ضیاء شاہد صاحب سے ادھوری ملاقات؟


ضیاء شاہد صاحب کے صحافت کی دنیا میں کارناموں کے بارے میں لکھنا، سچی بات تو یہ ہے کہ میرے جیسے طالب علم کے لئے مشکل ہے۔ پروردگار ان کے درجات بلند فرمائے، بڑے صحافی تھے، اپنی بات کہنے میں ثانی نہیں رکھتے تھے، اس بات سے انکار نہیں کہ اور صحافی نہیں ہوں گے، جنہوں نے ظالم کو قلم کی طاقت سے للکارا ہو گا لیکن ضیاء شاہد جیسے نہیں ہوں گے۔ ان کا اپنا انداز تھا۔ پھر صحافی ہو کر ایک ادارے کے قیام تک جانا بھی کوئی آسان ٹاسک نہیں تھا۔

پاکستان جیسے ملک میں جہاں صحافت کبھی آسان نہیں رہی، ہر دور میں صحافیوں کو چیلنج درپیش رہے ہیں لیکن ضیاء شاہد صاحب نے حالات جو بھی تھے، ان کا سامنا کیا اور پوری جرات سے کیا۔ حق کا علم نہ صرف خود اٹھائے رکھا بلکہ اپنے قافلے میں ایسے لوگ شامل کرتے گئے جن میں وہ دیکھ رہے تھے کہ یہ کل بحیثیت صحافی ظالم اور ظلم کے خلاف کھڑے ہونے میں پیش پیش ہوں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بہت سوں کا خیال تھا کہ وہ اس شعبے کے لئے موزوں نہیں لیکن جب ضیاء شاہد صاحب کے ساتھ کام کیا تو صحافت کی دنیا میں بڑے نام ہو گئے۔

ضیاء شاہد صاحب نے اپنی محنت اور لگن کی بدولت صحافت کی دنیا میں جو انمٹ نقوش چھوڑے ہیں، ان کو تادیر یاد رکھا جائے گا۔ اب اپنی اور ضیا شاہد صاحب کی ادھوری ملاقات کی کہانی کی طرف آتا ہوں۔

جنرل مشرف کے 12 اکتوبر 1999 ء کو اقتدار پر قبضہ کے بعد نواز شریف اٹک قلعہ سے ہوتے ہوئے، ایک ڈیل کے نتیجہ میں سعودی عرب جا پہنچے تھے، پھر جنرل صاحب تھے اور ملک کے عوام تھے، ان کو وہ اختیارات بھی اعلیٰ عدالتوں کی طرف سے دان کر دیے گئے، جن کے موصوف طلب گار بھی نہیں تھے۔

مطلب پورا نظام ڈھیر ہو گیا، پھر جنرل مشرف نے آئین و قانون سے بالاتر ہو کر وہی کیا جیسے وہ کہتے ہیں ناں کہ ”گلیاں ہو جان سنجیاں تے وچ مرزا یار پھرے“ ۔ کہیں سے جنرل صاحب کی مزاحمت نہ ہوئی، وہی پیشہ ور سیاست دان جو کہ جنرل ضیاء سے لے کر جنرل ایوب تک اقتدار کی خاطر کچھ بھی کر سکتے تھے۔ وہ جنرل مشرف کو ٹبر سمیت پیارے ہو گئے۔ ان کی جوق در جوق آمد کے بعد حسب معمول ایک مسلم لیگ وجود میں لائی گئی اور ’پنجاب کے ڈاکوؤں‘ سمیت سارے کردار، جنرل کی چھتری میں وجود میں آنے والی پارٹی کو پیارے ہو گئے۔

ادھر ان کرداروں کے لئے آسانی ان کے کل کے قائد نواز شریف نے یوں پیدا کر دی کہ اسی جنرل مشرف کے ساتھ ڈیل کر لی، وہی نواز شریف جن کی حکومت کا تخت الٹ کر جنرل مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا تھا۔ جنرل مشرف کے اقتدار کو انجوائے کرنے کی خاطر ٹبر سمیت مسلم لیگ ق میں شامل ہونے والوں نے ایک راگ بھی شروع کر دیا جو کہ جنرل ضیاء کو پیارے ہونے کے بعد نواز شریف نے شروع کیا تھا کہ یہ ساری خدمت جمہوریت کو بچانے کے لئے کر رہے ہیں۔ ادھر جنرل مشرف جمالی اور شوکت عزیز کے تجربے کر چکے تو 2007 ء کے جنرل الیکشن کا وقت آن پہنچا، وہ نادیدہ کردار بھی تھک چکے تھے جو کہ جنرل صاحب کو جہاز کی سیڑھیوں سے اقتدار کی سیڑھی تک کندھا دے کر لائے تھے۔

دوسری طرف الیکشن تھے، ادھر نواز لیگ سمیت پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت جلاوطنی کے دن پورے کر رہی تھی، نواز شریف سعودی محل میں تھے تو بے نظیر بھٹو دبئی موجود تھیں۔ پھر وہی ہوا کہ درپردہ پیپلز پارٹی اور جنرل مشرف کے درمیان مذاکرات کے دور ہوئے، جنرل مشرف اور بے نظیر بھٹو کی ملاقات ہوئی، پھر این آر او ہوا، اور یوں پیپلز پارٹی کی قائد بے نظیر بھٹو پاکستان پہنچ گئیں، ان کی آمد پر کراچی میں ان پر خوف ناک حملہ کیا گیا، جس میں وہ محفوظ رہیں لیکن بڑی تعداد میں پیپلز پارٹی کے جانثار مار گئے۔

جنرل الیکشن 2007 ء کی خاص اہمیت تھی، لوگ پرجوش تھے کہ جنرل صاحب کے ساتھ حساب برابر کرنے کا وقت آ گیا تھا، میڈیا بھی اس بات کو محسوس کر رہا تھا کہ جنرل الیکشن پاکستان کی سیاست کو خاص سمت میں لے جائیں گے، اس تیزی کے ساتھ بدلتی سیاسی صورتحال کو بھانپتے ہوئے ہمارے سرائیکی ٹی وی چینل روہی اسلام آباد کے ڈائریکٹر و معروف صحافی عامر متین صاحب نے راقم الحروف کو الیکشن کی کوریج کے لئے اسلام آباد سے براستہ جنوبی پنجاب، ڈیرہ اسماعیل خان، بلوچستان اور سندھ کی طرف مع پروڈیوسر جانے کا حکم چند ماہ پہلے دے دیا تاکہ الیکشن کو حقیقی معنوں میں کور کیا جائے۔ اسلام آباد میں بیٹھ کر کہانیاں نہ گھڑی جائیں۔

سچی بات یہ ہے کہ راقم الحروف چاہ نہیں رہا تھا کہ الیکشن سے اتنا پہلے حلقوں میں جا کر اپنے سرائیکی چینل روہی کے لئے امیدواروں سے ملا جائے، عوام سے بات کی جائے اور پھر روزانہ کی بنیاد پر رپورٹس ادارے کو بھجوائی جائیں لیکن عامر صاحب کا حکم ٹالنا بھی ممکن نہیں تھا۔ یوں روانہ ہو گئے۔ جیسے جیسے مختلف اضلاع کے قومی اسمبلی کے حلقوں میں کوریج کرتے گئے، معلومات میں اضافہ ہوتا گیا، امیدواروں کے دعوے تھے تو عوام کا اپنے انداز میں سبق سکھانے کا ردعمل بھی۔

میانوالی میں ڈاکٹر شیر افگن خان نیازی تھے تو ڈیرہ اسماعیل خان سے مولانا فضل الرحمان امیدوار تھے۔ بھکر میں آزاد امیدوار تھے اور سیاسی پارٹیوں نے اپنے امیدواروں کو میدان میں اتارا ہوا تھا، کوٹ ادو میں محسن قریشی میدان لگا کر کھڑے تھے۔ ادھر پیپلز پارٹی کی سیاست کو اس وقت چار چاند لگ گئے تھے جب بے نظیر بھٹو اپنی انتخابی مہم چلانے کے لئے ملک کے مختلف شہروں میں جا کر جلسے کر رہی تھیں، ادھر نواز شریف کی پارٹی بھی متحرک ہو چکی تھی، جنرل مشرف کی چھتری میں وجود میں آنے والی ق لیگ جو کہ لوٹوں کو جگہ فراہم کرنے کے لئے بنائی گئی تھی۔ وہ سیاست میدان میں تنہائی کا شکار ہوتی جا رہی تھی۔

بحیثیت رپورٹر ہم اس بات کو محسوس کر رہے تھے کہ بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی کے بعد پیپلز پارٹی کی مقبولیت میں اضافہ ہو گیا ہے، مطلب اقتدار تک پہنچنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ جنوبی پنجاب سے سندھ میں داخل ہوا تو بڑا واضح تھا کہ پیپلز پارٹی خاصی اکثریت حاصل کر رہی تھی۔ اس دوران میں میری کوشش تھی کہ سندھ کی سیاسی لیڈرشپ سے ملوں اور ملاقات بھی ہوئی، اس کالم میں یقیناً سب کا ذکر کرنا ممکن نہیں ہو گا، ممتاز بھٹو صاحب کے ساتھ ملاقات کا مختصر احوال لکھتا ہوں۔

بھٹو صاحب نے اپنے آبائی گھر میں ہماری ریکویسٹ پر وقت دیا ہوا تھا لیکن ہم تھوڑا لیٹ ہوئے تو پتہ چلا کہ ممتاز بھٹو جا چکے ہیں۔

ہم نے پوچھا کہ اب کیا ہو سکتا ہے تو ان کے خادموں نے بتایا کہ اب آپ ان کے ڈیرے پر مل سکتے ہیں لیکن وہ دیر سے آنے والوں کا انتظار نہیں کرتے۔ خیر ان کے ڈیرے پر پہنچے، محبت سے ملے، ایک طویل انٹرویو ہوا، جس میں بھٹو صاحب کی حکومت کے اقتدار میں آنے سے پہلے اور پھر تختہ الٹنے تک کے عینی شاہد کی حیثیت سے پردہ اٹھایا، اس دوران انہوں نے مصطفے ٰ کھر کو گورنر پنجاب بنانے کے بھٹو صاحب کے فیصلے سے آگاہ کیا۔ یہاں یہ بھی کہا کہ کھر کو تو کپڑے پہننے کا ڈھنگ تک نہیں آتا تھا۔

ممتاز بھٹو اور کھر کے یارانہ کی باتیں تھیں جو کہ دلچسپ تھیں۔ انٹرویو کے دوران ممتاز بھٹو نے کہا کہ مصطفیٰ کھر اب آپ کے چینل پر میرا انٹرویو دیکھے گا تو مجھے کال کرے گا کہ یہ کیا کہانیاں سنا دی ہیں؟ لیکن اب آپ آئے ہیں تو بات تو ہو گی۔ خیر الیکشن کوریج کے دوران 27 دسمبر 2007 ء کی شام حیدر آباد میں تھا، جب یہ اطلاع ملی کہ بے نظیر بھٹو پر لیاقت باغ جلسہ میں خود کش حملہ ہوا ہے۔

پھر بے نظیر بھٹو کی لیاقت باغ پنڈی میں شہادت کی خبر آنے پر سندھ میں پنجاب کے لوگوں کے ساتھ کیا ہوا تھا، وہ ایک درد ناک کہانی ہے، اس پر کبھی الگ لکھوں گا؟ اسلام آباد واپسی پر روزنامہ خبریں میں ملک غلام مصطفیٰ کھر کا کالم پڑھا تو راقم الحروف کو ممتاز بھٹو کی باتیں یاد آئی کیوں کہ کھر صاحب جو کہانی اپنے کالم میں بیان کر رہے تھے، وہ ممتاز بھٹو کی باتوں کے برعکس تھی، یوں میں نے کھر کے کالم کے جواب میں کالم لکھا اور خبریں کے ای میل پر بھیج دیا۔

دوسرے دن خبریں لاہور سے فون آیا کہ آپ کا کالم ملا ہے، اپنا فوٹو بھیجیں، خبریں کا کوئیک رسپانس اچھا لگا، یوں اگلے دن کھر کے کالم کے جواب میں کالم شائع کر دیا گیا۔ پھر یوں ہوا کہ میں نے خبریں کے لئے لکھنا شروع کر دیا اور خبریں نے کالم کی اشاعت شروع کر دی۔ بات آگے بڑھی تو خبریں سے راقم الحروف کو فون آیا کہ آپ اپنے کالم کا نام تجویز کر کے بھجوائیں، کافی سوچ و بچار کے بعد ادھوری ملاقات نام چنا۔ آپ کی دعاؤں سے میری خبریں کے ساتھ وابستگی کو گیارہ سال ہو چلے ہیں۔

ان گیارہ برسوں میں راقم الحروف نے مختلف ایشوز پر کالم لکھے، جو کہ آپ نے پڑھے۔ لیکن ان گیارہ سالوں میں ضیا شاہد صاحب سے ملاقات ہوئی اور نہ ہی فون پر بات ہوئی۔ میں پہلے کالم سے آج کے کالم تک خبریں کو ای میل کرتا ہوں اور وہ کالم چھپ جاتا ہے۔

میری خواہش تھی کہ ضیاء شاہد صاحب سے لاہور کر جا کر ملوں، ان کی محبتوں کا شکریہ ادا کروں لیکن افسوس ہے کہ وہ چلے گئے، ضیاء صاحب اور میری ادھوری ملاقات یوں رہی ہے کہ وہ بحیثیت چیف صاحب میرا کالم تو دیکھتے ہوں گے لیکن شومئی قسمت میں ان کے پاس حاضر نہ ہو سکا اور مکمل ملاقات کا شرف حاصل نہ کر سکا۔ یوں راقم الحروف کو اس بات کا دکھ رہے گا کہ ضیاء شاہد صاحب سے ادھوری ملاقات رہی۔

آخر میں آپ سے درخواست ہے کہ ضیاء شاہد صاحب کے درجات کی بلندی کے لئے دعا کریں۔ وہ ہماری دھرتی کے محسن اور ہیرو تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments