انڈیا میں کورونا کی دوسری لہر، نقشوں اور چارٹس میں

ویژوئل اینڈ ڈیٹا جرنلزم ٹیم - بی بی سی نیوز


Patient outside a hospital in India

انڈیا میں کورونا وائرس کی دوسری لہر پہلے سے کہیں زیادہ مہلک اور خطرناک ثابت ہو رہی ہے۔ ملک میں روزانہ سامنے آنے والے نئے مریضوں کی تعداد جہاں تین لاکھ سے بھی زیادہ ہو چکی ہے وہیں ہلاکتوں میں اضافے کی وجہ سے شمشان گھاٹوں میں جگہ باقی نہیں رہی اور ہسپتالوں میں آکسیجن اور ادویات کی بھی کمی کی شکایات سامنے آ رہی ہیں۔

نیچے دی گئی تصاویر اور گرافس کی مدد سے جانیے کہ انڈیا میں صورتحال ہے کیا اور حکام اس سلسلے میں کیا کر رہے ہیں۔

نئے مریضوں اور ہلاکتوں کی ریکارڈ تعداد

انڈیا میں کووڈ وائرس کی نئی شکل سامنے آنے کے بعد مریضوں کی تعداد تیزی سے بڑھی ہے۔

تقریباً ایک ہفتے سے ملک میں روزانہ تین لاکھ سے زیادہ نئے مریض سامنے آ رہے ہیں جبکہ ہلاکتوں کی تعداد بھی ڈھائی ہزار روزانہ سے بڑھ گئی ہے۔

انڈیا

یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ملک میں کووڈ کے مریضوں اور اس وبا سے ہلاک ہونے والے افراد کی اصل تعداد کہیں زیادہ ہے کیونکہ جہاں لوگ ٹیسٹ کروانے سے گریزاں ہیں یا پھر انھیں اس تک رسائی نہیں وہیں دیہات میں ہونے والی ہلاکتوں کا بھی مناسب حساب نہیں رکھا جا رہا۔

دارالحکومت نئی دہلی میں ڈاکٹروں کے مطابق انھوں نے لوگوں کو ہسپتالوں سے باہر گلیوں میں مرتے دیکھا۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا کورونا کی خطرناک دوسری لہر کو روکنے میں ناکام کیوں رہا؟

کیا خام مال کی کمی نے انڈیا کی ویکسین کی پیداوار کو متاثر کیا؟

وہ تصاویر جو انڈیا میں کورونا بحران کی شدت کو بیان کرتی ہیں

انڈیا میں اب تک کووڈ 19 سے متاثرہ افراد کی مصدقہ تعداد ایک کروڑ 70 لاکھ کے لگ بھگ ہے جبکہ اس وبا سے ایک لاکھ 92 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ وائرولوجسٹس کا کہنا ہے کہ ملک میں جاری دوسری لہر میں نئے مریضوں کی تعداد آئندہ دو سے تین ہفتے تک مزید بڑھ سکتی ہے۔

انتہائی نگہداشت کی سہولیات والے بستروں کی کمی

ملک کے انتہائی نگہداشت کے وارڈوں میں بستر ختم ہو چکے ہیں، بہت سارے مریضوں کے اہل خانہ اپنے پیارے کے لیے بستر تلاش کرنے کے لیے کئی کئی میل کا سفر کرنے پر مجبور ہیں۔

دو کروڑ آبادی والے شہر دہلی کے ہسپتال بھرے ہوئے ہیں اور وہ نئے مریضوں کو گیٹ سے ہی واپس بھیج رہے ہیں۔

طبی مراکز کے باہر گلیاں شدید بیمار افراد سے بھری پڑی ہیں، ان کے عزیز سٹریچر اور آکسیجن کی فراہمی کا بندوبست کرنے کی جدوجہد کے ساتھ ساتھ ہسپتال کے حکام سے مریض کو اندر لیجانے کی التجائیں کرتے نظر آتے ہیں۔

ایک شہری نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ ’ہم بستر کی تلاش میں تین سے خوار ہو رہے ہیں‘ قریب ہی ان کی اہلیہ سڑک پر نڈھال حالت میں بیٹھی تھیں۔

پیر کے روز حکومت نے اعلان کیا کہ شہریوں کے لیے فوجی طبی انفراسٹرکچر مہیا کیا جائے گا اور ریٹائرڈ میڈیکل ملٹری اہلکار صحت کی سہولیات کی فراہمی میں مدد فراہم کریں گے۔

آکسیجن کی کمی

انڈیا بھر کے ہسپتالوں میں آکسیجن کی قلت ہے اور مریضوں کے علاج کے لیے دیگر طبی سامان کی بھی اشد ضرورت ہے۔ کچھ ہسپتالوں نے ایےس بینر آویزاں کر دیے ہیں جن پر لکھا ہے کہ ہمارے پاس آکسیجن یا طبی سامان ختم ہو چکا ہے۔

انڈیا

صحت کے مسائل سے نمٹنے کے لیے عالمی اور کاروباری اداروں کے ساتھ مل کر کام کرنے والی ایک تنظیم، پاتھ، جو آکسیجن کا ٹریک بھی رکھتی ہے، کے مطابق اس وقت دنیا بھر کے کم آمدن، متوسط آمدن اور نسبتاً بہتر آمدن والے ممالک میں سے انڈیا میں آکسیجن کی طلب سب سے زیادہ ہے۔

پاتھ کے مطابق آکسیجن کی طلب میں ہر روز چھ سے آٹھ فیصد اضافہ ہو رہا ہے۔

انڈیا

دہلی کے منیپال ہسپتال کے کوڈ وارڈ میں کام کرنے والے ڈاکٹر ہرجیت سنگھ بھٹی نے سڑکوں پر سانس لینے کی جدوجہد کرنے والے لوگوں کی حالت کچھ ایسے بیان کی جیسے ’پانی سے باہر مچھلی تڑپ‘ رہی ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ ’لوگوں کو آکسیجن نہیں مل رہی اور وہ سڑکوں پر دم توڑ رہے ہیں۔‘

عام طور پر انڈیا کے ہسپتالوں اور صحت کے مراکز میں صرف 15 فیصد آکسیجن استعمال ہوتی ہے اور باقی صنعتوں کے لیے بچ جاتی ہے۔

صحت کے ایک اعلی عہدیدار راجیش بھوشن کے مطابق انڈیا میں کورونا کی دوسری لہر کے دوران، ملک کی 90 فیصد آکسیجن سپلائی، جو روزانہ کی بنیاد پر 7500 میٹرک ٹن بنتی ہے، کو طبی ضرورتوں کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

ضرورت والے مقامات پر سپلائی پہنچانے کے لیے حکومت نے اب ایک ’آکسیجن ایکسپریس‘ شروع کردی ہے،اور ٹرینیں، آکسیجن سے بھرے ٹینکر ان علاقوں میں پہنچا رہی ہیں۔

انڈیا کی فضائیہ بھی اس کام میں حصہ لے رہی ہے۔

انڈیا

حکومت کا کہنا ہے کہ وہ مسلح افواج کے ذخائر سے آکسیجن کی فراہمی جاری کرنے جا رہی ہے اور سپلائی کو بڑھانے کے لیے ملک بھر کے 500 سے زائد آکسیجن پلانٹس کے منصوبوں کی منظوری بھی دے دی گئی ہے۔

ٹرینوں کے ڈبے میڈیکل وارڈ بن چکے ہیں

بستروں کی کمی سے نمٹنے کے لیے انڈیا کے حکام ٹرینوں کا استعمال کر رہے ہیں جنھیں قرنطینہ کے وارڈوں میں تبدیل کردیا گیا ہے۔

انڈین ریلوے کے تقریباً 4000 کوچز کو، ہلکی علامات والے کووڈ مریضوں کے علاج کے لیے واپس کام پر بلایا گیا ہے۔

انڈیا

وزیر اعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کے ترجمان، گوپال اگروال نے بی بی سی کو بتایا کہ 64000 بستروں پر مشتمل ان سہولیات کو گذشتہ سال شروع کیا گیا تھا تاہم اس وقت سخت لاک ڈاؤن کے باعث کورونا کے متاثرین میں کمی دیکھی گئی اور ان کی ضرورت نہیں پیش آئی تھی۔

ان ٹرینوں کو شہروں اور قصبوں میں ان سٹیشنوں تک پہنچایا جاسکتا ہے جہاں ضرورت ہو۔ ان میں مریضوں کے لئے بستر، باتھ روم ، طبی سامان کے لیے پاور پوائنٹ اور آکسیجن کی فراہمی وغیرہ شامل ہے۔

https://twitter.com/PiyushGoyal/status/1386583448362504199

انڈین ریلوے کے پاس پہلے ہی ٹرینوں پر ہسپتال چلانے کا تجربہ ہے۔ 1991 میں شروع کی گئی لائف لائن ایکسپریس، ملک بھر میں سفر کرتی ہے جو مریضوں کو تشخیص، طبی اور سرجری کی سہولیات فراہم کرتی ہے۔

کھیلوں کے ہال اور سٹیڈیم ہسپتال بن چکے ہیں

ہسپتالوں پر دباؤ کم کرنے کے لیے سپورٹس ہال، سٹیڈیم اور آشرموں کو عارضی طبی مراکز میں تبدیل کردیا گیا ہے۔

بنگلور کے کورامنگالا انڈور سٹیڈیم، گوہاٹی میں اندرا گاندھی ایتھلیٹک سٹیڈیم جیسے مقامات اور دہلی کے رادھا سوامی ستسنگ بیاس کیمپس کو قرنطینہ کے مراکز میں تبدیل کردیا گیا ہے۔

ان مقامات ہر استعمال ہونے والے کچھ بستر گتے سے بنے ہیں۔

انڈیا

پچھلے سال متاثرین میں اضافے کے دوران، رادھا سوامی ستسانگ بیاس تنظیم سے وابستہ دہلی کیمپس کو10 ہزار بستروں والے سردار پٹیل کوویڈ کیئر سنٹر میں تبدیل کیا گیا تھا جس میں ایک ہزار بسترں پر آکسیجن کی سہولت میسر تھی۔

فروری میں بند ہونے سے پہلے یہاں 11،000 افراد کا علاج کیا گیا۔

اس مرتبہ فٹ بال کے 20 فیلڈز جتنے بڑے اس مرکز کو تقریباً 2500 بستروں کے ساتھ شروع کرنے کی توقع کی جا رہی ہے اور بعد میں اسے 5000 تک بڑھایا جا سکے گا۔

آریان پیپر، جو گتے کے بستروں تیار کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ہنگامی حالات میں استعمال ہونے والے بستر گتے کی بہترین چادروں سے بنے ہیں۔

موجودہ بحران میں یہ خاص طور پر کارآمد ہیں کیونکہ یہ سستے، قابل تجدید، نقل و حمل میں آسان اور جلدی پیک ہوسکتے ہیں اور انھیں پانچ منٹ میں دوبارہ جوڑ کے قابلِ استعمال بنایا جا سکتا ہے۔

قبرستان میں بڑے پیمانے پر تدفین کا اہتمام کیا جارہا ہے

کورونا وائرس سے ہونے والی لاتعداد اموات کے باعث قبرستانوں اور شمشان گھاٹوں پر بہت رش ہے اور بہت سے لوگ اجتماعی تدفین اور آخری رسومات کے لیے عارضی سہولیات کا رخ کرنے پر مجبور ہیں۔

لاشوں کی تعداد سے نمٹنے کے لیے دہلی کی کم از کم ایک سہولت نے اپنے کار پارک میں مُردوں کے جلانے کی سہولت بنائی ہے۔

Unlit funeral pyres in Delhi, India

Funeral pyres in Delhi, India

بتایا جا رہا ہے کہ متعدد شہروں میں اجتماعی طور پر تدفین کی جارہی ہے اور ان مقامات کا عملہ دن رات کام کر رہا ہے۔

شمال مشرقی دہلی میں شمشان چلانے والی ایک غیر منافع بخش میڈیکل سروس کے سربراہ جتیندر سنگھ شونٹی، لاشوں کی تعداد سے نمٹنے کے لیے ایک کار پارک کا استعمال کررہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ سب دیکھنا بہت مشکل ہے۔‘

متعدد مقامات پر چتا جلانے کے لیے لکڑی کم پڑنے کی اطلاعات ہیں۔

Worker at a crematorium in Delhi

دہلی کے ایک شمشان میں مدد فراہم کرنے والے جینت ملہوترا نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے ایسی خوفناک صورتحال پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔

’میں یقین نہیں کرسکتا کہ ہم انڈیا کے دارالحکومت میں ہیں۔ لوگوں کو آکسیجن نہیں مل رہی ہے اور وہ جانوروں کی طرح مر رہے ہیں۔‘

اس رپورٹ کی تیاری میں سی راجرز، ڈومینک بیلی، انا لوسیا گونزالیز، شاداب ناظمی اور بیکی ڈیل کی مدد شامل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp