعداد و شمار میں کتنی حقیقت ہوتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

‘جب نوٹ چھاپیں گے تو افراطِ زر تو بڑھے گا’

پاکستان میں غذائی اشیا کی قیمتیں بڑھنے کی وجوہات کیا ہیں؟

کیا پاکستان میں مہنگائی کی وجہ ’کارٹلائزیشن‘ ہے؟

ادارہ شماریات مہنگائی کی شرح کا تعین کیسے کرتا ہے

وفاقی ادارہ شماریات ملک میں معیشت کے مختلف شعبوں کے اعداد و شمار اکٹھا اور جاری کرتا ہے جس میں ملک میں مہنگائی کی شرح کا تعین بھی شامل ہے۔ ادارہ شماریات نے اس وقت 2016 میں ختم ہونے والے مالی سال کو بنیادی سال مقرر کیا ہوا ہے جس کی بنیاد پر وہ قیمتوں میں ردّ و بدل کا تعین کرتا ہے۔

ملک میں مہنگائی کی شرح تین طریقوں سے کیا جاتی ہے۔ اس میں ایک ماہانہ بنیادوں پر مہنگائی کی شرح کے اعداد و شمار ہیں جو کنزیومر پرائس انڈیکس کہلاتا ہے۔ اس میں ماہانہ بنیادوں پر قیمتوں میں ردّ و بدل کو ظاہر کیا جاتا ہے۔

ہفتہ وار بنیادوں پر قیمتوں میں ہونے والے ردّ و بدل کو یہ ادارہ قیمتوں کے خاص اشاریے کے تحت جاری کرتا ہے جس میں ہفتہ وار بنیادوں پر اشیائے خوردو نوش کی قیمتوں کا تقابل کیا جاتا ہے۔

مہنگائی جانچنے کے لیے تیسرا طریقہ ہول سیل پرائس انڈیکس ہے جس میں ماہانہ بنیادوں پر ہول سیل کی سطح پر قیمتوں میں ردّ و بدل کو دیکھا جاتا ہے۔

اس ادارے کے تحت پاکستان کے 35 شہری علاقوں اور 27 دیہاتی علاقوں سے قیمتیں اکٹھی کی جاتی ہیں۔ شہری علاقوں میں 65 مارکیٹوں اور اور دیہاتی علاقوں میں 27 مارکیٹوں سے قیمتوں کا ڈیٹا اکٹھا کیا جاتا ہے۔

شہری علاقوں میں 356 چیزوں کی قیمتوں کا ڈیٹا اکٹھا کیا جاتا ہے اور دیہاتی علاقوں سے 244 چیزوں کی قیمتیں معلوم کیا جاتی ہی۔ ان سب اعداد و شمار کو اکٹھا کر کے ایک اوسط نکال کر کنزیومر پرائس انڈیکس کے تحت ماہانہ بنیادوں پر مہنگائی کی شرح بتائی جاتی ہے۔

مہنگائی

واضح رہے کہ پہلے پاکستان میں صرف شہری مارکیٹوں کا سروے کر کے مہنگائی کی شرح کا تعین کیا جاتا تھا تاہم سال 2016 میں دیہاتی علاقوں کو بھی سروے میں شامل کیا گیا اور اب وہاں سے بھی چیزوں کی قیتموں کے متعلق ڈیٹا اکٹھا کیا جاتا ہے۔

یہ ڈیٹا پنجاب کے 17، سندھ کے سات، خیبر پختونخوا کے پانچ اور بلوچستان کے چھ اضلاع سے اکٹھا کیا جاتا ہے جبکہ دیہاتی علاقوں میں پنجاب کے آٹھ، سندھ کے چھ، خیبر پختونخوا کے اور بلوچستان کے سات سات اضلاع کی ایک ایک دیہاتی مارکیٹ سے اکٹھے کیے جاتے ہیں۔

کنزیومر پرائس انڈیکس میں آبادی کے عمومی استعمال میں آنے والی اشیا اور خدمات کا ایک سیٹ بنایا جاتا ہے جسے سی پی آئی باسکٹ کہا جاتا ہے۔ اس باسکٹ میں موجود مختلف چیزوں کی قیمتوں پر نظر رکھی جاتی ہے۔

سی پی آئی باسکٹ کے مطابق ایک پاکستانی اوسطاً 34.58 فیصد کھانے پینے کی اشیا پر خرچ کرتا ہے، 26.68 فیصد مکان کے کرائے، بجلی، گیس، پانی کے بلوں اور ایندھن پر، 8.6 فیصد کپڑوں اور جوتوں کی خریداری پر، تقریباً سات فیصد ہوٹلنگ، تقریباً چھ فیصد نقل و حمل، چار فیصد سے زائد گھر کی تزئین و آرائش اور مرمت پر، 3.8 فیصد تعلیم اور 2.7 فیصد صحت پر خرچ کرتا ہے۔

پاکستان میں مہنگائی کی موجودہ شرح کیا ہے؟

ادارہ شماریات کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق کنزیومر پرائس انڈیکس یعنی ماہانہ بنیادوں پر مہنگائی کی شرح اس سال مارچ کے مہینے میں گذشتہ سال مارچ کے مہینے میں 9.1 فیصد رہی۔ شہری علاقوں میں اس انڈیکس کے مطابق مہنگائی کی شرح 8.7 فیصد رہی تو دیہاتی علاقوں میں اس کی شرح 9.5 فیصد رہی۔ اس مالی سال کے پہلے نو مہینوں میں اس کی شرح 8.3 فیصد رہی۔

گذشتہ مالی سال کے اختتام پر ملک میں مہنگائی کی شرح 10.7 فیصد رہی۔ حکومت نے اس سال کے بجٹ تخمینے میں اسے 6.5 فیصد تک رکھنے کا ہدف مقرر کیا تھا تاہم حکومت پاکستان کے مڈ ٹرم بجٹ سٹریٹجی پییر کے مطابق اس سال افراطِ زر 8.7 تک رہنے کا امکان ہے اور اسے اگلے سال مزید کم کر کے آٹھ فیصد اور اس سے اگلے سال 6.8 فیصد تک لایا جائے گا۔

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے بھی حالیہ دنوں میں جاری کردہ رپورٹ میں پاکستان میں مہنگائی کی شرح کے بلند سطح پر رہنے کی پیشگوئی کی ہے۔

کیا مہنگائی جانچنے کا نظام صحیح ہے؟

پاکستان میں ادارہ شماریات کی جانب سے مہنگائی کی شرح کے تعین کے نظام پر بات کرتے ہوئے ماہر معیشت ڈاکٹر عالیہ خان نے کہا کہ ادارے نے قیمتوں کے سروے کے لیے جو نظام اور طریقہ کار اپنایا ہوا ہے اس میں کوئی خامی نہیں ہے، تاہم اُنھوں نے کہا کہ کسی بھی سروے کی طرح اس سروے کے نتائج بھی 100 فیصد ٹھیک نہیں ہو سکتے۔ تاہم اُن کے نزدیک یہ نظام بین الاقوامی معیار کے مطابق ہے۔

ڈاکٹر عالیہ خان ادارہ شماریات پاکستان کی مختلف کمیٹیوں کی رکن بھی رہی ہیں۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا پاکستان کے 35 شہروں اور چند دیہاتی علاقوں سے اکٹھا کیا جانے والا ڈیٹا مہنگائی کی صحیح شرح کا تعین کر سکتا ہے تو اُنھوں نے کہا کہ ایک مارکیٹ سے دوسری مارکیٹ میں بھی قیمتوں میں فرق ہوتا ہے تاہم اس میں ایک اوسط قیمت نکال کر بتائی جاتی ہے کہ ملک میں مہنگائی کی شرح کس سطح پر ہے۔

مہنگائی

دیہاتی علاقوں سے حال ہی میں ڈیٹا اکٹھا کرنا شروع کیے جانے کے بارے میں ڈاکٹر عالیہ نے کہا کہ دیہاتی علاقوں میں قیمتیں اکثر زیادہ ہوتی ہیں جس کی وجہ وہاں تک چیزوں کی ترسیل کے اخراجات اور قیمتوں کی نگرانی کرنے والے سرکاری اداروں کی کم توجہ ہے۔

ماہر معیشت ڈاکٹر قیصر بنگالی نے ادارہ شماریات پاکستان کے طریقہ کار کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ طریقہ کار میں خامی نہیں مگر اس کے اطلاق پر بہت سارے سوالات ہیں۔ اُنھوں نے دعویٰ کیا کہ مختلف شہروں اور مارکیٹ سے ڈیٹا تو اکٹھا کیا جاتا ہے تاہم جس مارکیٹ کی قیمتوں کی شرح زیادہ ہوتی ہے اسے غائب ہی کر دیا جاتا ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ مہنگائی کی شرح کو ایک خاص سطح تک دکھایا جا سکے۔ اُنھوں نے کہا کہ یہ سارا ڈیٹا ایک حکومتی ادارہ جمع کرتا ہے اور اسے جاری کرتا ہے اور پاکستان میں کوئی ایسا آزاد ادارہ نہیں جو ان کی تصدیق کر سکے، اس لیے ان اعداد و شمار پر ہی انحصار کیا جاتا ہے۔

ڈاکٹر قیصر بنگالی نے ادارہ شماریات کی جانب سے پاکستان کے مختلف شہروں سے اکٹھے کیے جانے والے اعداد و شمار اور پاکستان میں مہنگائی کی مجموعی کیفیت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ اس لحاظ سے صحیح نہیں ہے کہ اس میں بلوچستان کے اعداد و شمار صحیح طرح سے نہیں دکھائے جاتے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ بلوچستان میں صرف چند بڑی سڑکوں کے کناروں پر قیمتیں پوچھ کر اسے بلوچستان کا مجموعی نمبر بتا دیا جاتا ہے جبکہ ایسا ہونا نہیں چاہیے کیونکہ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے بڑا صوبہ ہے۔

اقتصادی اُمور کے صحافی شہباز رانا نے بتایا کہ ادارہ شماریات مارکیٹوں کا سروے کر کے اوسط قیمت نکالتا ہے جو مہنگائی کی شرح کو سو فیصد نہیں دیکھتا۔ اُن کا خیال ہے کہ یہ نظام اُس وقت زیادہ بہتر ہو سکتا ہے کہ جب قیمتوں کا تعین کرنے والا نظام پوری طرح آٹومیشن ہو۔

کیا حکومتیں اپنی مرضی کے اعداد و شمار جاری کرتی ہیں؟

حکومتوں کی جانب سے مہنگائی کی شرح کے اعداد و شمار کو مبینہ طور پر اپنی مرضی کے مطابق تیار کرنے کے بارے میں بات کرتے ہوئے شہباز رانا نے بتایا کہ ماضی کی حکومتوں میں ایسا ہوتا رہا ہے کہ شرحِ نمو اور افراطِ زر کے اعداد و شمار کو حکومتوں نے اپنی مرضی کے مطابق جاری کیا جن کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

وہ بتاتے ہیں کہ اس وقت ادارہ شماریات وزارت خزانہ کا ماتحت ادارہ تھا اور ماضی کے وزرائے خزانہ نے اس ادارے پر اثر انداز ہو کر اپنی مرضی کے اعداد و شمار جاری کروائے، تاہم اب یہ ادارہ وزارت منصوبہ بندی کے تحت آتا ہے اس لیے اس پر وزیر خزانہ اثرانداز نہیں ہو سکتے۔

ڈاکٹر قیصر بنگالی نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ اعداد و شمار میں حکومتیں اپنی مرضی کا ردو بدل کرتی رہی ہیں۔ اُنھوں نے دعویٰ کیا کہ سابق وزیرِ اعظم اور سابق وزیر خزانہ شوکت عزیز نے مرضی کے اعداد و شمار جاری کروائے تھے۔

ڈاکٹر بنگالی نے کہا آج بھی کوئی ایسا آزاد ادارہ نہیں کہ جو حکومت کی جانب سے جاری کیے جانے والے اعداد و شمار کی تصدیق کر سکے کہ یہ صحیح ہیں یا ان میں گڑبڑ کی گئی ہے۔

ماضی میں وزارت خزانہ کے مشیر کے طور پر کام کرنے والے ڈاکٹر اشفاق حسن نے کہا کہ ان کی اطلاع کے مطابق ماضی میں شرحِ نمو کے اعداد و شمار کو مصنوعی طور پر بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا تاہم شرحِ مہنگائی کے بارے میں اُنھوں نے کہا کہ وہ اس کے بارے میں نہیں جانتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp