پاکستان بمقابلہ زمبابوے۔ کچا چٹھا


پاک زمبابوے ٹی ٹونٹی سیریز اختتام کو پہنچی۔ یار لوگوں نے بہت دھول دھپا کیا۔ دوسرے میچ کے بعد یہ سب بنتا بھی تھا۔ ہم نے بھی یاروں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ٹیم کے ذرا بنیادی مسائل کی کھوج کی تو کئی خامیاں نظر آئیں۔ مسائل، وسائل اور ممکنہ حل درج ذیل رہے:

ماہر نفسیات کی ضرورت:

ہمارے کھلاڑی عمومی طور پر ناخواندہ ہیں۔ ڈومیسٹک اور انٹرنیشنل کھیل کا پریشر الگ الگ ہوتا ہے۔ اس لیے نفسیاتی ماہرین کا ٹیم کے ساتھ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس ضمن میں ایک کامیاب مثال بھی موجود ہے۔ 13۔ 2012ء کی پاک بھارت سیریز میں پنجاب یونیورسٹی کے مشہور ماہر نفسیات پروفیسر مقبول بابری ڈریسنگ روم کا حصہ تھے۔ اس سیریز میں جنید خان اور ناصر جمشید جیسے نوآموز کھلاڑیوں کی بہترین کارکردگی نے روایتی حریف کو آؤٹ کلاس کر دیا تھا۔ اس کامیابی میں کہیں نہ کہیں مقبول بابری کی کونسلنگ کا بھی ضرور ہاتھ تھا۔

سو، ماہرین نفسیات کے وقتاً فوقتاً لیکچرز اور ڈومیسٹک اور انٹرنیشنل سطح پر کھلاڑیوں کی نفسیاتی گرومنگ کے لیے سرٹیفائڈ سائیکالوجسٹ کی موجودگی بے حد ضروری ہے۔ تازہ اطلاعات کے مطابق پی سی بی نیشنل اکیڈمی کے لیے اسپورٹس سائیکالوجسٹ کی خدمات حاصل کر رہا ہے مگر کیا ہی اچھا ہو اگر ہر ٹیم کے کوچنگ اسٹاف میں سائیکالوجسٹ کی موجودگی لازم قرار دے دی جائے۔

اسکلز پر کام کی ضرورت:

جنوبی افریقہ کی تیز پچوں پر جیت یقیناً ایک حوصلہ افزاء بات ہے۔ لیکن زمبابوے کے سست اور غیر متوقع باؤنس والے میدانوں میں بیٹنگ کی خامیاں کھل کر عیاں ہو گئیں۔ بھارتی بھونیشور کمار ہوں یا پھر زمبابوین بلیسنگ مزاربانی، میڈیم پیسر کے خلاف کھلاڑی پھنس جاتے ہیں۔ لیفٹ آرم آرتھوڈوکس اور لیگ اسپنر کو بھی اچھا نہیں کھیلتے۔ بیٹسمینوں کو اپنی اسکلز بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ کریز کا زیادہ استعمال نظر نہیں آیا۔ مختصر دورانیے کے میچوں میں باؤلرز کی لائن اور لینتھ بگاڑنے کا اس سے اچھا حربہ کوئی اور نہیں ہو سکتا ۔

سست وکٹوں پر گیند کو زور سے کھینچ کر مارنے کی بے جا کوشش بھی کئی کھلاڑی کرتے نظر آئے۔ اس صورت حال کے حل کے لیے لیٹ کھیلنے کی پریکٹس کرنی چاہیے۔ بابر کی خوبی یہی ہے۔ گو اس سیریز میں وہ بھی بجھے بجھے نظر آئے۔ نیز ٹی ٹونٹی کے لیے سویپ، ریورس سوئپ، ریمپ، دل سکوپ وغیرہ کی بطور اسکورنگ شارٹ مشق بھی کرنی چاہیے۔ وکٹ چاہے کیسی بھی ہو، باؤلر یا کیپر کے سر پر سے کھیلنا ہمیشہ ہی اسکور بٹورنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

باؤلنگ میں وکٹ ٹیکرز کی کمی:

وہ دن گئے جب ہمارے باؤلرز مخالف کو آسانی سے آل آؤٹ کر دیا کرتے تھے۔ اب جینوئن فاسٹ باؤلرز ہیں تو ان کے پاس سوئنگ نہیں۔ جبھی آغاز کے اوورز میں کوئی وکٹ نہیں مل پاتی۔ کوئی حقیقی اسپنر سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ جو موجود ہیں ان کا گیند پر کنٹرول نہ ہونے کے برابر ہے۔

یارکرز کی درستی میں کمی بیشی بھی دیکھنے میں آئی۔ باؤلرز بلے بازوں کا دماغ پڑھنے اور ان کی تکنیکی خامیوں سے فائدہ اٹھانے میں بھی کامیاب نظر نہیں آتے۔ باؤلنگ ہمیشہ سے ہمارا پلس پوائنٹ رہی ہے۔ ورلڈ کپ سے پہلے باؤلنگ کوچ کو ان مسائل کے حل پر توجہ دینی چاہیے۔

درست کمبی نیشن نہ ہونا:

پانچ اوپنرز کی موجودگی انتظامیہ کی نااہلی اور مڈل آرڈر کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ بھلے ہی ٹی ٹونٹی مار دھاڑ سے بھر پور فارمیٹ ہے۔ مگر سات ایک جیسے کھلاڑی آپ کو کبھی نہیں جتا سکتے۔ اوپنر، مڈل آرڈر، لوئر مڈل آرڈر اور ٹیل کا اپنا اپنا کردار ہے۔ متبادل ایک آدھ میچ میں ہی چل سکتے ہیں۔ ہر فیلڈ کے لیے اسپیشلسٹ ہی مسئلے کا مستقل حل ہیں۔

جینوئن آل راؤنڈرز اور پنچ ہٹرز کی عدم موجودگی بھی پوری سیریز کے دوران کھلتی رہی۔ چند کھلاڑی محض اس خوش فہمی پر ٹیم کا حصہ ہیں کہ وہ بہ وقت ضرورت بیٹنگ بھی کر لیں گے۔ اگرچہ بے شمار میچوں میں موقع ملنے کے بعد بھی یہ خوش فہمی خواہش کی حدود سے آگے نہیں بڑھی۔

مستقبل کے لیے چند آزمودہ کھلاڑی:

مختصر کرکٹ میں آج کل محض کچھ اوورز اور چند شارٹس میں کھیل بدل جاتا ہے۔ آل راؤنڈر یا پنچ ہٹر کی بات کی جائے تو اعظم خان کا نام ذہن میں آتا ہے۔ فٹنس پر یقیناً کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے لیکن اگر ایک کھلاڑی بیس اوورز وکٹ کیپنگ کے بعد دس بارہ گیندوں پر تیس چالیس رنز بنا لیتا ہے تو یہ کوئی زیادہ مہنگا سودا نہیں ہے۔ آخر کو شرجیل بھی تو فکسنگ اور خراب فیلڈنگ و فٹنس کے باوجود ٹیم کا حصہ ہیں۔

افتخار احمد کو نیوزی لینڈ میں پریکٹس میچ میں سنچری اور تیسرے ٹی ٹونٹی میں میچ وننگ مختصر اننگ کے بعد محض تین میچوں میں خراب کارکردگی پر باہر کر دیا گیا ہے۔ موجودہ ’وسائل‘ میں وہ آصف علی و دیگر سے بہت بہتر ہیں اور مزید مواقع کے منتظر ہیں۔

ڈومیسٹک میں نیشنل ون ڈے کپ کے ٹاپ وکٹ ٹیکر آصف آفریدی بھی برا انتخاب نہیں۔ وہ جینوئن لیفٹ آرم آرتھوڈوکس باؤلر ہیں۔ جو نیشنل ٹورنامنٹ میں بے حد کفایتی بھی رہے ہیں اور بہ وقت ضرورت پنچ ہٹر کا کردار بھی نبھا سکتے ہیں۔

یہ چند نام یقیناً ہماری ذہنی اختراع ہیں۔ یہ صرف اشارہ ہے، کسی خواہش کا اظہار نہیں۔ اگر اس سے بہتر متبادل موجود ہیں تو انہیں ہی بروئے کار لایا جانا چاہیے۔

سلیکشن میں تسلسل اور مستقبل بینی سے پرہیز:

سلیکڑز کے لیے مشورہ یہی ہے کہ سلیکشن کرتے وقت ڈومیسٹیک کے پرفارمرز کو موقع دیں۔ وہ نہ چلیں تو دوسرے پرفارمرز کو موقع دیں۔ بس!

یہ باتیں خارج از بحث ہیں کہ کھلاڑی کی فارم تو اچھی لگی ہوئی ہے مگر عمر زیادہ ہو گئی ہے۔ فواد عالم سٹانس کی وجہ سے انٹرنیشل کرکٹ میں نہیں چل سکے گا یا یہ کہ ’دوسرا‘ کی عدم موجودگی پر ساجد خان کو موقع نہیں دیا جا سکتا۔ بھئی، اگر وہ دونوں ڈومیسٹک میں رنز اور وکٹوں کے انبار لگا رہے ہیں تو آپ کا کام انہیں موقع دینا ہے، تجزیہ نگار اور نجومی بننا نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments