انڈیا میں کورونا وائرس کی لہر: وہ شخص جو اپنا سونا اور گاڑی بیچ کر لوگوں کو آکسیجن فراہم کر رہا ہے

اقبال پرویز - بی بی سی ہندی


انڈیا میں کورونا وائرس کی مہلک دوسری لہر کے دوران ہسپتالوں میں بستر سے لے کر آکسیجن تک کی شدید قلت جیسی وجوہات مریضوں کی موت کا سبب بن رہی ہیں۔

ایسے میں ممبئی کے ایک 32 سالہ شخص شاہ نواز شیخ زندگیاں بچانے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔

پیسوں کی کمی ہوئی تو انھوں نے اپنی قیمتی ایس یو وی کار بیچ دی اور آکسیجن سیلنڈر خرید کر لوگوں کو مفت آکسیجن دینا شروع کر دیا۔ سلنڈر کم پڑنے لگے تو انھوں نے اپنی سونے کی چین کے ساتھ چند اور قیمتی اشیا بیچ دیں۔

یہ بھی پڑھیے:

موت کے منڈلاتے سائے میں ڈری سہمی دلی کا آنکھوں دیکھا حال

سانس لینے کی جدوجہد: ’آکسیجن کی فراہمی رکی تو زیادہ تر مریض مر جائیں گے‘

آکسیجن کی فراہمی میں مودی حکومت کی ناکامی کے اسباب

شاہ نواز شیخ نے بتایا ’آکسیجن کی قلت کے سبب لوگوں کی جان جا رہی ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ جس حد تک ممکن ہو سکے، ہم لوگوں تک مفت آکسیجن فراہم کریں اور ان کی جان بچائیں اور ایسا کرنے کے لیے میں نے اپنی ایس یو وی سمیت کچھ قیمتی سامان بھی بیچ دیا ہے۔‘

شاہنواز سے آکسیجن سیلنڈر حاصل کرنے والے یگنیش تریویدی نے بتایا ’اس وبا کے دور میں شاہنواز بھائی جو کچھ کر رہے ہیں وہ قابل تعریف ہے۔ متعدد تنظیمیں ایسی ہیں جو صرف برائے نام ہیں، لیکن اصل میں شاہ نواز بھائی لوگوں کی خدمت کر رہے ہیں اور بغیر کسی دستاویزات یا سکیورٹی ڈیپازٹ وہ لوگوں کو سیلنڈرز فراہم کر رہے ہیں۔‘

یہ سلسلہ گذشتہ برس شروع ہوا

در اصل شاہ نواز نے کورونا متاثرین کی مدد کرنا گذشتہ برس ہی شروع کر دیا تھا۔ کورونا وائرس کی پہلی لہر آنے پر جب اچانک ملک میں لاک ڈاؤن نافذ کر دیا گیا تو متعدد لوگوں کے لیے دو وقت کا کھانا مشکل ہو گیا تھا۔ ممبئی کے علاقے مالونی میں بیشتر غریب آبادی رہائش پذیر ہے۔ زیادہ تر لوگ جھوپڑ پٹی میں رہتے ہیں۔

گھروں کی مرمت اور انٹیریئر ڈیزائننگ کا کام کرنے والے شاہ نواز جب مالونی کے رہائشیوں کو پریشان دیکھا تو اپنی جمع رقم سے پیسے نکال کر متاثرین تک راشن پہنچانے کا کام شروع کیا۔ ان دنوں اپنے گھروں کو جانے کے لیے پریشان مائگرنٹ مزدوروں کو انھوں نے کھانا بھی کھلایا۔

شاہ نواز نے بتایا ’جب پہلی بار لاک ڈاؤن لگا تب مالونی میں روز مرہ آمدنی پر زندگی گزارنے والوں کے لیے دو وقت کا کھانا بھی مشکل ہو گیا تھا۔ ہمارے پاس جو بھی پیسے تھے، ان سے ہم نے لوگوں کی مدد کرنا شروع کی۔ انہیں راشن دینا شروع کیا۔ اس دوران میں نے مالونی کے ایک میدان میں مائگرنٹ ورکرز کو بیٹھے دیکھا۔ وہ اپنے گاؤں واپس جانے کے لیے پریشان تھے۔ انہیں رجسٹریشن کروانا پڑتا تھا اور اس عمل کے لیے وہ کھلے میدان میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ گرمی میں بھوکے پیاسے بیٹھے ہوتے تھے۔ مجھے یہ سب دیکھ کر بہت تکلیف ہوئی۔ ہم نے ان لوگوں کے ناشتے اور کھانے کا انتظام کیا۔‘

انہیں دنوں ان کے دوست عباس رضوی کی 27 سالہ بہن ماں بننے والی تھی۔ لیکن ممبئی سے نزدیک ممبرا نامی علاقے میں ان کی طبیعت خراب ہوئی اور سانس لینے میں تکلیف ہونے لگی۔ ہسپتال کے باہر انھوں نے دم توڑ دیا۔

جب عباس نے یہ بات شاہنواز کو بتائی تو انھوں نے طے کر لیا کہ وہ ضرورت مندوں کی مدد کریں گے اور انہیں مفت میں آکسیجن فراہم کریں گے، کیونکہ کورونا کی وبا کے سبب بیشتر مریض آکسیجن کی کمی کی وجہ سے ہلاک ہو رہے ہیں۔

شاہنواز نے بتایا’ حالات خراب تھے اور جب عباس نے اپنی بہن کے بارے میں بتایا تو میرے ذہن میں آیا کہ لوگوں کو آکسیجن مفت فراہم ہونی چاہیے کیوں کہ کئی بار ہسپتال میں بستر نہیں ملتا ہے۔ ایسے میں اگر مریضوں کو بر وقت گھر پر ہی آکسیجن مل جائے تو ان کی جان بچائی جا سکتی ہے۔ ہمیں پتا چلا کہ آکسیجن کی شدید کمی ہے۔ ہم نے کچھ لوگوں سے آکسیجن سیلنڈر کے بارے میں بات کی اور یہ معلوم کیا کہ ہم کیسے آکسیجن سیلنڈر حاصل کر سکتے ہیں اور کس طرح لوگوں کی مدد کر سکتے ہیں۔‘

انھوں نے بتایا ’ہم نے منصوبہ بنایا کہ ہم آکسیجن لائیں گے اور ضرورت مندوں کو تب تک آکسیجن دیں گے جب تک انہیں ہسپتال سے آکسیجن نہیں مل جاتی۔ ہمارے پاس جتنے پیسے تھے اس سے ہم نے تقریباً 30-40 آکسیجن سیلنڈر خریدے۔ سوشل میڈیا پر اس بارے میں لوگوں کو بتایا تا کہ لوگ ہم سے رابطہ کر سکیں۔ ضرورت اتنی بڑھ گئی کہ 30-40 سیلنڈر کم پڑنے لگے۔ تب ہم نے اپنی ایس یو وی کار اور کچھ سونے کا سامان بیچ دیا اور اس سے ملنے والی رقم سے 225 مزید سیلنڈر خرید لیے۔ اس دوران ہر رات ہماری ایک ٹیم خالی آکسیجن سیلنڈر کو بھرواتی تھی تا کہ کہ آکسیجن کم نہ پڑے۔‘

شاہنواز کے دوست سید عباس رضوی نے بتایا ’ہم دونوں ساتھ مل کر لوگوں کی مدد کرتے تھے۔ کچھ مصروفیات کے سبب میں شاہ نواز کے ساتھ مسلسل کام نہیں کر سکا، لیکن وہ اب بھی ضرورت مندوں کی مدد کر رہے ہیں۔ ان کا یہ کام دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے۔ میری رشتہ دار کے انتقال کے بعد انھوں نے لوگوں کو آکسیجن فراہم کرنے کا منصوبہ بنایا تھا اور انھوں نے اب تک یہ کام جاری رکھا ہے۔ وہ لوگوں کو سانسیں دے رہے ہیں۔‘

لاک ڈاؤن سے کام پر اثر

لاک ڈاؤن نے شاہنواز کے کام کاج کو بھی متاثر کیا ہے۔ ان کا دفتر بند پڑا ہے۔ وہ گھر سے ہی تھوڑا بہت کام کر رہے ہیں۔ ان کی کار بک گئی۔ کورونا کی دوسری لہر انڈیا میں کسی قہر کی طرح آئی ہے۔ اب بھی شاہنواز ضرورت مندوں تک مفت آکسیجن پہنچا رہے ہیں۔

گذشتہ برس سیکڑوں افراد کی جان بچانے میں اہم کردار ادا کرنے والے شاہ نواز کورونا کی دوسری لہر کے دوران بھی متعدد جانیں بچانے میں کامیاب رہے ہیں۔ شاہنواز کے پاس 225 آکسیجن سیلنڈر ہیں۔ ایک سیلنڈر کی قیمت تقریباً چار ہزار روپے ہوتی ہے۔ وہ ان سیلنڈروں کو بار بار بھرواتے ہیں اور ضرورت مندوں تک پہنچاتے ہیں۔ ایک سیلنڈر کو دوبارہ بھروانے میں تقریباً تین سو روپے خرچ ہوتے ہیں۔

شاہ نواز زیادہ سے زیادہ لوگوں کی مدد کرنا چاہتے ہیںِ لیکن انڈیا میں آکسیجن کی قلت کے سبب محض چالیس سے پچاس سیلنڈر ہی بھروا پاتے ہیں۔

شاہنواز نے کہا ’ہم مزید لوگوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں، لیکن آکسیجن میسر نہیں۔ بہت مشکل سے دن میں تیس سے چالیس سیلنڈر ری فِل ہو پاتے ہیں۔ اگر سارے سیلنڈر ری فِل ہو جائیں تو ہم مزید لوگوں کی مدد کر سکیں گے۔ کبھی کبھی سیلنڈر بھروانے کے لیے 80 سے 90 کلومیٹر دور تک جانا پڑتا ہے۔ سیلنڈر کی ضرورت کے حساب سے قیمت بھی بڑھ گئی ہے۔ گذشتہ برس 150 سے 180 روپے میں ایک سیلنڈر بھرا جاتا تھا، جس کی قیمت اس سال 400 سے 600 کے درمیان ہو گئی ہے۔ لیکن مجھے 300 روپے میں مل جاتا ہے کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ میں لوگوں کی مدد کر رہا ہوں۔‘

یہ بھی پڑھیے:

آکسیجن کی فراہمی میں مودی حکومت کی ناکامی کے اسباب

انڈیا میں طبی نظام پر بوجھ: ’اپنے آس پاس روز موت کو دیکھنا کسی کو بھی تھکا سکتا ہے‘

‘بستر، دوا یا آکسیجن نہیں دے سکتے تو کم از کم لاشوں کو منتقل کرنے کے لیے سٹریچر تو دیں‘

کورونا کی دوسری لہر کے دوران ممبئی کے باندرا علاقے کے رہائشی اعجاز فاروق پٹیل کے 67 سالہ والد فاروق احمد کی طبیعت بگڑی اور کسی ہسپتال میں جگہ نہیں مل سکی۔ فاروق پٹیل شوگر اور دل کے مرض میں پہلے سے مبتلا تھے۔

اعجاز پٹیل ہسپتالوں کے چکر لگا رہے تھے لیکن ہر جگہ سے مایوسی ہی مل رہی تھی۔ ان کے والد کو آکسیجن کی شدید ضرورت تھی۔ اعجاز نے شاہ نواز سے رابطہ کیا اور ایک گھنٹے کے اندر آکسیجن سیلنڈر مل گیا۔ ان کے والد اب بہتر ہیں اور صحتیابی کے نزدیک ہیں۔

اعجاز فاروق پٹیل نے بتایا ’میں شاہ نواز بھائی کا شکر گزار ہوں، شاہ نواز بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔ وہ مجھ سے پیسے بھی نہیں لے رہے تھے، لیکن میں نے اصرار کر کے سیلنڈر ری فِل کرانے کے پیسے دیے تا کہ آگے کسی اور کی مدد ہو سکے۔‘

اسی طرح ممبئی کے ملاڑ ایسٹ علاقے کے یگنیش تریویدی نے آدھی رات کو شاہ نواز کے دروازے پر دستک دی اور انہیں آکسیجن کا سیلنڈر مل گیا۔ یگنیش اپنی 75 سالہ نانی کنچن بین کے علاج کے لیے بھٹک رہے تھے۔ کئی ہسپتالوں کے چکر بھی لگا چکے تھے لیکن آخر کار انہیں شاہنواز سے مدد حاصل ہوئی۔

یگنیش تریویدی نے بتایا ’میری نانی کو ہسپتال میں جگہ نہیں مل رہی تھی۔ جس ہسپتال میں بستر مل رہا تھا ہم اس کا خرچ نہیں اٹھا سکتے تھے۔ ہم نے متعدد تنظیموں کے دروازوں پر دستک دی لیکن سب صرف دکھاوے کی امدادی تنظیمیں نکلیں۔ وہ لوگ بہت سارے کاغذات مانگ رہے تھے۔ پھر میں 21 اپریل 2021 کو شاہ نواز بھائی کے پاس گیا۔ انہوں نے بغیر کچھ جانے، محض آدھار کارڈ پر رات ساڑھے بارہ بجے ہمیں آکسیجن سیلنڈر دے دیا۔‘

اتنا ہی نہیں، کچھ مقامی سیاستدان بھی کورونا متاثرین کی مدد کرنے کے لیے شاہ نواز کی مدد لے رہے ہیں۔

کانگریس راہنما راجو سرسٹ نے بتایا ’ہم نے پینڈیمک ٹاسک فورس کے لیے ہیلپ لائن نمبر دیا ہوا ہے۔ ہمارے پاس مدد کے لیے فون آتے ہیں۔ اگر کسی کو آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے تو ہم شاہ نواز بھائی سے آکسیجن سیلنڈر لیتے ہیں۔ ہم نے انہیں رات ایک بجے بھی فون کیا، تب بھی انہوں نے فون اٹھایا اور ہماری مدد کی۔‘

شاہنواز کے خاندان کا تعلق ریاست اتر پردیش کے اعظم گڑھ نامی علاقے سے ہے۔ شاہنواز کی پیدائش ممبئی میں ہوئی تھی۔ وہ اپنے بھائی، بہن، اہلیہ اور بیٹی کے ساتھ ممبئی میں رہتے ہیں۔ وہ یونیٹی اینڈ ڈگنٹی نامی ایک تنظیم کی بنیاد رکھ چکے تھے، لیکن کورونا میں حالات خراب ہونے کے سبب وہ مکمل طور پر اسی کام میں مصروف ہو گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32473 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp