کووڈ 19: دلی کے اصل حالات جلتی چتائیں بیان کر رہی ہیں، سرکاری اعداد و شمار نہیں

زبیر احمد - بی بی سی نیوز، دلی


چتائیں

میں نے پیر کو اتنی بڑی تعداد میں ایک ساتھ جلتی ہوئی چتائیں (لاشیں) پہلی بار دیکھیں اور دہلی کے تین شمشان گھاٹوں پر ایک ہی دن میں یہ افسوسناک منظر دیکھا۔ جو لاشیں جل رہی تھیں وہ سب کورونا وائرس سے ہلاک ہونے والے لوگوں کی تھیں۔

سنیچر کے روز میں نے دلی کے ہسپتالوں میں لوگوں کو آکسیجن، آئی سی یو بیڈ، وینٹیلیٹر اور دوائیوں کے لیے لڑتے ہوئے دیکھا۔ میں نے ایسے بہت سے متاثرہ افراد کے رشتے داروں کو روتے دیکھا جو آخری سانسیں لے رہے تھے۔

جبکہ میں نے سوموار کو شمشان گھاٹوں پر معمر، جوان اور بچوں کو ایک دوسرے سے گلے مل کر روتے ہوئے دیکھا۔ لوگوں کو دیکھا کہ وہ لاشوں کو نذر آتش کرنے کے لیے اپنی باری کے منتظر ہیں اور جب شمشان گھاٹ بھی چھوٹا پڑ گیا تو کھلے گراؤنڈ میں عارضی شمشان گھاٹ بنتے دیکھے تاکہ مزید آنے والی لاشوں کو جلایا جاسکے۔

یہ بھی پڑھیے

موت کے منڈلاتے سائے میں ڈری سہمی دلی کا آنکھوں دیکھا حال

آکسیجن کی فراہمی میں مودی حکومت کی ناکامی کے اسباب

‘بستر، دوا یا آکسیجن نہیں دے سکتے تو کم از کم لاشوں کو منتقل کرنے کے لیے سٹریچر تو دیں‘

کورونا وائرس: انڈیا میں آکسیجن کا بحران

دہلی میں کووڈ 19 سے روزانہ مرنے والوں کی تعداد سرکاری طور پر 350 سے 400 کے درمیان بتائی جارہی ہے۔ میں نے دیکھا کہ صرف چند ہی گھنٹوں میں تین شمشان گھاٹوں میں سو سے زیادہ چتائیں جل رہی تھیں۔

سرائے کالے خان میں رنگ روڈ سے متصل ٹریفک کی بھیڑ سے دور ایک برقی شمشان ہے۔ وہاں ایک جانب بیک وقت بہت سی چتائیں جل رہی تھیں اور دوسری طرف لاشوں کے آخری رسومات کی تیاریاں کی جارہی تھیں۔ رشتہ داروں، ایمبولینسوں اور خدمتگاروں کا ہجوم تھا۔ ایک وقت میں تقریباً 10-12 لاشیں جلائی جارہی تھیں۔

آخری رسومات

کھلے میدان میں عارضی شمشان

وہاں آخری رسومات انجام دینے کے لیے ایک ہی پنڈت موجود تھا اور وہ اس قدر مصروف تھے کہ ان سے بات کرنا مشکل تھا۔ جب میں نے اپنے فون سے ویڈیوز بنانی شروع کیں تو گرمی کی وجہ سے فون نے کام کرنا بند کر دیا۔ میں سوچ رہا تھا کہ اتنا مضبوط فون پانچ منٹ میں ہی گرم ہو گیا لیکن یہ پنڈت نہ جانے کب سے شعلوں کے درمیان آخری رسومات انجام دے رہے ہیں۔ میں ان کے قریب گیا اور پوچھا کہ ہر گھنٹے کتنی چتائیں جل رہی ہیں تو میری طرف دیکھے بغیر انھوں نے کہا: ’24 گھنٹے لاشیں یہاں آرہی ہیں تو تعداد کسے یاد رہتی ہے۔’

ہر ایک منٹ بعد یکے بعد دیگرے ایمبولینسز لاشیں لے کر آرہی تھیں۔ میرا سر گھومنے لگا۔ میں نے شدت پسندوں کے حملوں، ہلاکتوں اور واقعات کی رپورٹنگ کیی ہے لیکن اس سے پہلے اتنے بڑے پیمانے پر چتائیں نہیں دیکھیں۔ ایک تو چتاؤں کی آگ سے نکلتی گرمی اور دوسرے سورج کی گرمی اور پھر پی پی ای کٹ میں سر سے پاؤں تک ڈھکے رہنے سے وہاں کھڑا ہونا مشکل ہو گیا تھا۔ شاید میں بہت جذباتی ہو گیا تھا۔

تھوڑی دیر ایک طرف کھڑے رہنے کے بعد جب میں وہاں سے نکلا تو ایک خاتون رپورٹر نے مجھے بتایا کہ کچھ فاصلے پر کھلے گراؤنڈ میں ایک عارضی شمشان بنایا جارہا ہے۔

جب میں وہاں گیا تو میں نے دیکھا کہ بہت سے مزدور کھلے میدان میں چتا کے لیے 20-25 پلیٹ فارم بنا رہے ہیں۔ وہاں موجود ایک شخص نے بتایا کہ آنے والے دنوں میں ہلاکتیں بڑھنے کے خدشے کے پیش نظر تیاری کی جا رہی ہے۔

لودی روڈ الیکٹریکل شمشان گھاٹ میں ہجوم زیادہ تھا۔ چتائيں بھی بڑی تعداد میں جل رہی تھیں۔ وہاں مرنے والوں کے لواحقین کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ میں نے دیکھا کہ ایک ہی خاندان کے بہت سے لوگ ایک دوسرے کو گلے لگا رہے ہیں اور رو رہے ہیں۔

شمشان

ایمبولینسز آرہی ہیں اور لاشوں کو اتارا جارہا ہے۔ گنتی نہیں ہے، لیکن میرا اندازہ ہے کہ ایک ہی وقت میں 20 سے 25 چتائیں جل رہی تھیں۔ بہت سے رشتے دار پی پی ای کٹ پہن کر آئے تھے۔

اسی طرح کی کٹ پہنے ایک نوجوان بینچ پر بیٹھا تھا۔ اس نے مجھے بتایا کہ سوموار کی صبح اس کے والد وائرس کی وجہ سے کی وفات پاگئے۔ وہ پہلے وہاں پہنچ گیا تھا اور اس کے بھائی ہسپتال سے والد کی میت لا رہے تھے۔ وہ کچھ لمحوں کے بعد رونے لگا۔ وہاں موجود کچھ لوگ اسے دلاسہ دینے لگے۔

شمشان

وہاں موجود تمام افراد اپنے پیاروں کو الوداع کہنے آئے تھے۔ تو یہ قدرتی بات تھی کہ وہ اس نازک موقع پر ایک دوسرے کے درد کو سمجھ رہے تھے۔

شمشان

سیما پوری شمشان گھاٹ کا منظر

سیماپوری کا شمشان گھاٹ قدرے تنگ ہے لیکن اس کے باوجود بڑی تعداد میں لاشیں جل رہی تھیں۔ کچھ پلیٹ فارم پہلے سے موجود تھے کچھ نئے بنائے گئے تھے۔

وہاں موجود رشتے دار لاشیں خود ہی اندر لا رہے تھے اور خود لکڑی کا انتظام بھی کر رہے تھے۔ وہاں مجھے بجرنگ دل کا ایک نوجوان ملا جو ایک ایمبولینس سروس سے وابستہ ہے۔ اس نے مجھے بتایا کہ وہ 10 دن سے مسلسل ہسپتالوں سے لاشیں لا رہا ہے۔ سکھوں کی ایک تنظیم یہاں ہر طرح کی سہولیات کی فراہمی کے لیے پوری طرح کوشاں ہے لیکن مرنے والے لوگوں کی تعداد کافی ہے۔

ایک سردار جی نے کہا کہ پچھلے کچھ دنوں سے حالات اتنے خراب ہیں کہ اب لوگوں سے یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ وہ دوسرے شمشان گھاٹ چلے جائیں۔ وہ وہاں خدمت میں مصروف تھے۔ انھوں نے دعوی کیا کہ سیماپوری شمشان گھاٹ میں روزانہ 100 سے زائد چتائیں جل رہی ہیں۔

قبرستان

قبرستانوں کا کیا حال ہے؟

لودی روڈ شمشان گھاٹ سے کچھ دور مسلمانوں کا ایک قبرستان ہے۔ لیکن وہاں صرف ایک ہی جنازے کی نماز ادا کی جا رہی تھی۔ اوکھلا کے بٹلہ ہاؤس میں بھی ایک قبرستان ہے۔ وہاں کے ایک رہائشی نے فون پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پہلے وہاں تین سے چار افراد کی قبریں کھودی جاتی تھیں لیکن اپریل کے مہینے سے روزانہ 20 سے 25 قبریں کھودی جارہی ہیں۔ انھوں نے کہا: ‘کل میں نے خود دو جنازوں کی نمازیں پڑھیں۔’

آئی ٹی او پر ٹائمز آف انڈیا کی عمارت کے پیچھے ایک قبرستان ہے۔ قبر کھودنے کا کام کرنے والے ایک شخص نے بتایا کہ وہاں کووڈ سے مرنے والوں کی قبریں علیحدہ ہیں۔

وہ مجھے قبرستان کے بالکل آخری کونے میں لے گیا۔ میں نے پوچھا کہ کووڈ سے مرنے والے کتنے افراد کو یہاں روزانہ دفن کیا جاتا ہے تو انھوں نے 20 سے 25 تک کی تعداد بتائی۔ لیکن اس وقت کوئی میت وہاں موجود نہیں تھی۔ انھوں نے کہا کہ لوگ فجر (صبح) کی نماز کے بعد یا عشاء (شام) کی نماز کے بعد اپنے اہل خانہ کو دفن کرتے ہیں۔

وہاں موجود ایک شخص نے بتایا کہ صبح اس کی والدہ کا کووڈ سے وفات ہوگئی تھی۔ اس کا بھائی ہسپتال سے لاش لے کر آیا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ ان کی والدہ کووڈ سے متاثر ہونے کے 12 دن بعد چل بسیں۔

میں صرف تین شمشان گھاٹ ہی جا سکا۔ دہلی میں درجنوں شمشان گھاٹ موجود ہیں۔ کووڈ کے کیسز میں اضافے اور اس سے ہونے والی اموات کا درست اندازہ یہاں آ کر ہوتا ہے۔ حکومت کووڈ سے ہونے والی اموات کو بہت حد تک کم بتا رہی ہے جس کا اندازہ یہاں کی جلتی چتاؤں کو دیکھ کر ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp