منیرؔ اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے


پاکستان کی سیاست اکھاڑے کا منظر پیش کرتی ہے، ایک پارٹی دوسری کو پچھاڑ کر حکومت میں آ جاتی ہے اور دوسری اپوزیشن بن کر اکھاڑ پچھاڑ میں لگ جاتی ہے تاوقتیکہ حکومت میں نہ آ جائے۔ عوام کا مفاد بس الیکشن میں نعروں تک محدود ہے کیونکہ اس ملک میں آج تک کوئی لیڈر ایسا نہیں آیا جو عوام سے ہو، ایسے لوگوں کو آنے ہی نہیں دیا جاتا، راستے ہی میں کہیں مر کھپ جاتے ہیں۔

دنیا کی باقی اقوام کی طرح ہمارے لوگ بھی ذہین، جفاکش، انتھک، پرخلوص اور ہمدرد ہیں۔ مگر صرف بہتر رہنمائی اور مواقع کی کمی نے اس ذہین قوم کو مفلوج کر رکھا ہے۔

میری دادی جان پاکستان کی تقریباً ہم عمر ہی ہیں، وہ کہتی ہیں کہ میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے، یہی سنا ہے کہ پاکستان تاریخ کے نازک دور سے گزر رہا ہے اور یہ نزاکت ہے کہ ختم ہی نہیں ہو رہی۔ اپوزیشن کی بیشتر سیاسی جماعتوں نے ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگا کر اس سیاسی جمود کو کافی حد تک توڑا جو برسوں سے یہاں رائج تھا کہ ایک شخصیت اپنے مالی اثر و رسوخ یا پھر عوامی شہرت کی بناء پر اشرافیہ کی منظور نظر بن کر سیاست میں اپنا قد اونچا کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے سب سے بڑے حکومتی عہدے پر براجمان نظر آتی ہے۔

عوام ابھی ایسے سحر میں گرفتار ہوتے ہیں کہ چور چور کے نعرے بلند ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور ملک پر قرضوں کے بوجھ میں اضافہ اور عام آدمی کی زندگی پہلے سے بھی بدتر ہونے لگتی ہے، یہی سب کچھ ہم وزیراعظم عمران خان کے دور حکومت میں دیکھتے ہیں ، اپوزیشن بالعموم اور میاں محمد نواز شریف بالخصوص ایک نیا نعرہ ووٹ کو عزت دو کو متعارف کرواتے ہیں جو کہ عوام میں بہت مقبولیت بھی حاصل کرتا ہے مگر جب ووٹ کے استعمال کا وقت آتا ہے تو وہی دھان کے تین پات یعنی ضمنی اور سینیٹ انتخابات میں ووٹ پر مارا ماری دیکھنے کو ملتی ہے۔

ڈسکہ کے ضمنی الیکشن میں نہ صرف دو نوجوان قتل ہو جاتے ہیں بلکہ پولنگ اسٹیشنز کا عملہ تک غائب ہو جاتا ہے اور ادارے بے بسی کی تصویر بنے رہے، حکومت اور اپوزیشن دل کھول کر ایک دوسرے پر الزامات لگاتی رہی اور بالآخر الیکشن بھی فریقین کے جھگڑے کے باعث ملتوی قرار پاتا ہے، جو کہ پیسے اور وقت کا ضیاع ہے مگر علاقائی عوام دونوں جانب سے اس بات سے غافل اپنی اپنی پارٹی کا ڈھول خوب کوٹتے ہیں اور دوبارہ الیکشن کے لئے اتنے ہی پرعزم نظر آتے ہیں۔

مگر ان میں مجھ جیسے نوجوان بھی ہیں جو کہ سینیٹ میں ارکان کی خرید و فروخت پر نالاں ہیں کہ اگر آپ نے ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگایا تو ووٹ کو عزت دینے کی بجائے پیسے کیوں دیے، کیا اس کو ووٹ کی عزت کہا جاتا ہے؟ کیا ہماری اسمبلیوں میں ایسے بے ضمیر لوگ بیٹھے ہیں کہ جب چاہیں خریدے اور بیچے جا سکیں؟

لیڈر حضرات پیسے کے اس بے دریغ استعمال سے منکر ہیں جبکہ میڈیا پر کچھ لوگوں کے اس لین دین کی وڈیوز بھی چلیں، یہ تو دوہرا جرم ہوا کہ آپ نے ووٹ خریدے اور جھوٹ بھی بولا۔ مجھے ایسا لگا کہ ہم آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں سے چلے تھے، اس کیفیت کی ترجمانی منیرؔ نیازی نے عرصہ پہلے یوں کی تھی:

منیرؔ اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ

اس سفر کو تیز کرنے کے لیے اور آگے بڑھنے کے لئے ہمیں غلامانہ سوچ سے آزاد ہونا ہو گا،  اس کے بعد حکمران خود بخود بدلے جائیں گے۔ جہاں مسائل ہوتے ہیں وہیں حل کے وسائل بھی موجود ہوتے ہیں۔ صرف انحصار کی سوچ سے نکل کر اعتماد کی سیڑھی پر پہلا قدم رکھنے کی دیر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments