انڈیا میں کووڈ: وہ پیغامات جنھوں نے زندگی اور موت کا فیصلہ کیا
جیورجینا رینارڈ - بی بی سی نیوز
اس وقت جب کورونا وائرس کی دوسری لہر انڈیا میں تباہی پھیلا رہی ہے اور روزانہ 350،000 سے زیادہ مریضوں کی اطلاعات آ رہی ہیں، بیماروں کے اہل خانہ بڑی بیتابی سے سوشل میڈیا پر مدد تلاش کر رہے ہیں۔
صبح سے رات تک وہ انسٹاگرام اکاؤنٹس دیکھتے رہتے ہیں، واٹس ایپ گروپس پر پیغامات بھیجتے ہیں اور اپنی فون بکس کھنگالتے ہیں۔ وہ ہسپتالوں کے بستروں، آکسیجن، کووڈ کی دوائی ریمڈیسیویر اور پلازما کی تلاش کر رہے ہوتے ہیں۔
یہ سب کچھ پریشان کن اور دل ہلا دینے والا ہے۔ واٹس ایپ کا پیغام گردش کرنے لگتا ہے: ’دو آئی سی یو بیڈ خالی ہیں۔‘ چند منٹ بعد، وہ بستر بھر گئے، جو وہاں پہلے پہنچے ان کو وہ بیڈ مل گئے۔ ایک اور پیغام: ’فوری طور پر آکسیجن کونسینٹریٹر کی ضرورت ہے۔ براہ مہربانی مدد کیجیے۔‘
یہ بھی پڑھیئے
کیا انڈیا کے ’کووڈ علاج‘ کے دعووں میں کوئی صداقت ہے؟
انڈیا کورونا کی خطرناک دوسری لہر کو روکنے میں ناکام کیوں رہا؟
انڈیا: کووڈ 19 کے لیے ویکسین بنانے والے انسٹیٹیوٹ میں آگ لگنے سے پانچ ہلاک
جب صحت کا نظام دباؤ میں آتا ہے، تو برادری، اپنی مدد آپ اور قسمت ہی ہے جو زندگی اور موت کے درمیان کھڑی ہو جاتی ہے۔
لیکن طلب رسد سے کہیں زیادہ ہے اور بیماروں کے پاس زیادہ وقت کی آسائش نہیں ہے۔ جب میں نے جمعہ کو یہ مضمون لکھنا شروع کیا تو، میں نے اتر پردیش میں ایک شخص سے بات کی جو اپنے 30 سالہ کزن کے لیے واٹس ایپ پر آکسیجن تلاش کر رہا تھا۔ اتوار کو جب میں نے یہ مضمون مکمل کیا، تب تک وہ شخص ہلاک ہو چکا تھا۔
دیگر افراد اپنے پیاروں کے لیے زندگی بچانے والا علاج ڈھونڈنے کی جدوجہد میں تھک چکے ہیں اور پریشان ہیں۔
اوانی سنگھ کہتی ہیں کہ ’اس وقت انڈیا میں صبح کے 6 بجے ہیں اور یہی وہ وقت ہے جب ہم کالز کرنا شروع کرتے ہیں۔ ہمیں پتہ کرتے ہیں کہ آج ہمارے نانا کو کس چیز کی ضرورت ہے ۔ آکسیجن یا انجیکشن ۔ اور ہم واٹس ایپ پر شروع ہوتے ہیں جس کو بھی ہم جانتے ہیں فون کر دیتے ہیں۔‘
ان کے 94 سالہ نانا دہلی میں کووڈ۔19 سے شدید بیمار ہیں۔ امریکہ میں واقع اپنے گھر سے اوانی اور ان کی والدہ امریتا بتاتی ہیں کہ ان کے گھر والوں، دوستوں، رشتہ داروں اور پیشہ ورانہ رابطوں کا ایک جال ہے، جس نے ان کی مدد کی جب ان کے والد بیمار ہوئے اور پھر ان کی حالت خراب تیزی سے خراب ہوتی چلی گئی۔
اوانی کہتی ہیں کہ ’ہم ہر اُس شخص سے رابطہ کر رہے تھے جسے ہم جانتے ہیں۔ میں سوشل میڈیا پر دیکھ رہی تھی، میں ایسے صفحات کے متعلق جانتی ہوں جن میں کہا گیا ہوتا ہے کہ ’فلاں فلاں نے آئی سی یو بیڈز کی تصدیق کی ہے‘ یا ’اس جگہ پر آکسیجن موجود ہے‘۔ ہم نے مل کر 200 کے قریب مقامات پر کوشش کی۔‘
آخر کار سکول کے ایک دوست کے ذریعہ انھیں ایک ہسپتال ملا جس میں بستر تھے لیکن ساتھ ہی یہ بھی پتہ چلا کہ وہاں آکسیجن نہیں ہے۔ اب تک اوانی کے نانا بے ہوش ہو چکے تھے۔ امریتا تفصیل بتاتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’پھر میں نے فیس بک پر ایک درخواست پوسٹ کی اور ایک دوست نے آکسیجن والے ایک ایمرجنسی کے کمرے کا بتایا۔ اس دوست کی وجہ سے اس رات میرے والد کی جان بچ گئی۔‘
جب ہم نے ہفتے کو بات کی تو ان کی حالت پہلے سے بہتر تھی لیکن اب اوانی اور امریتا کے کا کام ریمیڈیسویر انجیکشن کی تلاش کرنا ہے۔ وہ کال کرتی ہیں اور دہلی میں امریتا کے بھائی ایک دن میں سو سو میل کی مسافت طے کر کے مختلف مقامات پر جاتے ہیں۔
اوانی کہتی ہیں کہ ’میرے نانا میرے سب سے اچھے دوست ہیں۔ میں انسٹاگرام کے صفحات چلانے والے لوگوں کا اتنا شکریہ ہی ادا نہیں کر سکتی جو کچھ وہ کر رہے ہیں۔‘
لیکن معلومات جلدی سے پرانی ہو جاتی ہیں اور وہ جعلی معلومات کے متعلق پریشان بھی ہیں۔
’ہمیں پتہ چلا کہ ایک فارمیسی کے پاس وہ (انجیکشن) ہیں، لیکن جب تک میرا کزن وہاں پہنچا تو وہاں کوئی نہیں بچا تھا۔ یہ صبح 8 بج کر 30 منٹ پر کھلی تھی اور لوگ آدھی رات سے ہی وہاں قطار میں لگے ہوئے تھے۔ صرف پہلے آنے والے 100 افراد کو انجیکشن مل سکے۔‘
امریتا بتاتی ہیں کہ ’اب وہ ادویات بلیک مارکیٹ میں بیچ رہے ہیں۔ اس کی قیمت 12 سو روپے ہونی چاہیے اور وہ اسے ایک لاکھ میں فروخت کر رہے ہیں۔ اور اس بات کی بھی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ وہ اصلی ہیں۔‘
اور کسی ایسے نظام کی طرح جس کا انحصار ذاتی رابطوں پر ہوتا ہے، ہر ایک کو یہ سب آسانی سے نہیں ملتا۔ پیسہ، خاندانی رابطے اور اعلی معاشرتی حیثیت سے کامیابی کا زیادہ سے زیادہ موقع ملتا ہے، یہاں تک کہ انٹرنیٹ اور موبائل فون تک رسائی بھی۔
اس افراتفری میں ایسے افراد بھی ہیں جو کچھ ترتیب لانے اور معلومات کو مرکزی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ کمیونٹی کے گروپ قائم کر رہے ہیں اور رابطوں کو دوسروں تک پہنچانے کے لیے انسٹاگرام اکاؤنٹس کا استعمال کر رہے ہیں۔
20 سالہ ارپیتا چوہدری اور دہلی میں ان کے کالج کے دیگر طالب علموں کا ایک گروہ معلومات کا ایک ڈیٹا بیس چلا رہا ہے جسے وہ خود ہی اکٹھا کرتے ہیں اور خود ہی اس کی تصدیق بھی کرتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’یہ ہر گھنٹے اور ہر منٹ میں بدلتا رہتا ہے۔ پانچ منٹ پہلے مجھے بتایا گیا تھا کہ ایک ہسپتال ہے جس میں 10 بستر دستیاب ہیں، لیکن جب میں نے فون کیا تو پتہ چلا کہ وہاں کوئی بستر دستیاب نہیں ہیں۔‘
اپنے ساتھیوں کے ساتھ وہ سوشل میڈیا پر دیے گئے نمبروں پر کال کرتی ہے جہاں آکسیجن، بیڈز، پلازما یا ادوایات کی پیشکش کی جاتی ہے اور اس کے بعد وہ تصدیق شدہ معلومات آن لائن شائع کرتی ہے۔ اس کے بعد وہ کووڈ مریضوں کے لواحقین کی مدد کے لیے درخواستیں ان تک پہنچاتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’انتہائی بنیادی سطح پر مدد کے لیے کم از کم یہ کام تو ہم کر ہی سکتے ہیں۔‘
جمعہ کو آدتیا گپتا نے مجھے بتایا کہ وہ شمالی ریاست اترپردیش کے ایک قصبے گورکھپور میں اپنے انتہائی بیمار کزن ساربھ گپتا کے لیے آکسیجن کونسٹریٹر ڈھونڈ رہے ہیں۔ اس ریاست میں کووڈ کے مریض تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔
تیس سالہ انجینئر سوربھ اپنے اہل خانہ کی شان تھے۔ ان کے والد ایک چھوٹی سی دکان چلاتے تھے اور انھوں نے ان کی تعلیم کے لیے بچا بچا کے پیسے اکٹھے کیے تھے۔
آدتیا نے وضاحت کی کہ ’ہم نے گورکھپور کے تقریباً تمام ہسپتالوں کا دورہ کیا۔ بڑے ہسپتال بھرے ہوئے تھے اور باقیوں نے ہمیں بتایا: ’اگر آپ خود آکسیجن کا بندوبست کر سکتے ہیں تو ہم مریض کو لے سکتے ہیں۔‘
واٹس ایپ کے ذریعے خاندان نے ایک آکسیجن سلینڈر حاصل کیا، لیکن اب انھیں اسے چلانے کے لیے ایک کونسینٹریٹر کی ضرورت تھی۔ وہ جمعے کو نہیں مل رہا تھا لیکن ایک سپلائر نے انھیں یقین دہانی کرائی کہ انھیں ایک مل سکتا ہے۔
لیکن جس آلے کی اشد ضرورت تھی وہ کبھی نہ آیا اور ساربھ کو کبھی ہسپتال میں داخل نہیں کرایا جا سکا۔
اتوار کو آدتیا نے بتایا کہ ’وہ کل صبح ہم سے جدا ہو گیا، وہ اپنے والدین کے سامنے جان کی بازی ہار گیا۔‘
- انڈیا میں الیکشن کے پہلے مرحلے کا آغاز جہاں کروڑپتی امیدوار ووٹ کے لیے پیسے کے علاوہ سونا اور چاندی بھی استعمال کرتے رہے - 19/04/2024
- سڈنی شاپنگ مال حملہ: آسٹریلیا میں ’بہادری کا مظاہرہ‘ کرنے والے زخمی پاکستانی سکیورٹی گارڈ کو شہریت دینے پر غور - 19/04/2024
- مرنے سے قبل چند افراد کو اپنے وہ پیارے کیوں دکھائی دیتے ہیں جو پہلے ہی مر چکے ہوتے ہیں؟ قریب المرگ افراد کے تجربات - 18/04/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).