آکسیجن کی فراہمی میں مودی حکومت کی ناکامی کے اسباب


کورونا مریض

انڈیا کے دارالحکومت سمیت ملک کے بہت سارے علاقوں میں مائع آکسیجن کی شدید قلت کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں اور اس کا اثر شدید طور پر بیمار مریضوں پر پڑ رہا ہے۔

دہلی کے جے پور گولڈن ہسپتال میں جمعہ کی رات کووڈ کے 20 مریض آکسیجن کی کمی کی وجہ سے چل بسے۔

ایل این جے پی جیسے سرکاری ہسپتال سے لے کر سروج اور فورٹس جیسے نجی ہسپتالوں کو بھی آکسیجن کی کمی کا سامنا ہے۔ کچھ بے بس ہسپتالوں نے تو اس معاملے میں ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے۔

مغرب میں مہاراشٹر اور گجرات سے لے کر شمال میں ہریانہ اور وسط ہندوستان میں مدھیہ پردیش تک ہر جگہ میڈیکل آکسیجن کی شدید قلت ہے۔ اترپردیش میں کچھ ہسپتالوں نے ‘آکسیجن آؤٹ آف اسٹاک’ کا بورڈ لگادیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

کورونا وائرس: انڈیا میں آکسیجن کا بحران

انڈیا: کورونا وائرس کے مریضوں کو زندہ رکھنے کی جدوجہد

‘بستر، دوا یا آکسیجن نہیں دے سکتے تو کم از کم لاشوں کو منتقل کرنے کے لیے سٹریچر تو دیں‘

سانس لینے کی جدوجہد: ’آکسیجن کی فراہمی رکی تو زیادہ تر مریض مر جائیں گے‘

لکھنؤ کے ہسپتالوں نے مریضوں کو کہیں اور جانے کو کہا ہے۔ دہلی میں چھوٹے اور بڑے ہسپتال اور نرسنگ ہوم بھی یہی کام کر رہے ہیں۔ بہت سے شہروں میں پریشان مریض اپنے آکسیجن سیلنڈروں کے ساتھ ری فلنگ سینٹر کے باہر قطار میں کھڑے نظر آتے ہیں۔

حیدرآباد میں تو آکسیجن پلانٹ کے باہر جمع ہجوم کو قابو کرنے کے لیے باؤنسرز کو طلب کرنا پڑا۔

حال ہی میں مہاراشٹرا کے ناسک میں ڈاکٹر ذاکر حسین ہسپتال میں آکسیجن کی کمی کی وجہ سے 22 مریضوں کی موت ہوگئی ہے کیونکہ آکسیجن لیک ہوگئی تھی۔

یہ حادثہ اس وقت پیش آیا جب ٹینکروں کے ذریعے آکسیجن بھری جارہی تھی۔ آکسیجن لیک ہونے کی وجہ سے تقریبا آدھے گھنٹے تک ہسپتال میں آکسیجن کی رسد معطل رہی۔

کرونا کے مریض علاج کے انتظار میں مر رہے ہیں۔ جن لوگوں کو سانس لینے میں زیادہ پریشانی ہو رہی ہے ان کے علاج کے لیے ہسپتالوں کو دن رات ایک کرنا پڑرہا ہے۔ جن لوگوں ہسپتال میں بیڈ مل چکا ہے ان کی جان بچانے کے لیے ہسپتال پوری طرح کوشاں ہیں۔ آکسیجن سیلنڈروں کی مانگ کرنے والے لوگ سوشل میڈیا کا رخ کر رہے جہاں ایسے ٹویٹس کی بھرمار ہے۔

بہر حال سوال یہ ہے کہ آخر آکسیجن کے لیے اتنی چیخ وپکار کیوں اور اچانک آکسیجن کی طلب میں اتنا اضافہ کیوں ہو گیا؟

کورونا مریض

کئی ریاستوں میں آکسیجن کی کمی کیوں ہے؟

کچھ ریاستوں نے صورتحال کو بہتر طریقے سے سنبھالا ہے۔ جنوبی ریاست کیرالہ نے تو پہلے آکسیجن کی فراہمی میں اضافہ کیا اور پھر اس پر کڑی نگاہ رکھنا شروع کیا۔ کووڈ کے کیسز میں اضافے کے پیش نظر اس نے پہلے ہی سے آکسیجن کی فراہمی بڑھانے کا منصوبہ تیار کرلیا تھا۔ کیرالہ میں اب اضافی آکسیجن ہے اور اب وہ دوسری ریاستوں کو سپلائی کرنے کا متحمل ہے۔

لیکن دہلی اور کچھ دوسری ریاستوں کے پاس اپنے آکسیجن پلانٹ نہیں ہیں۔ وہ سپلائی کے لیے دوسری ریاستوں پر انحصار کرتے ہیں۔

اس وقت کرونا مہاراشٹر پر سب سے بڑا تباہی لا رہا ہے۔ ملک کے ایک تہائی سے زیادہ کورونا سے متاثرہ مریض صرف اسی ریاست سے ہیں۔

اس وقت یہاں روزانہ 1200 ٹن آکسیجن تیار کی جارہی ہے اور ساری کی ساری آکسیجن کورونا کے مریضوں میں لگ جا رہی ہے۔

جیسے جیسے انفیکشن بڑھ رہا ہے آکسیجن کی طلب میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اب روزانہ 1500 سے 1600 ٹن گیس کی کھپت کی صورتحال آچکی ہے۔ ابھی تک اس میں کمی کے آثار نہیں ہیں۔

پونے میں کووڈ ہسپتال چلانے والے ڈاکٹر سدھیشور شنڈے نے بی بی سی مراٹھی کی جانہوی مولے کو بتایا: ‘ہمارے جیسے ہسپتالوں کو کافی آکسیجن مل جایا کرتی تھی۔ لیکن پچھلے 15 دنوں سے لوگوں کا سانس لینا مشکل ہو گیا ہے۔ 22 سال سے کم عمر کے لوگوں کو بھی آکسیجن کی ضرورت ہے۔’

ڈاکٹروں اور وبائی امراض کے ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا کیسز میں اتنی تیزی سے اضافہ ہوا ہے کہ ٹیسٹوں اور علاج کے لیے طویل انتظار کرنا پڑ رہا ہے۔ تاخیر کی وجہ سے لوگوں کی حالت خراب ہوتی جارہی ہے اور انھیں علاج کے لیے ہسپتال میں داخل کرنا پڑرہا ہے۔

حالت تشویش ناک ہونے کی وجہ سے لوگوں کو ہسپتال میں داخل کیا جارہا ہے۔ لہذا ہائی فلو آکسیجن کی طلب میں اضافہ ہوا ہے۔ ہائی فلو آکسیجن کی طلب میں اضافے کی وجہ سے اس بار پچھلے سال کے مقابلے میں آکسیجین کی زیادہ فراہمی کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر شندے کہتے ہیں: ‘کسی کو نہیں معلوم کہ یہ سب کب ختم ہوگا۔ میرے خیال میں حکومت بھی بظاہر اس صورتحال کا اندازہ نہیں لگا سکی۔’

آکسیجن سیلنڈر

آکسیجن کو ضرورت مندوں تک پہنچانا کتنا مشکل ہے؟

ماہرین کہتے ہیں کہ انڈیا میں میڈیکل آکسیجن کا مسئلہ اس کی کمی نہیں ہے بلکہ مسئلہ ضرورت مندوں کے علاقوں تک پہنچانا ہے۔

آئیناکس ایئر پروڈکٹس کے ڈائریکٹر سدھارتھ جین نے بی بی سی کے نامہ نگار ونیت کھرے کو بتایا کہ انڈیا کی میڈیکل آکسیجن تیار کرنے کی روزانہ کی صلاحیت 6500 میٹرک ٹن تھی جو روزانہ دس فیصد بڑھ کر 7200 میٹرک ٹن ہوگئی ہے۔

جین کے مطابق کووڈ سے پہلے انڈیا کو روزانہ 700 میٹرک ٹن طبی آکسیجن کی ضرورت تھی جبکہ آج اس کی روزانہ ضرورت بڑھ کر پانچ ہزار میٹرک ٹن ہوگئی ہے۔

آل انڈیا انڈسٹریل گیس مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے سربراہ ساکیت ٹیکو کہتے ہیں: ‘ایک طرف جہاں مہاراشٹر میں طبی آکسیجن کی ضرورت ہے وہیں دوسری طرف راورکیلا، ہلدیہ اسٹیل پلانٹس جیسے مشرقی اندین علاقوں میں اس کے زخائر پڑے ہیں۔

طبی آکسیجن کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کے لیے خصوصی طور پر ڈیزائن کیے گئے ٹینکروں کی ضرورت ہوتی ہے جن کو کرائیوجینک ٹینکر کہتے ہیں۔

دراصل میڈیکل آکسیجن کو مائع کی شکل میں سیلنڈروں اور کرایوجنک ٹینکروں میں رکھا جاتا ہے۔

آکسیجن ٹینکروں کو اکثر پلانٹس کے باہر گھنٹوں کھڑا رہنا پڑتا ہے کیونکہ ٹینکر کو بھرنے میں تقریباً دو گھنٹے لگتے ہیں۔ اس کے بعد ریاستوں کے مختلف شہروں میں ان ٹرکوں کو پہنچنے میں بہت گھنٹے لگتے ہیں۔ ٹینکروں کے نقل و حمل کے لیے رفتار کی حد بھی مقرر کی گئی ہے۔

وہ 40 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے تیز نہیں چلتے۔ حادثے کے خوف کے سبب یہ ٹینکر رات کو بھی نہیں لے جائے جاتے ہیں۔

کورونا مریض

دو ریاستوں اور ریاست اور مرکز کے درمیان الزامات تراشی

دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال نے الزام لگایا ہے کہ دوسری ریاستوں سے آنے والے آکسیجن کے ٹرکوں کو روکا جارہا ہے۔ دہلی حکومت نے مرکزی حکومت پر بھی آکسیجن کی مناسب مقدار نہ دینے کا الزام عائد کیا ہے۔

دہلی کے ہسپتالوں میں آکسیجن کی کمی کے معاملے پر مرکزی وزیر صحت ڈاکٹر ہرش وردھن نے کہا ہے کہ دہلی حکومت نے جو مطالبہ کیا تھا اس سے کہیں زیادہ آکسیجن کا کوٹہ انھیں دیا گیا ہے اور اب یہ ان پر منحصر ہے کہ وہ کیسے اس کا تعین کرتا ہے۔

خبر رساں ادارے اے این آئی کے مطابق وزیر صحت نے یہ بات سردار پٹیل کووڈ کیئر سینٹر اینڈ ہاسپیٹل کے دورے کے موقع پر کہی۔ کووڈ 19 کے لیے مختص یہ ہسپتال اگلے ہفتے سے کام کرنا شروع کردے گا۔

https://twitter.com/ArvindKejriwal/status/1385141880661319683

اس دوران انھوں نے کہا: ‘انڈیا میں آکسیجن کی پیداوار کے مطابق ہر ریاست کو اس کے کوٹے کے مطابق آکسیجن دی گئی ہے۔ یہاں تک کہ دہلی کو اس کے کوٹے سے زیادہ آکسیجن دی گئی ہے اور کل دہلی کے وزیر اعلی نے وزیر اعظم کا شکریہ بھی ادا کیا۔

‘اب حکومت کو ایک منظم انداز میں اس کی تقسیم کے لیے کوئی منصوبہ بنانا چاہیے۔’

ڈاکٹر ہرش وردھن نے کہا کہ مرکزی حکومت نے دہلی کو یہ یقین دہانی بھی کرائی ہے کہ آکسیجن کی نقل و حمل میں کوئی رکاوٹ نہیں آئے گی۔

وزیر صحت نے کہا کہ مرکزی حکومت نے یہ بھی یقین دہانی کرائی ہے کہ آکسیجن کی ترسیل میں رکاوٹ کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔

دریں اثنا دہلی کے ہسپتال بھی دہلی ہائی کورٹ گئے ہیں جہاں دہلی حکومت نے اپنا موقف رکھتے ہوئے اسی طرح کے دلائل دیے ہیں۔

آکسیجن سیلنڈر

عدالت نے کیا کہا؟

دہلی اور مہاراشٹر سمیت دیگر ریاستوں کی اعلی عدالتوں نے اس معاملے میں ریاستی حکومتوں کی سرزنش کی ہے اور صورتحال پر قابو پانے کی ہدایت کی ہے۔

دہلی ہائی کورٹ نے ہفتے کے روز کہا تھا کہ اگر مرکز، ریاست یا مقامی انتظامیہ کا کوئی بھی افسر آکسیجن کی فراہمی میں خلل ڈالتا ہے تو اسے ‘پھانسی’ دے دی جائے گی۔

دہلی کے مہاراجہ اگرسین ہسپتال نے شدید بیمار کورونا مریضوں کے لیے آکسیجن کی کمی کے حوالے سے ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے۔

عدالت نے اسی معاملے کی سماعت کرتے ہوئے یہ تبصرہ کیا ہے۔

جسٹس وپن سانگھی اور ریکھا پللی کی بنچ نے کہا کہ آکسیجن تک رسائی میں رکاوٹیں ڈالنے والوں کو بخشا نہیں جائے گا۔

سماعت کے دوران عدالت نے مرکزی حکومت کی سخت سرزنش بھی کی ہے۔

عدالت نے مرکز سے کہا کہ ’21 اپریل کو آپ نے یقین دہانی کرائی تھی کہ دہلی کو روزانہ 480 میٹرک ٹن آکسیجن کی فراہمی ہوگی۔ یہ کب پورا ہوگا؟’

آکسیجن سیلنڈر

آکسیجن کیسے تیار کی جاتی ہے؟

مائع آکسیجن ہلکے نیلے رنگ کی اور کافی ٹھنڈی ہوتی ہے۔ یہ ایک کرائیوجینک گیس ہے جس کا درجہ حرارت منفی 183 سنٹی گریڈ ہوتاہے۔ اسے صرف خصوصی سیلنڈروں اور ٹینکروں میں لے جایا اور رکھا جاسکتا ہے۔

انڈیا میں تقریبا 500 فیکٹریاں ہوا سے آکسیجن نکالنے اور اسے خالص بنانے کا کام کرتی ہیں۔ اس کے بعد اسے مائع میں تبدیل کرکے ہسپتالوں کو فراہم کیا جاتا ہے۔ زیادہ تر گیس ٹینکروں کے ذریعے فراہم کی جاتی ہے۔

بڑے ہسپتالوں کے اپنے ٹینک ہوتے ہیں جس میں آکسیجن بھری ہوتی ہے۔ اور پھر وہاں سے اسے مریض کے بستر تک پہنچایا جاتا ہے۔ چھوٹے اور عارضی ہسپتالوں میں اسٹیل اور ایلومینیم کے سیلنڈر استعمال ہوتے ہیں۔

حکومت نے پیداوار بڑھانے کی کوشش کی؟

مرکزی وزارت صحت نے آکسیجن پلانٹ لگانے کے لیے گذشتہ سال اکتوبر میں بولی لگانے کی دعوت دی تھی۔

تاہم اس وقت تک انڈیا میں کورونا انفیکشن کی آمد کو آٹھ ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا تھا۔ وزارت صحت کے اس اقدام کے جواب میں آکسیجن پلانٹ لگانے کی متعدد تجاویز سامنے آئیں اور 162 کو منظور کیا گیا۔ لیکن وزارت کے مطابق اب تک صرف 33 پلانٹ لگائے گئے ہیں۔ 59 پلانٹس اپریل کے آخر میں اور 80 مئی کے آخر تک لگائے جائیں گے۔

حکومت اب کیا اقدام کر رہی ہے؟

ملک میں آکسیجن کی کمی اور کورونا انفیکشن کی شدت کو دیکھتے ہوئے مرکزی حکومت نے بیرون ملک سے میڈیکل آکسیجن درآمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ہفتے کے روز مرکزی حکومت نے آئندہ تین ماہ تک آکسیجن اور اس سے متعلق سازوسامان کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی اور ہیلتھ سیس پر چھوٹ دینے کا فیصلہ کیا۔

https://twitter.com/PiyushGoyal/status/1385958689853505540

50 ہزار میٹرک ٹن آکسیجن درآمد کرنے کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں۔

حکومت کے بااختیار گروپ -2 نے نو صنعتوں کے علاوہ آکسیجن کے صنعتی استعمال پر پابندی عائد کردی ہے۔

اس کے علاوہ حکومت نے 162 پی ایس اے میڈیکل آکسیجن پلانٹس لگانے کے لیے فنڈز فراہم کیے ہیں۔

ونائک ایئر پروڈکٹس پرائیوٹ لمیٹڈ کے راجیو گپتا نے بی بی سی کو بتایا: ‘ان پلانٹس میں آکسیجن کی خالصیت 92-93 فیصد ہے جس سے کام چل جاتا ہے اون ان کی صلاحیت ایک سے دو میٹرک ٹن گیس تیار کرنے کی ہوتی ہے۔’

اس کے علاوہ حکومت تیزی کے ساتھ آکسیجن کی فراہمی کے لیے آکسیجن ایکسپریس ٹرینیں بھی چلا رہی ہے۔ خالی کنٹینرز کو تیزی سے پلانٹ تک پہنچانے کے لیے فضائیہ کی مدد لی جا رہی ہے۔

انڈیا

کورونا وائرس متاثرین کے حوالے سے انڈیا دنیا کا تیسرہ متاثرہ ترین ملک ہے

کووڈ متاثرین کو آکسیجن کی ضرورت کیوں ہے؟

ہم سب ہوا سے آکسیجن لیتے ہیں۔ آکسیجن ہمارے پھیپھڑوں کے ذریعے خون کے بہاؤ میں شامل ہے۔ یہ خلیوں تک پہنچتا ہے جہاں یہ گلوکوز کے ساتھ کیمیاوی طور پر رد عمل ظاہر کرتا ہے۔

اس کا مطلب ہے کہ یہ کھانے سے توانائی تیار کرتا ہے۔ کسی مخلوق کے زندہ رہنے کے لیے یہ ایک ناگزیر عمل ہے۔ اگر پھیپھڑوں میں مسئلہ ہو یا مائکروبیل انفیکشن ہو تو پھر خون کے بہاؤ میں آکسیجن کے شامل ہونے کے عمل رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ ایسی صورتحال میں سانس سے لی گئی آکسیجن ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ ایسے مریضوں کو خالص آکسیجن دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔

کچھ معاملات میں آکسیجن کانسنٹریٹر کا استعمال ہوتا ہے۔ یہ مشین ہوا سے آکسیجن لیتی ہے اور اسے صاف کرنے کے بعد مریضوں کو سپلائی کرتی ہے۔ اس کا استعمال نسبتا آسان ہے۔ لیکن معالجین کے مطابق کووڈ کے مریضوں کے لیے اس طرح سے دی جانے والی آکسیجن کافی نہیں ہے۔

اسے سیلنڈرز اور نلیون کے ذریعے دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاہم ابھی اس کے بارے میں واضح معلومات کا فقدان ہے۔ مہاراشٹر کا محکمہ فوڈ اینڈ ڈرگز اس پہلو کی جانچ کر رہا ہے کہ آیا آکسیجن کانسینٹریٹر کووڈ سے متاثرہ افراد کی مدد کر سکتا ہے۔

لیکن ایک بات واضح ہے کہ یہ ڈاکٹر ہی طے کرتے ہیں کہ متاثرہ افراد کو آکسیجن مشین سے یا سیلنڈر کے ذریعے دینا ہے۔ واضح رہے کہ خالص آکسیجن کی زیادتی سے بھی خطرہ بڑھ جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp