نواز شریف اور عمران خان: ایک موازنہ


”پاکستان کی سیاست بہت عجیب ہے“ ۔ یہ وہ فقرہ ہے جو ہم میں سے اکثر روزمرہ زندگی میں استعمال کرتے رہتے ہیں لیکن دراصل ہماری سیاست عجیب نہیں بلکہ اس کو دیکھا اور پرکھا بڑے عجیب طریقے سے جاتا ہے، ہم میں سے اکثر تو صحیح اور غلط میں باآسانی فرق نہیں کر پاتے ، جس کی وجہ سے ہم آج بھی اس مقام تک نہیں پہنچ پائے جہاں باقی ترقی یافتہ ممالک کی طرح ہمیں بھی ہونا چاہیے تھا۔

پاکستان میں بہت سے لیڈران آئے اور گزر گئے، کچھ کو تو ہم بالکل بھول گئے، یہاں تک کہ وہ اب ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جن کو شاید بھلایا نہ جا سکے، ہم میں سے ہی کچھ ان کو برے الفاظ میں یاد رکھتے ہیں اور بہت سارے ان لیڈران کو اب بھی دلوں میں بساتے ہیں۔

انسان کی یہ روایت رہی ہے کہ ہم نے نئی چیز کا ذائقہ ضرور چکھنا ہوتا ہے۔ بعض اوقات یہ شے ہمیں پسند آ جاتی ہے یا ہمارے لئے فائدہ مند ہوتی ہے لیکن بعض اوقات اس کی کڑواہٹ ایک لمبے عرصے تک رہتی ہے، نواز شریف کو کون نہیں جانتا، پاکستان کی تہتر سالہ تاریخ میں یہ پاکستان کے تین دفعہ وزیراعظم، دو دفعہ وزیراعلیٰ پنجاب اور ایک بار وزیر خزانہ رہ چکے ہیں اور یہ اعزاز ان کو بہت سوں سے ممتاز بناتا ہے لیکن ان کی بدقسمتی یہ بھی ہے کہ کسی بار بھی یہ اپنی مدت کو مکمل نہ کر سکے۔

نواز شریف اپنی وزرات عظمیٰ کے دوران کچھ ایسے کام بھی کر گئے جو کئی دہائیوں تک نواز شریف کو پاکستانیوں کے دلوں میں زندہ رکھیں گے، ان کے پہلے دور حکومت میں پاکستان میں موٹر ویز کی ابتداء ہوئی، اور یہ عظیم منصوبہ آج پاکستان کے کونے کونے میں پھیل چکا ہے، تینوں ادوار میں نواز شریف نے اس منصوبے کو بڑھانے کا کام جاری رکھا اور آج پاکستان کے کئی شہر موٹرویز سے مستفید ہو رہے ہیں، نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں پاکستان نے ایٹمی صلاحیت حاصل کی اور مسلم دنیا میں پاکستان نے پہلا ایٹمی ملک ہونے کا اعزاز اپنے نام کیا، تیسرے دور حکومت میں نواز شریف نے اربوں روپے کے منصوبے سی پیک کا آغاز کیا اور دوست ملک چین کے ساتھ مل کر اس منصوبے کے تحت پاکستان بھر میں ترقیاتی منصوبوں کا جال بچھا دیا اور باقی ترقیاتی کام ان کے علاوہ ہیں ، جن کی ایک طویل فہرست ہے۔

لیکن بدقسمتی سے یہ دور بھی پہلے دو ادوار کی طرح نامکمل رہا اور نواز شریف حکومتی مدت پوری کرنے سے محروم رہے یا کر دیے گئے، اگر اصولوں کی بات کی جائے تو نواز شریف کے تینوں ادوار پاکستان کی باقی سیاسی تاریخ پر بھاری ہیں، جہاں بے پناہ ترقیاتی منصوبوں پر کام ہوا ، وہیں عوام بھی کافی خوشحال ہوئے، جہاں پاکستان میں پھیلے کئی منصوبے نواز شریف کی اچھی یاد دلواتے ہیں، وہیں کچھ پاکستانیوں کی نظر میں نواز شریف پاکستان کی تباہی کے ذمہ دار ہیں اور کچھ حلقوں کی طرف سے ان ناکامیوں یا غلطیوں کا ازالہ کرنے کے لئے عمران خان صاحب کو میدان میں اتارا گیا۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ نواز شریف کے ادوار میں کچھ کام ایسے بھی ہوئے جنھوں نے ان کی سیاست کو کافی نقصان پہنچایا لیکن اگر نواز شریف کو مدت مکمل کرنے دی جاتی تو آج شاید حالات بہت بہتر ہوتے ، لیکن عمران خان کو بہت اچھا کرنے کے لئے میدان میں اتارا گیا اور اقتدار سونپا گیا۔

پاکستانیوں کے ساتھ ’عمرانی معاہدے‘ کو ہوئے تقریباً تین سال ہونے والے ہیں، اب نواز شریف اور عمران خان کا موازنہ بخوبی کیا جا سکتا ہے اور ایک عام پاکستانی بھی باآسانی کہہ سکتا ہے کہ نواز شریف اور عمران خان میں سے کون سیاسی لحاظ سے زیادہ اہل تھا، میری طرح بہت سے پاکستانیوں کے خیال سے عمران خان صاحب کو پانچ سال پورے کرنے چاہئیں کیونکہ نواز شریف کے بار بار اقتدار میں آنے کی وجہ ہی یہی تھی کہ ان کو کسی دور میں مکمل مدت پوری نہ کرنے دی گئی۔ اس لیے اس وقت بہت سے پاکستانی یہ سمجھتے تھے کہ نواز شریف ہی ان کے لیے بہتر ہیں اور ان کو ہی رہنا چاہیے لیکن نواز شریف کو ہٹا کر اقتدار کسی دوسرے کے حوالے کر دیا جاتا اور نواز شریف کے چاہنے والے دوبارہ نواز شریف کو منتخب کروا لیتے۔

1997 میں جب نواز شریف دوسری بار وزیراعظم بنے تو ان کو دو تہائی اکثریت کا عوامی مینڈیٹ ملا اور تیسری بار بھی سادہ اکثریت سے کامیاب ہوئے، اس لیے عمران خان کو پانچ سال پورے کرنے چاہئیں تاکہ ہم لوگ یا عمران خان بعد میں یہ نہ کہہ سکیں کہ عمران خان صاحب کو وقت ہی نہیں دیا گیا۔

ان کی تین سالہ کارکردگی سے ہم سب بخوبی واقف ہیں، ان تین برسوں میں پاکستانیوں کی اکثریت موجودہ حکومت سے مطمئن نہیں بلکہ پاکستانیوں کی اکثریت پر مایوسی کے بادل گہرے ہو چکے ہیں ۔ گرتی ہوئی معیشت نے پاکستان کے نظام کو جام کر کے رکھ دیا ہے اور تباہ حال انفراسٹرکچر نے پاکستانیوں کا جینا دوبھر کر دیا ہے، یقیناً ان اڑھائی برسوں میں کوئی میگا پراجیکٹ بھی شروع نہیں کیا گیا جس طرح نواز شریف نے اپنے ادوار میں کئی میگا پراجیکٹس پر اپنی تختیاں نصب کروائیں، بلکہ احتساب کے نام پر خوب ڈرامہ بھی رچایا گیا۔

کرپشن میں بھی پاکستان کی حالت نواز شریف کے دور سے کہیں زیادہ خراب ہے، لیکن کچھ کام عمران خان صاحب نے ضرور اچھے کیے لیکن عام انسان کو ان سے بھی کوئی خاص فرق نہیں پڑا، نواز شریف کے دور میں مہنگائی کافی حد تک کنٹرول میں تھی اور 2018 میں مہنگائی کی شرح 3.93 فیصد تھی اور اب 2021 میں موجودہ حکومت میں مہنگائی کی شرح 8.84 فیصد پر پہنچ چکی ہے جس میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے اور غریب عوام کی زندگی بہت زیادہ متاثر ہوئی ہے، اب اگلے دو سال بھی ہمیں اس حکومت کے ساتھ ہی گزارنے چاہئیں تاکہ عمران خان اور نواز شریف میں فرق کرنا قدرے آسان ہو جائے تاکہ کوئی دوبارہ یہ نہ کہہ سکے کہ مجھے کیوں نکالا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments