بشیر میمن: مریم نواز کا عدلیہ سے سابق ڈائریکٹر ایف آئی اے کے الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ

شہزاد ملک - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد


پاکستان مسلم لیگ نواز کی نائب صدر اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے ملک کی عدلیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بارے میں ایف آئی اے کے سابق سربراہ کے انکشافات کی روشنی میں تفتیش کے لیے جوڈیشل کمیشن بنائیں۔

بدھ کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیشی کے موقعے پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے الزام لگایا کہ وزیر اعظم ہاؤس میں بیٹھ کر سپریم کورٹ کے ایک سینیئر جج کے خلاف سازش کی گئی اور ان کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا بھی کہا گیا۔

یاد رہے کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے کے سابق سربراہ بشیر میمن نے منگل کے روز نجی چینل جیو نیوز کے پروگرام ’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘ میں الزام لگایا تھا کہ وزیر اعظم کے احتساب کے لیے مشیر شہزاد اکبر اور وزیر قانون فروغ نسیم نے ان پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف منی لانڈرنگ کا مقدمہ درج کرنے کے لیے دباؤ ڈالا۔

واضح رہے کہ فروغ نسیم اور شہزاد اکبر نے ایف آئی اے کے سابق سربراہ کے تمام الزامات کی تردید کی ہے۔ شہزاد اکبر نے بتایا کہ انھوں نے سابق ڈی جی ایف آئی اے کے الزامات پر ان کے خلاف قانونی کارروائی کے لیے اپنے وکلا کو ہدایات دی ہیں۔

بشیر میمن پاکستان تحریک انصاف کے دورِ حکومت میں ایف آئی اے کے سربراہ تھے اور انھوں نے اپنی مدت ملازمت پوری ہونے سے پہلے ہی ریٹائرمنٹ لے لی تھی۔ حکومت نے بشیر میمن کی پینشن روک دی تھی تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر ان کی پینشن بحال کی گئی۔

یہ بھی پڑھیے

’سینیٹ کا الیکشن ایک مہینہ پہلے کروائیں یا بعد میں، عمران خان حکومت کو نہیں بچا پائیں گے‘

جسٹس فائز عیسیٰ کیس: جب سپریم کورٹ کے سینیئر جج صاحبان آپس میں ہی الجھ پڑے

جسٹس فائز عیسیٰ کی صدارتی ریفرنس کے عدالتی حکم پر نظرثانی کی اپیل منظور

بدھ کو عدالت کے باہر میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے میں مریم نواز کا کہنا تھا کہ سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے جو الزامات لگائے ہیں، انھوں نے اس سے پہلے کبھی ایسے الزامات نہیں سنے۔

مریم نواز کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت اس معاملے کو ایسے نہیں جانے دے گی اور اسے اپنے منطقی انجام تک پہنچا کر رہے گی۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ان کی جماعت اس حوالے سے پٹیشن دائر کرے گی تو مریم نواز کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ نواز مشاورت کر رہی ہے اور وہ اس انتہائی سنگین معاملے کو نہیں چھوڑیں گے۔

مریم نواز نے کہا کہ: ’قاضی فائز عیسیٰ سپریم کورٹ کے معزز جج ہیں اس لیے سب سے بڑی ذمہ داری اس وقت عدلیہ پر عائد ہوتی ہے، عدلیہ خود اس کا نوٹس لے اور اس قسم کے اقدامات اور اس قسم کی ذہنیت رکھنے والے انسانوں پر ہمیشہ کے لیے پابندی لگائے۔‘

انھوں نے چیف جسٹس سے مطالبہ کیا کہ وہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف جھوٹا ریفرنس تیار کرنے کی سازش پر جوڈیشل کمیشن تشکیل دیں۔

ان کہ کہنا تھا کہ جسٹس عیسیٰ نے فیض آباد دھرنے کا حق و سچ پر مبنی فیصلہ دیا جس کی وجہ سے انھوں اور ان کی اہلیہ کو کٹہرے میں لا کھڑا کیا گیا۔

انھوں نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج شوکت صدیقی نے سازش کا بہادری اور جرات سے مقابلہ کیا اور اگر یہ جج صاحبان دب جاتے تو ان کا بھی کہیں ذکر نہ ہوتا۔

بشیر میمن کے الزامات

ایف آئی اے کے سابق سربراہ کی طرف سے الزامات منظر عام پر آنے کے بعد اس معاملے پر سوشل میڈیا پر بھی کافی بحث ہو رہی ہے اور کچھ صارفین اس معاملے کی تحقیقات کروانے اور ذمہ دار کرداروں کو بے نقاب کرنے کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں۔

دوسری جانب ایک تاثر یہ بھی دیا جا رہا ہے کہ بشیر میمن کے الزامات کا مقصد دراصل حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کو بدنام کرنا ہے۔

منگل کی رات شاہ زیب خانزادہ کے شو پر بشیر میمن نے الزام لگایا تھا کہ وزیر اعظم ہاؤس میں ملاقات کے دوران عمران خان نے ان سے کہا کہ اگر وہ ہمت کریں تو وہ ایسا کر سکتے ہیں، لیکن اس وقت انھیں معلوم نہیں تھا کہ کیس کی نوعیت کیا ہے اور وزیر اعظم کس کے خلاف ہمت کرنے کی بات کر رہے ہیں۔

بشیر میمن نے دعویٰ کیا کہ شہزاد اکبر اور فروغ نسیم کے ساتھ ملاقات میں یہ واضح ہوا کہ کس شخصیت کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی بات ہو رہی ہے۔

ان کے مطابق انھوں نے کابینہ کے دونوں اراکین پر واضح کیا کہ کسی بھی جج کے خلاف کارروائی کرنے کا اختیار سپریم جوڈیشل کونسل کے پاس ہے، ایف آئی اے ایسا نہیں کرسکتی۔

بشیر میمن کے بقول انھوں نے حکومتی شخصیات کی یہ خواہش پوری کرنے سے انکار کر دیا تھا کیونکہ اگر وہ ایسا کرتے تو ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچتا۔

اپنے انٹرویو میں بشیر میمن نے مزید کہا کہ ملاقات کے چند ماہ بعد شہزاد اکبر نے ان سے جسٹس عیسیٰ اور ان کے اہلخانہ کے اندرون اور بیرون ملک سفر کی تفصیلات کے بارے میں پوچھا تھا، تاہم سابق ڈی جی ایف آئی اے کے بقول انھوں نے اس کا مثبت جواب نہیں دیا، جس پر شہزاد اکبر نے ان سے کہا ’آپ چھوڑ دیں، آپ سے نہیں ہو گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ تین سال قبل ہونے والی اس ملاقات کے بارے میں تحقیقات کروائی جائیں تو سب کچھ واضح ہو جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp