جواد ظریف: ایرانی وزیر خارجہ کی منظر عام پر آنے والی آڈیو ٹیپ میں پاسداران انقلاب پر شدید تنقید اور الزامات

کسرا ناجی - بی بی سی فارسی


جواد ظریف

ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف کی ایک ایسی آڈیو ٹیپ منظرعام پر آئی ہے جس میں وہ ملک کی طاقتور سکیورٹی فورس پاسداران انقلاب پر شدید تنقید کر رہے ہیں۔

اس آّڈیو میں وہ شکایت کر رہے ہیں کہ پاسداران انقلاب ملک کی خارجہ پالیسی پر حاوی ہے اور اسی نے ایران کو روس کی ایما پر شام کی جنگ میں دھکیلا ہے۔

جواد ظریف کی یہ آڈیو ٹیپ سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے اور لوگ اس پر حیران ہیں اور تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔

اس آڈیو میں سنی گئی باتیں لوگوں کی جانب سے بڑے عرصے سے کی جا رہی قیاس آرائیوں کی تصدیق کرتی ہیں۔ لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ یہ ظریف جیسے تجربہ کار سفارتکار اور ایک ایسے شخص کی جانب سے کی گئی ہیں جو کہ نپی تلی بات کرتے ہیں اور ایران کے جارحانہ پالیسیوں کے پس منظر میں ایک اعتدال پسند شخص کے طور پر جانے جاتے ہیں۔

یہ واضح نہیں ہے کہ یہ ٹیپ کس نے لیک کی ہے لیکن یہ ایک ایسے وقت پر منظرعام پر آئی ہے جب ایران میں صدارتی انتخاب کی تیاریں جاری ہیں اور طاقت کی کشمکش عروج پر ہے۔ جواد ظریف یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ صدارتی دوڑ میں حصہ نہیں لیں گے لیکن قدامت پسند طبقے ان پر یقین نہیں کرتے اور پوری کوشش کر رہے ہیں کہ ایسے کسی بھی امکان کو ختم کر دیا جائے۔

ایک بات واضح ہے کہ اس ٹیپ کے سامنے آنے سے جواد ظریف قدامت پسندوں اور ملک کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای جو تمام حکومتی معاملات میں آخری فیصلہ کرتے ہیں، کے سامنے مشکل میں پڑ جائیں گے۔

ایک مقامی اخبار نے اس خبر کو ‘سکینڈل’ قرار دیا ہے۔

بی بی سی اور بیرون ملک دیگر اداروں کو موصول ہونے والی یہ آڈیو ٹیپ تین گھنٹوں کی ہے اور بظاہر سات گھنٹوں پر مبنی اس ویڈیو انٹرویو سے لی گئی ہے جو دو ماہ قبل کیا گیا تھا۔ جواد ظریف کا وہ انٹرویو صدر روحانی کی اقتدار میں دو مدتوں پر مبنی ایک پروجیکٹ کا حصہ تھا۔

اس ٹیپ میں جواد ظریف دو موقعوں پر یہ کہتے ہیں کہ انھیں لگتا ہے کہ ان کے تبصرے کئی برسوں تک سنے یا شائع نہیں کیا جائیں گے۔

یہ بھی پڑھیے

ایرانی پاسداران انقلاب دراصل کون ہیں؟

قاسم سلیمانی: غریب گھرانے سے قدس فورس کی کمان تک

کیا ایران اور اسرائیل کی خفیہ لڑائی خطرناک موڑ پر آن پہنچی ہے؟

تہران میں یرغمال امریکیوں کی بازیابی کا امریکی مشن کیسے ناکام ہوا

جواد ظریف اور سرگئی لیوروف

آڈیو ٹیپ میں ظریف نے روس کے وزیر خارجہ کے خلاف بھی باتیں کی ہیں جن سے بظاہر ان کے اچھے تعلقات ہیں

وزیر بار بار یہ شکایت کرتے سنائی دیتے ہیں کہ پاسداران انقلاب نے ایران کی سفارتکاری اور خارجہ پالیسی کو خطے میں اپنی جنگی ضروریات کا ماتحت بنا رکھا ہے۔

وہ خاص طور پر اس بات کا ذکر کرتے ہیں کہ کس طرح پاسداران انقلاب کے سابق سربراہ قاسم سلیمانی اکثر ان کے پاس اپنے مطالبات لے کر آیا کرتے تھے۔ قاسم سلیمانی جنوری 2020 میں عراق میں امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہوگئے تھے۔

ظریف یاد کرتے ہیں کہ کس طرح سلیمانی چاہتے تھے کہ وہ روس کے وزیر خارجہ کے ساتھ ملاقاتوں میں ایک خاص موقف اپنائیں۔ ظریف کہتے ہیں کہ وہ جنرل سلیمانی ہی تھے جو ایران کو شام کی جنگ میں لے کر گئے کیوں کہ صدر پوتن چاہتے تھے کہ شامی حکومت کی حمایت میں کی جانے والی روس کی فضائی کارروائیوں کا ساتھ دینے کے لیے ایرانی فورسز وہاں زمین پر موجود ہوں۔

ظریف نے ان اطلاعات کی بھی تصدیق کر دی ہے کہ کس طرح شام میں اسلحہ اور فوج پہنچانے کے لیے سویلین طیاروں کا استعمال کیا گیا۔ ٹیپ میں وہ شکایت کرتے ہیں کہ سلیمانی نے ملٹری مقاصد کے لیے ایران کی قومی ایئرلائن ’ایران ایئر‘ کا استعمال کیا اور اس بات کا خیال نہیں رکھا کہ اس سے ملک کی ساکھ کو کیا نقصان ہو سکتا ہے۔

https://twitter.com/mikepompeo/status/1386524744640606208

جواد ظریف ٹیپ میں یہ بھی کہتے ہیں کہ روسی وزیر خارجہ سرگئی لیوروف نے سنہ 2015 میں ایران کے روس سمیت چھ عالمی طاقتوں سے ہونے والے جوہری معاہدے کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کی تھی۔ وہ الزام لگاتے ہیں کہ روس کبھی نہیں چاہتا تھا کہ ایران کے مغربی طاقتوں کے ساتھ تعلقات بہتر ہوں۔

ان کے یہ الفاظ حیران کن ہیں کیوں کہ عام طور پر یہی دیکھا اور سمجھا گیا ہے کہ ان کے لیوروف کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں اور یہ کہ روس ایران کا ایک اہم اتحادی ہے۔

یہ آڈیو ٹیپ ایک ایسے وقت پر لیک ہوئی ہے جب ایران جوہری معاہدے پر دوبارہ عمل پیرا ہونے کے مقصد سے ویانا میں امریکہ کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات کر رہا ہے۔ سنہ 2018 میں صدر ٹرمپ کی جانب سے لگائی گئی پابندیوں کے بعد ایران اس معاہدے کے تحت اپنی ذمہ داریوں سے پیچھے ہٹ گیا تھا اور یہ معاہدہ غیر فعال ہو گیا تھا۔

ظریف کہتے ہیں کہ پاسداران انقلاب بھی کبھی نہیں چاہتی تھی کہ یہ معاہدہ ہو اور اسے روکنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے گئے۔ انھوں نے ان کوشش کی مثال دیتے ہوئے دو واقعات کا ذکر کیا: ایک، میزائل تجربہ کیا گیا اور میزائل پر عبرانی زبان میں درج تھا کہ ’اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جانا چاہیے‘۔ دوسرا، سنہ 2016 میں خلیج میں پیٹرول کر رہی دو امریکی کشتیوں پر سوار 10 امریکیوں کی حراست، ان کے مطابق اس معاہدے کو ناکام کرنے کی کوششیں تھیں۔

جوہری معاہدہ

سرگئی لیوروف جوہری معاہدے کے لیے ایران کے عالمی طاقتوں سے ہونے والے مذاکرات میں خود شامل تھے

ظریف شکایت کرتے ہیں کہ پاسداران انقلاب نے انھیں کئی اہم موقعوں پر سائیڈ لائن کیا۔

وہ کہتے ہیں کہ جب 8 جنوری 2020 کو قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے ردعمل میں امریکی فوجیوں کو نشانہ بنانے کے لیے ایران نے عراقی ملٹری اڈے پر حملہ کیا تو انھیں اس حملے کے دو گھنٹوں بعد اس کے بارے میں معلوم ہوا۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ اسی دن جب پاسداران انقلاب کے ائیر ڈیفینس یونٹ نے تہران سے پرواز کرنے والے یوکرین کے مسافر طیارے کو ظاہر غلطی سے نشانہ بنایا تو کمانڈر چاہتے تھے کہ وہ ایران کے قصوروار ہونے کی تردید کریں۔ اس واقعے میں 176 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

ایران کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ جواد ظریف کے بیانات کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا جا رہا ہے اور اگر ضرورت پڑی تو وہ پوڑا انٹرویو شائع کریں گے۔

وزارت خارجہ کے ترجمان کے مطابق وزارت کے پاس اس انٹرویو کی ریکارڈنگ نہیں ہے اور اس کو محفوظ رکھنے کی ذمہ داری وزارت کی نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp