کیا خام مال کی کمی نے انڈیا کی ویکسین کی پیداوار کو متاثر کیا؟

نیاز فاروقی - بی بی سی، نئی دہلی


کورونا مریض

امریکا کا کووڈ ویکسین سے متعلق خام اشیا انڈیا کو درآمد کرنے پر پر مبینہ طور پر پابندی سے متعلق ہنگامے کے بعد بالآخر گذشتہ روز امریکی حکومت نے اس کی فراہمی کی اجازت دے دی ہے۔

انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی نے کہا ہے کہ انھوں نے امریکی صدر سے گفتگو میں ویکسین کے لیے خام مال اور ادویات کی بلا رکاوٹ اور موثر طور پر فراہمی کی اہمیت پر زور دیا ہے۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں نریندر مودی نے کہا کہ انڈیا اور امریکہ کی شعبہ صحت میں شراکت داری کووڈ کے عالمی چیلنج سے نمٹ سکتی ہے۔

نریندر مودی نے کہا کہ ان کی امریکی صدر جوبائیڈن سے نتیجہ خیز گفتگو ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے دونوں ملکوں میں کووڈ کی بدلتی ہوئی صورتحال پر تفصیل سے بات ہوئی ہے۔ میں نے امریکہ کی جانب سے انڈیا کو دی جانے والی امداد پر صدر جو بائیڈن کا شکریہ ادا کیا۔‘

یہ بھی پڑھیے

انڈیا کورونا کی خطرناک دوسری لہر کو روکنے میں ناکام کیوں رہا؟

انڈیا میں کورونا سے پہلی موت کی پراسرار کہانی

سانس لینے کی جدوجہد: ’آکسیجن کی فراہمی رکی تو زیادہ تر مریض مر جائیں گے‘

‘بستر، دوا یا آکسیجن نہیں دے سکتے تو کم از کم لاشوں کو منتقل کرنے کے لیے سٹریچر تو دیں‘

کورونا وائرس: انڈیا میں آکسیجن کا بحران

کورونا وبا کی شدت میں اضافے کے بعد دونوں ممالک کے مبصرین کی طرف سے اس مسئلے پر سخت ردعمل کا اظہار ہوا تھا۔ لیکن کیا یہ حقیقت ہے کہ امریکہ سے خام مال کی کمی کا اثر انڈیا کی ویکسین کی پیداوار پر ہوا ہے؟

اس مسئلے سے متعلق اطلاعات متضاد ہیں۔ لیکن تنازع کیا ہے؟

‘سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا’ کے سربراہ پوناوالہ، جو کہ برطانوی کمپنی آسٹرا زینیکا کے ساتھ کوویشیلڈ نامی ویکسین بنا رہے ہیں، نے 19 اپریل کو امریکی صدر کو ایک درخواست نما ٹویٹ کی تھی۔

‘قابل احترام امریکی صدر، اگر ہمیں اس وائرس کو ہرانے کے لیے واقعی متحد ہونا ہے تو امریکہ سے باہر ویکسین انڈسٹری کی جانب سے میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ خام مال کی برآمدات پر پابندی کو معطل کریں تاکہ ویکسین کی پیداوار میں اضافہ ہوسکے۔ آپ کی انتظامیہ کے پاس تفصیلات ہیں۔’

یہ ایک غیر معمولی لمحہ تھا جب کہ ایک کمپنی کے سربراہ نے ایک ریاست کے سربراہ سے سوشل میڈیا پر اپیل کی ہو۔

پوناوالہ کی کمپنی کو اس سال دونوں کوویشیلڈ اور کوواویکس کی ایک ارب سے زائد خوراکیں فراہم کرنی ہیں۔ یہ انڈیا کی ‘ویکسین ڈپلومیسی’ کا ایک حصہ بھی ہے جس میں انڈین حکومت نے دوسرے ضرورت مند ممالک کو ویکسین بھیجنی ہے۔

سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا کے علاوہ بھارت بایوٹیک انڈیا میں کورونا کی ویکسین بنانے والی اہم کمپنی ہے۔ بھارت بایوٹیک جو کہ ‘کوویکسین’ نامی ویکسین بنا رہا ہے نے اپریل 20 کو اعلان کیا تھا کہ اس نے خام مادے کا انتظام کر لیا ہے اور وہ اس ویکسین کو بنانے کی صلاحیت میں توسیع کر رہے ہیں۔ لیکن 23 اپریل کو کمپنی کے ایک سینیر رہنما، سائی پرساد، جو کہ ‘ڈیویلپنگ کنٹریز ویکسیں مینوفیکچررس ایسوسیشن’ کے صدر بھی ہیں، نے کہا کہ اس امریکی قانون کے وجہ سے ویکسین کے لیے متعدد خام اشیا میں کمی آئی ہے۔

لیکن پوناوالہ کو ٹویٹ اور انڈیا میں کورونا وائرس کے کیسوں کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ ہونے کے بعد اس مسئلے پر لوگوں نے آن لائن اور آف لائن غم و غصہ کا اظہار کیا جس میں امریکا اور پوناوالہ کی کمپنی پر سالیہ نشان لگائے گئے۔

امریکی انتظامیہ نے اس سے انکار کیا کہ ملک نے ایسی کوئی سراسر پابندی عائد کی ہے۔ تاہم انتظامیہ نے ‘یو اس ڈیفینس پروڈکشن ایکٹ'(جو کہ حکومت کو نجی شعبے کے پیداواری فیصلوں پر قابو کرنے کی اجازت دیتی ہیں) کا انعقاد کیا تھا جو کہ غیر ملکی خریداری پر وفاقی حکومت کی خریداری کو ترجیح دیتی ہے۔

کووڈ جیسی غیر معمولی صورتحال میں ویکسین کی پیداور میں استعمال ہونے والے خام اشیا کی قلت متوقع تھی، اس ایکٹ کا عملی طور پر یہ مطلب ہوا کہ امریکی کمپنیاں اپنے برآمدگی کے آرڈرز کو پورا نہیں کرسکیں گی۔ اس کا اثر انڈیا میں کورونا ویکسین کی خام مال کی برآمدات پر ہوا ہے لیکن یہ ابھی تک پوری طرح واضح نہیں ہے کہ اس سے کووی شیلڈ ویکسین کی پیداواری پر فوری طور پر اثر ہوا ہے، جس کی پیداوار پوناوالہ کی کمپنی انڈیا میں کر رہی ہے اور جس کا استعمال ملک میں ویکسینیشن کے لیے ہو رہا ہے۔

پونا والا نے خود 21 اپریل کو ایک نیوز چینل کو بتایا تھا کہ اس پابندی سے کوویشیلڈ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا حالانکہ اس سے کوواویکس (نوواویکس نامی کمپبنی کے ساتھ شراکت داری میں) پر اثر ضرور ہوگا جسے ستمبر 2021 میں بازار میں دستیاب ہونا تھا۔ انھوں نے کہا کہ کویشیلڈ پر خوش قسمتی سے امریکہ کے خام مال (پر باپندی) سے کوئی اثر نہیں پڑا تھا کیونکہ ہم نے اس کا انتظام کر لیا تھا۔

‘کوواویکس کے لیے یہ اس لیے اہم ہے کیوں کہ ہم رواں ماہ میں ہی کوواویکس کو ذخیرہ اندوز اور تیار کرنا شروع کر رہے ہیں … یہ کوواویکس پروڈکشن کے لیے ایک بحران ہے جو کہ ہم دوگنا بنا سکتے ہیں اگر ہمارے پاس یہ خام مال ہوتا۔’

انھوں نے یہ بھی کہا کہ انھوں نے یورپ اور دیگر مقامات سے بھی خام مال کا انتظام کیا ہے۔ تاہم ان کی کمپنی کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے ‘دی اکانومسٹ’ کو بتایا کہ دونوں ویکسینوں کے لیے خام مال کی ضرورت ہوگی اور ان کی کمپنی نے دو ماہ قبل امریکی حکومت کو اس کے بارے میں آگاہ کیا تھا۔

اتوار کے روز اس مسئلے پر امریکہ کے بیان نے مزید الجھن پیدا کر دیا۔ امریکی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان ایمیلی ہورن نے کہا کہ امریکہ نے ‘کوویشیلڈ ویکسین کی انڈین کی پیداوار کے لیے فوری طور پر مطلوبہ مخصوص خام مال کے ذرائع کی نشاندہی کی ہے جو کہ فوری طور پر انڈیا کو فراہم کروائی جائے گی۔’

آل انڈیا ڈرگ ایکشن نیٹ ورک کی کو کنوینر مالینی ایسولا کہتی ہیں کہ پونا والا’کہہ رہے ہیں کہ کوویشیلڈ کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں ہے تو ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ تشویش نوواویکس کے خام مال کی فراہمی پر ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ‘مجھے یہ واضح نہیں ہے کہ وائٹ ہاؤس نے کوویشیلڈ کی بات کیوں کی۔ ہوسکتا ہے کہ وہ اس حقیقت سے توجہ ہٹانے چاہتے ہوں کہ انھوں نے اور دیگر خام اشیا کو روک رکھا ہے۔ (وائٹ ہاؤس) کے الفاظ بہت احتیاط سے انجام دیے جاتے ہیں۔’

سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا نے بی بی سی کی جانب سے فون پر رابطہ کرنے پر جواب نہیں دیا۔

واضح رہے کہ کورونا وائرس وبا کے آغاز کے وقت صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی وینٹیلیٹرز کی پیداوار بڑھانے اور طبّی سامان کی برآمدات کو محدود کرنے جیسے مقاصد کے لیے ‘یو اس ڈیفینس پروڈکشن ایکٹ’ کا استعمال کیا تھا۔

کیا صرف انڈین کمپنیوں کو خام اشیا کی کمی ہوئی ہے؟

ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق ویکسین تیار کرنے والا ایک پلانٹ عام طور پر تقریبا 9000 مختلف مواد کا استعمال کرتا ہے۔ یہ مواد 30 ممالک میں 300 کے قریب سپلائرز سے حاصل کیا جاتا ہے۔

انڈیا

کورونا وائرس متاثرین کے حوالے سے انڈیا دنیا کا تیسرہ متاثرہ ترین ملک ہے

‘انٹرنیشنل فیڈریشن آف فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز اینڈ ایسوسی ایشن’ کے مطابق سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا کے علاوہ پوری دنیا میں دیگر کمپنیوں نے بھی متعدد اجزا کی فراہمی پر تشویش اظہار کیا ہے۔ ان مینوفیکچرز نے وبا کے ابتدائی دنوں میں ہی ان خام مادہ کی مانگ میں اضافہ دیکھا تھا۔ ان میں سے کچھ کمپنیوں کو ابتدائی مطالبات کو پورا کرنے کے لیے پہلے ہی اپنی پیداوار میں تقریبا 50 فیصد کا اضافہ کرنا پڑا تھا۔

ڈبلیو ٹی او کے تجارتی اعدادوشمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2020 کے پہلے چھ مہینوں میں خاص طور پر ‘کریٹیکل’ خام مال (مثلاً نیوکلیک ایسڈ، امینو ایسڈ فینول، سیلیک امایڈ، لیسیتین اور اسٹیرول) کی عالمی برآمدات میں 49 فیصد کا اضافہ ہوا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp