ایف آئی اے کے سینئر افسر ڈاکٹر محمد رضوان کو چینی تحقیقاتی ٹیم کی سربراہی سے ہٹا دیا گیا

شاہد اسلم - صحافی، لاہور


ایف آئی اے کے سینیئر افسر ڈاکٹر محمد رضوان کو چینی تحقیقاتی ٹیم کی سربراہی سے ہٹا دیا گیا ہے۔

ادھر بی بی سی کے ساتھ بات کرتے ہوئے چینی تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ اور ایف آئی اے کے ڈائریکٹر پنجاب زون ون ڈاکٹر محمد رضوان نے خود تصدیق کی ہے کہ انہیں تحقیقاتی ٹیم کی سربراہی سے ہٹا دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر رضوان کے بقول ایف آئی اے میں ان کے اعلیٰ افسر کے ذریعے انہیں یہ پیغام دیا گیا ہے۔

تحقیقات سے متعلق سوال پر انھوں نے کہا کہ اپنی تحقیقات پر مبنی جو رپورٹس انھوں نے بنائی ہیں وہ عدالت میں جمع کروانے کے لیے ہیں اور وہ ان پہ کوئی رائے دینا نہیں چاہتے۔

ایک اور سوال کے جواب میں ڈاکٹر رضوان نے بتایا کہ ایک سول سرونٹ ہونے کے ناطے ایسی انتظامی تبدیلیاں ایک معمول کی بات ہے اس لیے اس پر بھی وہ اپنی کوئی رائے نہیں دیں گے۔ ڈاکٹر رضوان کا مزید کہنا تھا کہ اگر انہیں کچھ کہنا بھی ہوا اور اگر اس کی اجازت دی گئی تو وہ اپنی چین آف کمانڈ کے اندر ہی اس حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کریں گے۔

یاد رہے کہ ذرائع کے مطابق ڈاکٹر رضوان کو اچانک ان کی اس ذمہ داری سے ہٹایا گیا ہے۔ ایسا وزیر اعظم عمران خان سے جہانگیر خان ترین کے حامی 30 سے زائد پارلیمنٹیرینز کی منگل کے روز ایک طے شدہ ملاقات سے کچھ گھنٹے قبل کیا گیا ہے۔ اس ملاقات میں وزیرِ اعظم عمران خان نے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کے حامی ارکانِ پارلیمنٹ کے خدشات دور کرنے کے لیے وقت مانگا ہے تاہم انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ یہ خدشات کب تک دور کیے جائیں گے۔

ایف آئی اے ایڈمنسٹریشن اسلام آباد کے ایک اہلکار نے بتایا ہے کہ ڈاکٹر رضوان کی چینی تحقیقاتی ٹیم سے تبدیلی یا ان کی لاہور زون سے ہی تبدیلی کا کوئی نوٹیفیکیش اب تک جاری نہیں ہوا ہے۔

وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد، وزیر اعظم کے مشیر برائے داخلہ و احتساب بیرسٹر شہزاد اکبر اور ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ابوبکر خدابخش سے متعدد بار رابطہ کیا گیا لیکن فی الحال کسی نے کوئی جواب نہیں دیا ہے۔

چینی سے متعلق تحقیقات

یاد رہے کہ 2020 میں ملک میں اچانک چینی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے پیدا ہونے والے بحران کے پیچھے چھپے عوامل اور دیگر وجوہات کا پتا چلانے کے لیے وزیر اعظم عمران خان نے 16 مارچ 2020 کو ایف آئی اے کے سربراہ واجد ضیا کی سربراہی میں ایک تین رکنی کمیشن تشکیل دیا تھا۔

نو ٹیموں پر مشتمل کمیشن میں آئی ایس آئی، آئی بی، سکیورٹی اینڈ کمیشن آف پاکستان، ایف آئی اے، سٹیٹ بینک اور دیگر محکموں کے لوگوں کو شامل کیا گیا تھا جنھوں نے منتخب نو شوگر ملوں کا فرانزک آڈٹ کیا تھا۔

کمیشن نے فرانزک آڈٹ کے لیے جن نو شوگر ملز کا انتخاب کیا ان میں الائنس شوگر مل، گھوٹکی، جے ڈبلیو ڈی شوگر ملز رحیم یار خان اور گھوٹکی، المعیز شوگر مل ڈیرہ اسماعیل خان، المعیز شوگر مل میانوالی، العریبیہ شوگر مل سرگودھا، حمزہ شوگر مل رحیم یار خان، ہنزہ شوگر ملز فیصل آباد اور جھنگ شامل تھیں۔

21 مئی 2020 کو چینی کمیشن نے اپنی رپورٹ مکمل کر کے وزیر اعظم کو جمع کروائی تھی جسے بعد میں پبلک کرنے کے احکامات جاری کیے گئے تھے۔

شوگر کمیشن کی رپورٹ پبلک کرنے کے بعد وفاقی کابینہ نے مزید تفتیش کے لیے کچھ ٹی او آرز منظور کر کے ایف آئی اے کو بھیج دیے تھے جہاں ڈاکٹر محمد رضوان کی سربراہی میں دو درجن کے قریب تفتیشی افسروں پر مشتمل ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی گئی تھی۔

یاد رہے کہ ٹی او آرز کے مطابق وفاقی کابینہ نے چینی کے تین بڑے گروپس جن میں شریف خاندان کی ملکیت رمضان شوگر مل، جہانگیر خان ترین گروپ کی جے ڈی ڈبلیو اور وفاقی وزیر خسرو بختیار اور چوہدری مونس الہیٰ گروپ رحیم یار خان کی زیر ملکیت الائنس شوگر مل کے خلاف تحقیقات کرنے کا کہا تھا لیکن خسرو بختیار اور چوہدری مونس الٰہی کے رحیم یار خان گروپ کی ملکیت الائنس شوگر مل کے حوالے سے تحقیقات میں زیادہ پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔

تفتیش سے منسلک ایف آئی اے کے ایک سینئر افسر کے مطابق تحقیقات ہوتی رہیں اور نومبر سے اب تک شہباز شریف کے خاندان اور جہانگیر خان ترین کے خاندان پر اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کے الزامات سمیت متعدد ایف آئی آرز درج کی گئی ہیں۔ اسی طرح ایف آئی اے نے چینی کی صنعت میں ہونے والے غیر قانونی سٹے بازی پر بھی ایک درجن کے قریب ایف آئی آرز درج کی ہیں۔

جہانگیر خان ترین اور ان کے بیٹے علی ترین متعدد کیسز میں 3 مئی تک ضمانت قبل از گرفتاری پر ہیں۔

ذرائع کے مطابق جب جہانگیر خان ترین ایف آئی اے اپنا بیان ریکارڈ کروانے کے لیے گئے تو اس وقت ڈاکٹر رضوان بھی باقی ٹیم کی موجودگی میں نہ صرف تفتیشی آفس میں خود موجود رہے بلکہ جہانگیر خان ترین سے سوالات بھی کرتے رہے۔

ایف آئی آرز کے اندراج کے بعد جہانگیر خان ترین اور ان کے حامی ایف آئی اے کی ان تحقیقات کے خلاف بولے اور انھوں نے مطالبہ کیا کہ وزیر اعظم عمران خان کو انہیں ملنے کا وقت دینا چاہیے تاکہ وہ جہانگیر خان ترین کا اور اپنا مؤقف ان کے سامنے رکھ سکیں کیونکہ ان کے دعوے کے مطابق وزیر اعظم کو اس تفتیش کے حوالے سے صحیح حقائق نہیں بتائے جا رہے۔

چینی تحقیقاتی ٹیم کے ایک رکن نے بی بی سی کو بتایا کہ پیر کو بھی ڈاکٹر رضوان نے چینی تحقیقاتی کمیٹی کی میٹنگ کی سربراہی کی تھی اور وہ جب دو بجے کے قریب اپنے آفس سے نکلے تو ایسا کچھ نہیں لگ رہا تھا کہ انہیں تبدیل کرنے کا کوئی پیغام آیا ہے لیکن 4 بجے کے قریب ڈاکٹر رضوان کو تبدیل کرنے کی خبر میڈیا پہ نشر ہونا شروع ہوگئی۔

چینی تحقیقاتی ٹیم کے ذرائع کے مطابق ان کی آج منگل کے روز بھی چند ایک کیسز کی تفتیش کے حوالے سے ڈاکٹر رضوان سے بات ہوئی ہے لیکن چینی کے کیسز کی تفتیش پر آج انھوں نے کوئی بات نہیں کی۔

چینی تحقیقاتی ٹیم کے ذرائع کے مطابق ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل نارتھ ابوبکر خدابخش اس کیس کو سپروائز کر رہے ہیں لیکن ان کے آفس کو بھی اب تک تحریری طور پر ایسا کچھ نہیں بتایا گیا کہ ڈاکٹر رضوان کے ہٹائے جانے کے بعد اب ابوبکر خدابخش چینی تحقیقاتی ٹیم کی سربراہی کریں گے یا نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32287 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp