عمران خان کے ’مغرب کو جاننے‘ پر سوشل میڈیا صارفین کا ردِعمل: ’کاش مجھے یونیورسٹی کا سیلیبس ایسے یاد ہوتا جتنا عمران خان کو مغرب یاد ہے‘


’میرے پاکستانیوں۔۔۔۔ بس آپ نے گھبرانا نہیں ہے۔۔۔ ریاست مدینہ۔۔۔۔ جب میں کرکٹ سے سیاست میں آیا۔۔۔ نواز شریف، شہباز شریف کی کرپشن۔۔۔ این آر او نہیں ملے گا۔۔۔ پی ڈی ایم۔۔۔ مجھ پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔‘

یقیناً جب بھی یہ چند فقرے آپ کے کانوں سے ٹکراتے ہیں تو آپ کو علم ہو جاتا ہے کہ ٹی وی یا ریڈیو پر ہمارے وزیر اعظم عمران خان کی تقریر، خطاب یا بیان کا کوئی حصہ چل رہا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان کے بعض حریف بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ وہ فن خطابت بخوبی جانتے ہیں، چاہے وہ دور اپوزیشن میں ’نیا پاکستان‘ بنانے کے متعلق کی گئی باتیں ہو یا حالیہ منصب سنبھالنے کے بعد پاکستانی معاشرے میں جدید اسلامی ریاست کی تشکیل کی کوشش ہو، وزیر اعظم عمران خان کی تقاریر ہمیشہ موضوع بحث رہی ہیں۔

اس کی ایک وجہ تو خود ان کی طلسماتی شخصیت، تو دوسرا ان کے حامیوں کا اس بات پر اترانا کہ وہ پہلے وزرا اعظموں کی طرح ملکی و بین الاقوامی سطح پر خطابات اور تقاریر کے دوران نوٹس یعنی ’پرچی‘ کا استعمال نہیں کرتے۔

یہ بھی پڑھیے

جرمنی، جاپان اور عمران خان

’گھبرانا بھی پڑے گا اور اب کچھ کرنا بھی پڑے گا‘

حضرت عیسیٰ پر عمران خان کا بیان، سوشل میڈیا پر بحث

اگر وزیر اعظم عمران خان کی تقاریر کا جائزہ لیا جائے تو کئی ایسے الفاظ اور فقرے ہیں جو اب ان کی تقریر کا لازمی حصہ بن چکے ہیں۔ ان ہی میں سے ایک فقرہ ’ویسٹ (مغرب) کو مجھ سے زیادہ کوئی نہیں جانتا‘ ہے جس کا استعمال آج کل وہ اپنی بیشتر تقاریر میں کرتے نظر آتے ہیں۔

اس کی ایک مثال گذشتہ روز ملتان میں ان کی ایک تقریر کے دوران سامنے آئی جب انھوں نے کہا کہ ’میں، میرے پاکستانیو! میں، مغرب کو سب سے بہتر جانتا ہوں، کوئی مغرب کو اس طرح اندر سے نہیں سمجھتا جتنا میں سمجھتا ہوں۔ میری زندگی کے 20 سال وہاں پیشہ ورانہ کرکٹر کی حیثیت سے گزرے ہیں۔ میں وہاں یونیورسٹی گیا۔ میں ان کی سوچ کو جانتا ہوں۔‘

وزیر اعظم عمران خان دراصل عوام سے یہ کہنا چاہتے تھے کہ پیغمبر اسلام کی توہین کے معاملے پر فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے سے مغربی ممالک کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

عمران خان

وزیر اعظم عمران خان مغربی ممالک میں گزارے ہوئے اپنے وقت کے تجربات کی روشنی میں عوام کو ان ممالک کے طرز عمل کے بارے میں بتانے کی کوشش کر رہے تھے تاہم اس مسئلے کے بجائے سوشل میڈیا پر یہ بات زیر بحث ہے کہ آخر عمران خان مغرب میں اپنی زندگی کا اتنا حوالہ کیوں دیتے ہیں اور آیا مغربی ممالک کا کلچر ایک ’آبسیشن‘ بن کر ان کے ’ذہن پر غالب آگیا ہے؟‘

سوشل میڈیا پر ردعمل

وزیر اعظم کے مغربی ممالک اور ثقافت کو جاننے کے بیان کے بعد ملک کے سوشل میڈیا صارفین نے اس پر مختلف تبصروں اور میمز کے ذریعے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

فریحہ اعوان نامی ایک ٹوئٹر صارف نے عمران خان کی تقاریر کو ایک میم کے ذریعے بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس میں انھوں نے ایک بنگو کارڈ پر عمران خان کے وہ تمام مقبول الفاظ لکھے ہیں جو وہ اکثر اپنی تقاریر میں بولتے ہیں، جیسے ’میرے پاس سب کچھ تھا۔‘

جبکہ ماہین عثمانی نے وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے اپنی تقاریر میں مغرب کا حوالے دینے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’اگر وزیر اعظم نے ہر مرتبہ یہ (مغرب کو بہتر جانتا ہوں) کہنے پر مجھے ایک ڈالر ملتا تو میں امیر ہوتی۔‘

ماہم نامی صارف نے مزاحیہ انداز میں لکھا ہے کہ ’کاش مجھے اپنا یونیورسٹی کا سیلیبس اتنا ہی یاد ہوتا جتنا عمران خان کو مغرب یاد ہے۔‘

مریم صبیح وزیر اعظم پاکستان سے اتفاق نہیں کرتیں۔ وہ لکھتی ہیں کہ ’پاکستان سے تعلق رکھنے والے کئی امریکیوں کی طرح میں مغرب میں پیدا ہوئی۔ مجھے لگتا ہے میں مغرب کو عمران خان سے زیادہ جانتی ہوں۔‘

ایک اور صارف نے لکھا ’عمران خان جتنا مغرب کو سٹاک کرتے ہیں، مغرب نے تنگ آ کر ان کے خلاف عدالت سے حکمِ امتناعی جاری کروا لینا ہے کہ میرا پیچھا چھوڑ دیں۔‘

اور عائشہ نامی صارف چاہتی ہیں کہ ’کاش کوئی مجھے ویسے ہی سمجھے جیسے عمران خان مغرب کو سمجھتے ہیں۔‘

ذوالقرنین ساہی نے اس صورتحال کو کچھ یوں بیان کیا ہے:

پرانا ڈائیلاگ: ’لگتا ہی نہیں ہم اب ملے ہیں، ایسے لگتا ہے جیسے ہم جنم جنم سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں‘

نیا ڈائیلاگ: ’ایسے لگتا ہے جیسے تم عمران خان ہو اور میں مغرب‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp