کورونائی ایج آف نیو پاکستان


اس بات میں کسی کو دوش نہیں دیا جا سکتا کہ کورونا کی ولادت اسی وقت ہوئی جب نیا پاکستان تبدیلی کی منازل طے کر رہا تھا کیونکہ کسی بھی قدرتی آفت کے اوقات میں تقدیم و تاخیر کسی کے بس کی بات نہیں لیکن انسان کے ذمہ بس ایک ہی کام لگایا گیا ہے اور وہ کوشش۔ اس ضمن میں قرآنی فلسفہ بھی یہی ہے کہ کوشش کرو اور نتیجہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دو۔ نبی کریم ﷺ کو خود اسی بات کی تلقین کی گئی کہ اس غم میں اپنی جان مت کھپائیے کہ لوگ ایمان کیوں نہیں لا رہے کیونکہ آپ کے ذمہ صرف تبلیغ ہے اور آپ سے سوال بھی اسی بابت کیا جائے نہ کہ اس بابت کہ لوگ ایمان کیوں نہیں لائے۔

لہٰذا نئے پاکستان سے اس بابت تو سوال نہیں کیا جا سکتا کہ کورونا آپ ہی کے دور میں کیوں آیا لیکن یہ سوال ضرور ہو گا کہ جب پاکستان میں کورونا کا وجود تک نہیں تھا اور آس پاس کے ملک اس وبا کی زد میں آئے ہوئے تھے تو سفری پابندیاں عائد کر کے اس وبا کے آگے بند باندھنے کا اہتمام کیوں نہیں کیا گیا؟ چین اور پڑوس کے ملک سے زائرین کو آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت ایک وزیر کی سفارش پر کس نے دی؟ کہا گیا کہ وہ ملکی شہری تھے تو کیا انہیں وہیں بے سہارا چھوڑ دیتے؟

درست کہا لیکن سوال یہ ہے کہ اپنے شہریوں کی بہتری کیا اس میں نہ تھی کہ انہیں جانے ہی نہ دیا جاتا۔ ریاست تو ماں کی طرح ہوتی ہے۔ اگر بچہ نادان ہو اور کسی نقصان دہ چیز کا مطالبہ کر بیٹھے تو ماں کی ممتا کا تقاضا یہی ہے کہ محض نادان بچے کی ضد کے آگے ہار مان لی جائے یا ممتا کی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے اسے کسی بھی نقصان دہ چیز سے دور رکھا جائے؟

چلیں مان لیا کہ آپ ہی عقل کل ٹھہرے اور ان کو وطن واپس لانا بھی ضروری تھا تو کیا اس صورت میں یہ ضروری نہ تھا سرحد پر ہی انہیں قرنطینہ میں رکھا جاتا جیسا کہ چین نے کیا بلکہ روس نے تو اس پر سختی سے عمل کر کے دنیا کے سامنے مثال قائم کر دی اور نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ لیکن آپ نے انہیں قرنطینہ میں رکھنے کی بجائے الٹا انہیں پورے ملک میں پھیلا دیا۔

جب نالائقیوں کی وجہ سے یہ وبا پورے ملک میں پھیل گئی تو ایک عرصہ لاک ڈاؤن کرنے سے کیوں ہچکچاتے رہے؟ بالآخر فیصلہ بھی کیا تو پہلا مرحلہ کچھ اس طرح کا تھا کہ آپ نہ تو ”یہ“ کر سکتے ہیں اور نہ ہی ”وہ“ کر سکتے ہیں۔ جب کام نہ بنا تو دوسرا مرحلہ کچھ اس طرح وقوع پذیر ہوا کہ آپ ”یہ“ تو کر سکتے ہیں لیکن ”وہ“ نہیں کر سکتے۔ نئے پاکستان میں لاک ڈاؤن کا تیسرا ورژن کچھ اس طرح کا تھا کہ آپ ”وہ“ تو کر سکتے ہیں لیکن ”یہ“ نہیں کر سکتے۔

جب اس سے بھی کچھ نہ بنا تو ایک ورژن سامنے آیا جس کے مطابق ”یہ وہ“ تو کیا جا سکتا تھا کہ ”وہ یہ“ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس کے بعد یہ سلسلہ جہاں سے شروع ہوا تھا وہیں ختم ہو گیا یعنی جو کرنا خود ہی کرو ، ہم اس معاملے میں کچھ نہیں کر سکتے۔ پھر باہر سے اس ضمن میں جو امداد ملی ، اس پر بھی دنیا سے سوالات کی بھرمار ہو گئی اور ہم جیسے لوگ سوچتے ہی رہ گئے ، ایک سرٹیفائیڈ صادق اور امین کے دور میں آیا یہ کیسے ممکن ہے؟

جب ساری دنیا ویکسین کی درآمد کو یقینی بنانے سے سلسلے میں اقدامات کر رہی تھی تو ہم ہچکچاتے رہے اور پانی سر سے اٹھنے لگا تو خود میدان عمل میں آنے کی بجائے پرائیویٹ کمپنیوں کو اجازت دے دی اور انہیں قیمتوں میں بھی من مانی کرنے کا اختیار دے دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک ہی طرح کی ویکسین کی قیمت میں پڑوسی ملک اور پاکستان میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ جو ویکسین بھیک میں ملی ، اسے ”اعلیٰ“ لوگوں کی نذر کر دیا گیا اور عوام کو ہرڈ امیونٹی کے حوالے کر دیا گیا۔

ابھی یہ سلسلہ جاری تھا کہ وہ خطرناک لہر سر پر آن پہنچی جس کے متعلق قبل از وقت دنیا چیخ رہی تھی کہ جب یہ لہر آئے گی تو دنیا پہلی لہروں کو بھول جائے گی۔ انڈیا میں صورتحال انتہائی خطرناک ہے اور ایسے مناظر سامنے آ رہے ہیں کہ دل دہل جاتا ہے۔ اگر پاکستان اور انڈیا کی کورونا کے حوالے ٹائمنگ کو دیکھا جائے تو ہم انڈیا سے ہر لہر اور اس کے اتار چڑھاؤ میں ڈیڑھ دو مہینے پیچھے ہیں۔ اس ضمن میں پاکستان میں اگلے ایک دو مہینے بہت اہم ہیں اور حکومت سے گزارش ہے کہ اس مدت کو پہلے کی طرح ”یہ وہ“ اور ”چونکہ تو چونکہ“ کی نذر نہ کیا جائے ورنہ یہاں بھی، اللہ نہ کرے حالات بگڑ سکتے ہیں اور اس صورت میں جبکہ آکسیجن کم یاب اور ہسپتال کم پڑ گئے تو دونوں ممالک اپنی عوام کو وسائل دفاع، جنگ اور ہتھیاروں کی خریداری میں جھونکنے کی فضیلت ہی بیان کر سکیں گے۔

اس بار لاک ڈاؤن میں فوج کی مدد بھی حاصل کر لی گئی ہے لیکن عملاً صورتحال پھر بھی وہی ہے کہ دو دن کاروبار اور ٹریفک روک لی جاتی ہے لیکن اگلے دن دو دنوں کا رکا ہوا رش پوری کسر نکال لیتا ہے۔ سمجھ نہیں آتی کہ مقصود بھیڑ کو روکنا تھا یا بڑھانا۔ سفر کا اتفاق ہوا تو یہ بات معلوم ہوئی کہ پبلک ٹرانسپورٹ بھی شہروں کے مابین بند ہے اور وہ بھی کلی طور پر نہیں اور یہاں بھی لوگوں نے ٹرپل کرائے پر کاریں چلا رکھی ہیں جبکہ شہروں کے اندر کی ٹرانسپورٹ مکمل کھلی ہے۔

دوسرے شہروں سے آنے والی ٹریفک کو شہر کے اندر داخل نہیں ہونے دیا جا رہا اور لوگ شہر کی حدود میں اتر کر ، آگے لوکل ٹرانسپورٹ میں بیٹھ کر لاک ڈاؤن کی ایسی کی تیسی کر رہے ہیں۔ لیکن شاید ہمارے حکمران، سلمان رشدی کی کتاب کی طرح اس کا الزام بھی نواز شریف کے سر تھوپ دیں گے اور یقین کرنے کو ایک پوری نسل دستیاب ہے ہی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments