بے آف پِگز پر حملے کے 60 برس: ’کیوبا کو کاسترو سے آزاد‘ کرانے کی امریکی کوشش جو 72 گھنٹوں میں ناکام ہو گئی

ہوزے کارلوس کیوٹو - بی بی سی، منڈو


 

Composite image of JFK and Castro

کیوبا کے ساحل پر ‘بے آف پِگز‘ میں امریکی فوجی مداخلت کے واقعے کو اب ساٹھ برس ہو چکے ہیں۔ یہ کیوبا کے سربراہ فیدل کاسترو کی حکومت کا تختہ الٹنے کی ایک ناکام کوشش تھی۔ کیوبا میں آج بھی اس امریکی مداخلت کی ناکامی کے دن کو جشن کے طور پر منایا جاتا ہے۔

ادھر حملہ کرنے والوں میں زندہ بچ جانے والے امریکہ میں مقیم ہیں اور اس ناکام مشن پر اس وجہ سے مطمئن ہیں کہ انھوں نے اپنی ڈیوٹی انجام دی۔ بی بی سی مُنڈو نے اس فوجی منصوبے اور پیش آنے والے واقعات کے حقائق کا تجزیہ کیا ہے۔

جونی لوپیز ڈی لا کروز کو سانس نہیں آ رہا تھا۔ وہ ایک لاری میں دیگر سو قیدیوں کے ساتھ ہند ہیں اور ان کا دم گھٹ سکتا ہے۔

اس لاری کے اندر قیدی بہت زیادہ پریشان ہیں۔ وہ پسینے سے شرابور ہیں۔ ان میں کئی بے ہوش ہو جاتے ہیں۔ ان میں کئی اپنی فوجی بیلٹیں ڈھیلی کر دیتے ہیں اور اس لاری کے سوراخوں سے تازہ ہوا حاصل کرنے کی کوشش کر کے وہ مزید زندہ رہنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن ان میں سے زیادہ افراد یہ خوف محسوس کر رہے ہیں کہ وہ جیسے ہی ہوانا شہر پہنچیں گے انھیں فائرنگ سکواڈ کے سامنے کھڑا کر کے سزائے موت دے دی جائے گی۔

یہ لاری سات گھنٹوں کے سفر کے بعد اپنی منزلِ تک پہنچتی ہے۔ فوجی اہلکار اس لاری کا دروازہ کھولتے ہیں۔ کئی لاشیں زمین پر گرتی ہیں۔ نو قیدی سفر کے دوران ہلاک ہوئے۔

جب جونی لاری سے باہر نکلنے لگتا ہے تو وہ بمشکل اتر پاتا ہے۔

‘موت کی اس لاری‘ کے علاوہ بھی بہت سارے قیدی دوسری لاریوں میں وہاں پہنچتے ہیں جن کی تعداد تقریباً گیارہ سو ہے۔ یہ بریگیڈ نمبر 2506 کے بچ جانے والے افراد ہیں۔ یہ بریگیڈ ان 1400 افراد پر مشتمل ایک فوجی دستہ تھا جنھوں نے چند گھنٹے قبل ہی ملک کے جیرون نامی ساحل پر فیدل کاسترو کی فوج کے ہاتھوں شکست کھائی تھی۔

Exhausted, without munition and trapped against the beach. The 2506 Brigade 72 hours after landing on the island.

ساحل پر پھنس جانے والے بغیر اسلحے کے جنگجو۔ بریگیڈ 2506 کیوبا پر حملے کے 72 گھنٹوں کے بعد شکست کھا چکی تھی۔

ان میں زیادہ تر کیوبا کے وہ جلاوطن باشندے تھے جنھیں کیوبا میں کاسترو کی کامیابی کے بعد امریکی انٹیلیجینس ایجنسی، سی آئی اے نے کاسترو کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے بھرتی کیا اور انھیں تربیت دی تھی۔

فیدل کاسترو نے کیوبا میں دو برس قبل یکم جنوری سنہ 1959 کے دن فتح حاصل کی تھی جب اُن کی ملیشیا نے فلجینسیو باتِیستا کو شکست دی تھی جسے کاسترو کے حامی بدعنوان اور آمر قرار دیتے تھے۔

کاسترو کی بہت زیادہ مقبولیت کے باوجود کئی کیوبنز ان کے انقلاب کے نظریے سے متفق نہیں تھے اور وہ اپنا ملک چھوڑ کر جلا وطن ہو گئے تھے۔

سنہ 1961 میں ’بے آف پِگز‘ پر ہونے والے امریکی حملے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ پہلی گولی چلنے سے پہلے ہی اندیشہ تھا کہ اس حملے کا انجام ناکامی ہی ہو گا۔ اس بریگیڈ کے زندہ بچ جانے والے ارکان اس ناکامی کی ذمہ داری امریکی حکومت پر عائد کرتے ہیں۔

امریکہ میں وائٹ ہاؤس سے صدر جان ایف کینیڈی نے امریکی فضائیہ کی بمباری کے اُس حکم کو عین موقعے پر منسوخ کر دیا تھا جس کی وجہ سے کاسترو کی فضائی طاقت غیر موثر ہو سکتی تھی۔

انھوں نے اپنا حکم اس لیے منسوخ کیا تھا کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ یہ ظاہر ہو کہ اس حملے کے پسِ پُشت امریکہ تھا۔ انھوں نے محسوس کیا تھا کہ اس سے نہ صرف امریکہ کی عالمی ساکھ متاثر ہو گی بلکہ سویت یونین، جو اس وقت تک کیوبا میں فیدل کاسترو کو ایک کلیدی اتحادی کے طور پر مستحکم کرنے میں مصروف تھا، ردعمل دکھائے گا اور دنیا میں ایک ایٹمی جنگ چھڑ سکتی تھی۔

ان حالات میں ‘کیوبا کو کاسترو سے آزاد’ کرانے کا خواب دیکھنے والے نا تجربہ کار نوجوان صرف 72 گھنٹے لڑ سکے۔

'Playa Giron' sign

اس حملے کے زخموں کی وجہ سے اگلی دہائیوں میں کیوبا اور امریکہ کے سیاسی موقف پر گہرا اثر مرتب ہوا۔

سی آئے اے کے تربیت یافتہ کیوبا کے جلاوطن باشندے کیوبا کے ساحل پر 17 اپریل سنہ 1961 کے صبح صبح اترے اور 19 اپریل کی شام تک انھیں شکست دی جا چکی تھی۔

بریگیڈ 2506 کے بچ جانے والے افراد کو ایک برس بعد، یعنی سنہ 1962 میں، مذاکرات کے ذریعے رہا کرایا گیا تھا۔

حملہ کرنے والی اس فوج کے باقی ماندہ افراد آج بھی جلاوطنی میں کیوبا میں سوشلسٹ حکومت کے خاتمے کا انتظار کر رہے ہیں۔

دوسری جانب کیوبا میں ہر برس 19 اپریل کا دن ان ’کرائے کے فوجیوں’ کی شکست کے طور پر منایا جاتا ہے جنھیں دنیا کے سب سے طاقتور ملک کی مدد حاصل تھی۔

Short presentational grey line

میں نے فیدل کی حمایت کیوں ختم کی اور حملے میں کیوں شامل ہوا؟

Johnny Lopez de la Cruz

جونی لوپیز ڈی لا کروز اب اسی برس کے ہیں۔ آج وہ بریگیڈ 2506 کے اراکین کی تنظیم کے صدر ہیں۔ وہ حملے میں حصہ لینے والی پیرا ٹروپر بٹالین کا حصہ تھے۔ یہ ان کی کہانی ہے:

جس دن سارجنٹ بینیٹیز کی موت ہوئی اس دن میری آنکھیں کھل گئی تھیں۔

وہ باتیستا کی پولیس سے تھے اور میرے خاندان کے اچھے دوست تھے۔انھوں نے کبھی کیوبا نہیں چھوڑا کیونکہ انھیں یقین تھا کہ انھوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا ہے۔

شروع میں، میں نے کاسترو کی حمایت کی۔ انہوں نے کبھی نہیں کہا کہ وہ کمیونسٹ ہیں۔ اگر وہ ایسا کرتے تو کیوبا میں کسی نے بھی اس کی حمایت نہیں کرنی تھی۔

لیکن اس کے فوراً بعد ہی لوگوں کو پھانسیاں دینا شروع کردی گئیں، جائیدادیں اور زمینیں ضبط کرکے قومی ملکیت میں لے لی گئیں۔

ایک دن کاسترو کے دو آدمی پہنچے اور بینیٹیز پر مقدمہ چلانے کے لیے لے گئے۔ میں وہاں ان کی حمایت کرنے کے لیے گیا۔

یہ مقدمہ آدھے گھنٹے سے بھی کم وقت تک جاری رہا۔ اسے بولنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ اسے اور چار دیگر افراد کو قصوروار قرار دیا گیا اور انہیں شہر سے باہر ایک قبرستان میں لے جایا گیا۔

انھیں پھانسی دے کر ایک قبر میں پھینک دیا گیا۔

مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ آپ لوگوں کو اپنے دفاع کی اجازت دیے بغیر پھانسی دینے کا حکم کیسے دے سکتے ہیں۔ یہ اختیار کا غلط استعمال تھا۔

پھر میں نے حکومت مخالف انقلابی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کیا۔

ہم پیمفلٹ تقسیم کرتے اور دیواروں پر ‘فیدل کاسترو مردہ باد’ کے نعرے لکھتے۔

لیکن پھر میرے گروپ کے دو ممبروں کو گرفتار کرلیا گیا۔ میرے قریب کے لوگوں نے مجھے بتایا کہ اب میری باری آنے والی ہے۔ اس لیے میں تین دوستوں کے ساتھ ہوانا چلا گیا اور جعلی کاغذات لے کر میامی نکل گیا۔

جب میں سنہ 1960 میں امریکہ پہنچا تو مجھے پہلے ہی معلوم تھا کہ دیگر جلاوطن افراد کو کیوبا پر حملہ کرنے کے لیے گوئٹے مالا میں سی آئی اے تربیت دے رہی تھی۔ میں بھی کچھ دن بعد وہاں پہنچ گیا۔

Short presentational grey line

1400 جلاوطنوں پر مشتمل فوج

سنہ 1959 اور 1961 کے درمیان لوپیز ڈی لا کروز جیسے ہزاروں کاسترو مخالف نوجوانوں نے یہ طے کیا کہ اب ان کے پاس ایک ہی راستہ ہے یا وہ جلاوطن ہو جائیں یا حکومت کے خلاف ہتھیار اٹھا لیں۔

زیادہ تر کیوبنز جلاوطن ہو کر امریکہ پہنچ گئے، کیونکہ یہ ایسا ملک تھا جو کاسترو کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے رقم دے گا۔

کیوبا میں امریکہ کے کئی کاروباری اداروں اور صنعتوں کو قومی ملکیت میں لینے اور کاسترو کے روس کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات نے، جلد ہی کیوبا اور امریکہ کے تعلقات میں کشیدگی پیدا کرنا شروع کردی تھی۔

Cuban President Fidel Castro speaking from a podium to the people of Camaguey, Cuba about the Triumph of the Cuban Revolution

فیدل کاسترو 26 جولائی کی انقلابی تحریک کے ارکارن کے ہمراہ 4 جنوری سنہ 1959 کو کیوبا کے انقلاب پر تقریر کر رہے ہیں۔

کاسترو دنیا کے سب سے زیادہ طاقتور ملک کے لیے اِس خطے میں ایک خطرہ بن چکے تھے۔

اس وقت کے امریکی صدر ڈوائیٹ آئزن ہاور نے سی آئی اے کی مدد سے اس انقلابی رہنما کو تباہ کرنے کا فیصلہ کیا۔

اور انھیں کیوبا کے جلاوطنوں میں ایسے گروہ ملے جو اس منصوبے پر عملدرآمد کے لیے بہت ہی موزوں تھے۔ اس مقصد کے لیے کل 1400 افراد کو بھرتی کیا گیا۔

اس دوران جب کیوبا کو شک ہوا کہ کوئی حملہ ہونے والا ہے تو اُس نے بھی تیاری کرنا شروع کردی۔

Short presentational grey line

وطنِ عزیز کا ہیرو

Jorge

جارج اورٹیگا ڈِلگاڈو حملے کے وقت فیدل کاسترو کی حمایت میں لڑے تھے۔ جب وہ اُن دنوں کو یاد کرتے ہیں تو ان کی آنکھوں میں چمک آجاتی ہے۔ ہوانا میں اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے 77 برس کے اورٹیگا نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ کاسترو کی ملیشیا میں کس طرح شامل ہوئے تھے:

میں مزدور طبقے کے ایک کمزور سے گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ جب انقلاب کامیاب ہوا تو میری عمر 15 سال تھی اور میں فورًا ہی انقلابی سرگرمیوں میں شامل ہوگیا۔

امریکہ نے کیوبا کے داخلی معاملات میں مداخلت اور کیوبا پر حملہ کرنے کی کوششیں شروع کردیں۔ اکتوبر 1959 میں انقلابی ملیشیا کی بنیاد رکھی گئی۔

میں نے 1959 اور 1960 کے دوران شمولیت اختیار کی اور تربیت حاصل کی۔ اکتوبر 1960 کے آخر میں، چیف کمانڈر فیدل کاسترو ایک تربیتی اجلاس میں پہنچے۔ انھوں نے تمام ملیشیا کے لوگوں سے بات کرنے کو کہا۔ ہماری تعداد قریباً 1500 تھی۔

انہوں نے 20 سال سے کم عمر افراد کو اینٹی ایئرکرافٹ آرٹلری فورسز میں شامل ہونے کو کہا۔ اس دوپہر میں نے اپنے والدین سے ان کے ساتھ جانے کی اجازت طلب کی۔ انہوں نے اتفاق کیا۔

مجھے بیٹری نمبر 30 پر تعینات گیا تھا۔ اسی جگہ پر ہم نے اینٹی ایئرکرافٹ آرٹلری کی تربیت حاصل کرنا شروع کردی۔

Short presentational grey line

منصوبہ

سی آئی اے اور صدر آئیزن ہاور کی انتظامیہ کے اصل منصوبے کے مطابق جلاوطنوں کی اس ملیشیا نے نکاراگوا کے شہر پیورتو کابیزاس اور جنوبی کیوبا کے قریب ٹرینیڈاڈ کے شہر کے قریب ایک ساحل سے حملے کے لیے روانہ ہونا تھا۔

اس حملے کا اس وقت مقصد یہ تھا کہ جلاوطن اس خطے پر حملہ کر کے کیوبا کے اس خطے پر قبضہ کرلیں اور وہاں اپنی حکومت کے قیام کا اعلان کردیں گے جسے مستحکم کرنے کے لیے امریکہ اپنی حمایت کا اعلان کردے گا۔

ٹرینیڈاڈ کوہِ اِسکامبرے کے قریب ہے جہاں کاسترو کا مخالف گروہ اس حملے میں شریک ہونے کے لیے پہلے سے تیار تھا، اور اگر ضروری ہوا تو حملے کے بعد وہاں ویسی ہی گوریلا جنگ کا آغاز کرے گا جیسی فیدل کاسترو نے دو برس قبل اپنے انقلاب کے دوران کی تھی۔

جلاوطنوں کی ملیشیا کو وہاں اتارنے کے لیے 16 امریکی لڑاکا طیارے فیدل کاسترو کے ہوائی اڈوں پر بمباری کریں گے تاکہ اس کی فضائی طاقت کمزور پڑ جائے اور حملہ آوروں کو اس کا فائدہ پہنچے۔

لیکن جب سنہ 1961 میں جان ایف کینیڈی امریکہ کے صدر بنے تو اس حملے کے منصوبے میں کئی بنیادی تبدیلیاں کی گئیں۔ صدر کینیڈی نے اس منصوبے پر عملدرآمد کو تو جاری رکھا لیکن پچھلے صدر کی پالیسیوں میں تبدیلی کردی۔ انھوں نے سوچا کے ٹرینیڈاڈ سے سرِعام حملہ کرنا ایک کھلی جارحیت سمجھی جائے گی۔

John F Kennedy

کینیڈی نے اقتدار سنبھالتے ہی اصلی منصوبے میں کچھ تبدیلیاں متعارف کرائیں۔

امریکہ کی نیشنل سیکیورٹی آرکائیو میں کیوبا ڈاکیومنٹیشن پراجیکٹ کے ڈائریکٹر پیٹر کارن بلو کہتے ہیں کہ ‘صدر کینیڈی اس حملے میں امریکہ کی کسی بھی قسم کی مداخلت یا شرکت کی تردید کرنا چاہتے تھے۔ اس لیے حملے کے منصوبے پر بہت ہی خفیہ انداز میں علمدرآمد کرنا تھا۔ ٹرینیڈاڈ سے چڑھائی کرنے کا مطلب تھا کہ اس کے پس پشت امریکہ کار فرما ہے۔’

وہ مزید کہتے ہیں کہ ‘یہ سارا مشن جتنا بھی ممکن ہو خفیہ رکھنا تھا۔ اور کینیڈی نے اس منصوبے میں تبدیلی کے لیے سی آئی اے کو تین دن دیے جبکہ پہلے اس کی تیاری میں ایک سال لگا تھا۔’ پیٹر کارن بلو ان دستاویزات میں ڈی کلاسیفائی ہونے والی ایک رپورٹ کی کاپی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے جو کہ 37 برسوں سے خفیہ تھی۔

صدر کینیڈی نے بمباری کرنے والے طیاروں کی تعداد 16 سے کم کر کے 8 کردی اور سی آئی اے سے کہا کہ وہ حملے کے لیے جگہ اور وقت میں تبدیلی لائیں۔

انھوں نے اب جس جگہ کا انتخاب کیا وہ بعد میں اس مشن کے لیے بدترین جگہ ثابت ہوئی: بے آف پِگز، کیوبا کے جزیرے میں جنوب کی جانب خلیج میں بہت ہی اندر جا کر ایک ساحلی علاقہ۔

اس خطے میں یہ ایک دشوار گزار ساحلی علاقہ تھا۔ یہ دلدلی علاقہ تھا اور یہاں کے مینگرووز درخت اور کیوبا کی چٹانیں اپنے تیز دھار کونوں کی وجہ سے مقامی زبان میں ‘کتے کے دانت’ کہلاتی تھیں۔ تیزی سے حملہ آور ہونے کے لیے ان ساحلوں پر اترنا ایک دشوار مشن تھا۔

بے آف پِگز کے قریب ایک ہوائی اڈہ تھا جو کے حملہ آوروں کے جہازوں میں تیل بھرنے کے لیے کلیدی حیثیت رکھتا تھا۔

ہوائی بمباری: 15 اپریل

کاسترو کی فوج میں شامل جارج اورٹیگا ڈلگاڈو نے اپنی طیارہ شکن توپ چلانے کی ٹریننگ مکمل کر لی تھی اور وہ بے چینی کے ساتھ 15 اپریل کو اپنی چُھٹی کا انتظار کر رہے تھے۔ انھوں نے ملٹری ٹریننگ میں کئی ماہ صرف کیے۔ لیکن اس دن صبح جنگ کا الارم بجتا ہے۔ حملہ آور جہازوں نے ہوانا اور سینٹیاگو کے دو ہوائی اڈوں پر بمباری کا آغاز کر دیا ہے۔

اورٹیگا یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ‘ہم فوراً ہی باہر نکل آئے۔ انھوں نے ہمیں اپنی توپیں باہر نکال کر ساحل کی جانب نصب کرنے کا حکم دیا۔ جب ہم وہاں پہنچے تو انھوں نے ہمیں صبح بتایا، 15 اپریل کو، کہ کرائے کے فوجیوں کے طیاروں نے ہمارے ایئر پورٹوں پر بمباری کی ہے اور ہمارے سات ساتھی ہلاک ہو گئے ہیں۔’

یہ سب بتاتے ہوئے ان کی آواز میں آج بھی ایک جذباتی کیفیت جھلک رہی تھی۔ انھوں نے مزید کہا کہ ‘وہاں موجود تمام جوانوں نے اس حملے پر شدید غصے کا اظہار کیا۔ ہمیں یقین نہیں آرہا تھا۔ ہم اپنے وطن کے دفاع کے لیے کچھ بھی کرنے کے لیے تیار تھے۔‘

صدر کینیڈی نے کیوبا کے ہوائی اڈوں پر کاسترو کی فضائیہ تباہ کرنے کے لیے 15 اپریل کو بمباری کرنے کا حکم دیا تھا تاکہ 17 اپریل کو زمینی کارروائی کا آغاز ہو۔

نکاراگوا کے شہر پیورتو کابیزاس سے 15 اپریل کو آٹھ طیاروں نے پرواز شروع کی اور سینتیاگو ڈی کیوبا کے ہوائی اڈے، جو کہ کیوبا کے مشرق میں واقع ہے، اور ہوانا کے دونوں ہوائی اڈوں، کیوڈاڈ اور سین اینٹونیو ڈی لا بانوس، پر بمباری کی۔

Infographic showing April bombing

ان حملوں میں سات افراد کی ہلاکت کے باوجود اس بمباری سے کیوبا کے طیاروں کو بہت کم نقصان پہنچا تھا جن میں سے کچھ پہلے ہی ناکارہ ہو چکے تھے۔

کاسترو کی فضائیہ کو کوئی خاص نقصان نہیں پہنچا اور اس کے علاوہ ان کی طیارہ شکن بٹالین نے حملہ آور طیاروں میں ایک کو مار گرایا تھا۔

امریکی بمباری کے بعد کیوبا کے قومی نشان والا ایک طیارہ فلوریڈا کے ویسٹ کینٹ کے ہوائی اڈے پر اترا۔ اس کا پائلٹ کاسترو کی فضائیہ سے بھاگ کر یہاں پہنچا تھا۔

درحقیقت وہ سی آئی اے کے اُس منصوبے کا حصہ تھا تاکہ دنیا کو یہ دکھایا جائے کہ امریکہ اس حملے میں شامل نہیں تھا۔

اس طرح دنیا کو ایسا لگے گا کہ کیوبا میں عوام کاسترو کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں، نہ کہ یہ کارروائی امریکہ نے کروائی ہے۔

پیٹر کورن بلو بتاتے ہیں کہ ‘لیکن کیوبا کی فضائیہ کے بھگوڑے کی کہانی چند گھنٹوں تک ہی قائم رہ سکی۔ اگرچہ امریکہ نے اس کی تردید کی تھی لیکن جلد ہی ساری دنیا کو علم ہو گیا کہ (بمباری کرنے والے) طیارے امریکی تھے اور وہ دنیا کو یہ دکھانا چاہتا تھا کہ کیوبا پر ہوائی بمباری کرنے والے کیوبا کے اپنے باغی پائلٹ تھے۔’

جب امریکہ پر اس حملے کا شک کیا جانے لگا تو کینیڈی نے باقی طیاروں کے حملوں کا حکم منسوخ کردیا جس کے نتیجے میں بریگیڈ 2506 کی کیوبا کے ساحل پر اتر کر قبضہ کرنے کے منصوبے کو شدید نقصان پہنچا کیونکہ اب اُس کے پاس مناسب حد تک فضائی تحفظ حاصل نہیں تھا۔

لوپاز ڈی لا کروز افسوس کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ‘میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ یہ جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی ہم ہار چکے تھے۔’ لیکن اُس وقت تک تمام حملہ آوروں کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ ہوائی بمباری بند کردی گئی ہے۔

ساحل پر لینڈنگ

17 اپریل 1961۔ صبح کا ایک بجا ہے۔ حملہ آوروں کی کشتیاں لارگا کے ساحل کے پاس پہنچتی ہیں۔ یہ بے آف پگز کی اندر کی ایک تنگ سی جگہ ہے۔

حملہ آور کسی قسم کا شور نہیں مچانا چاہتے تھے۔ اچانک حملہ کرنا کامیابی کی ضمانت ہوتا ہے۔

لیکن کاسترو کو تو کئی مہینوں سے شک تھا کہ حملہ ہوگا۔ انھیں معلوم تھا کہ امریکہ سے کیوبا کی لڑائی اس طرح کی ہو گی جیسی کہ حضرت داؤد اور دیو ہیکل گولیتھ کے درمیان لڑائی ہوئی تھی۔ اور وہ اپنی تیاری کیے بیٹھا تھا۔

Infographic showing 16 April landing

پیٹر کارن بلو کہتے ہیں کہ ‘کیوبا کی ملیشیا عملی طور پر جزیرے کے ایک ایک ساحل کی حفاظت کر رہی تھی۔‘

‘ان حفاظتی کشتیوں میں سوار عملے میں سے کسی ایک کو کچھ آواز آتی ہے۔ وہ اپنی فلیش لائیٹس جلاتے ہیں اور فائرنگ کرتے ہیں۔

حملہ آور بھی جوابی فائرنگ کرتے ہیں۔ حملہ آور محافظ کشتیوں میں سے کچھ پر قابو پانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ تاہم گرفتار ہونے سے پہلے وہ اپنے دیگر ساتھیوں کو حملے کا انتباہ بھیج چکے ہوتے ہیں۔ اچانک حملہ آوروں کا اہم ہتھیار ‘سرپرائز‘ ختم ہو چکا ہے۔

کاسترو کی فوج حملے کے خلاف جوابی کارروائی کے لیے تیزی سے حرکت میں آتی ہے، جبکہ ابھی بہت سارے حملہ آور پانی ہی میں موجود ساحل پر اترنے کا انتظار کر رہے ہیں۔

Short presentational grey line

کاغذ کی کشتیاں

ہمبرتو لوپیز سلدانیا کی عمر اب 83 سال ہے۔ وہ سنہ 1960 میں کیوبا سے جلاوطن ہو کر امریکی ساحلی شہر میامی چلے گئے تھے اور جلد ہی وہ اس بریگیڈ میں شامل ہوگئے تھے۔ وہ ایسی ہی ایک حملہ آور کشتی میں سوار تھے۔

ہمیں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ہمیں فوراً ہی لڑنا پڑا۔ اس سے ساحل پر اترنے میں تاخیر ہوئی۔

اس کے علاوہ ہماری کشتیاں بہت چھوٹی تھیں۔ جب بھی کوئی کشتی کسی چٹان سے ٹکرائی تو وہ پاش پاش ہو جاتی۔ ہمارے بہت سے ساتھی وہاں ڈوب گئے۔

ساحل پر قبضہ کرنے کا کام صبح سویرے تک جاری رہا۔ ہم سمندری لہروں کے آہستہ ہونے کا اتظار کر رہے تھے۔ ساحل پر پہنچ جانے والوں نے ہمیں زمین تک پہنچنے کے لیے ایک رسی پھینک دی۔

صبح کے وقت 6 بجے کے قریب کاسترو کی فضائیہ نمودار ہوئی۔ ان کی بمباری ہمارے ارد گرد ہونے لگی۔ بم ہمارے آس پاس گر رہے تھے۔ ہماری کشتیاں ایسے لرز اٹھیں جیسے وہ کاغذ کی بنی ہوں۔

Castro's soldiers at Playa de Giron, Cuba

جب حملہ آوروں کی کشتیاں ساخل کے قریب چٹانوں کے قریب پہنچیں تو ٹکراتے ہی انھیں نقصان پہنچا۔

فوراً ہی ایک بم میری کشتی، ہیوسٹن سے ٹکرایا۔خوف و ہراس پھیل گیا۔ کئی ساتھی ہلاک ہوگئے۔ کپتان نے ہیوسٹن کو چٹانوں کے پاس لگا دیا تاکہ ہر ایک کو خشک زمین تک پہنچنے میں مدد ملے۔

ہیوسٹن کو ناکارہ کرنے کے علاوہ کاسترو کے طیاروں نے ریو اسکونڈیڈو کو بھی غرق کردیا۔ ہمارے پاس ان کشتیوں پر بہت سارا اسلحہ اور طیاروں کا ٹنوں ایندھن تھا۔ سب کچھ ضائع ہوگیا تھا۔

Short presentational grey line

‘جب آپ فائرنگ کرنا شروع کرتے ہیں، آپ طیش میں آجاتے اور خوف دور ہوجاتا ہے‘

جارج اورٹیگا اور ان کی طیارہ شکن بٹالین 17 اپریل کی شام 5 بجے کے لگ بھگ متنزاس صوبے میں پہنچی جہاں بے آف پگز واقع ہے۔

وہاں انھیں معلوم ہوا کہ اُنھیں بارہ سو حملہ آوروں کے خلاف لڑنا ہوگا جو کیوبا کی سرزمین پر اترنے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ حملہ آوروں کی ایک پیرا ٹروپر بٹالین بھی ہے جو قریبی علاقے میں ایک ہوائی اڈے کے قریب اترنے میں کامیاب ہوچکی تھی۔

اورٹیگا کو ملیشیا کے جوانوں، ٹینکوں اور مارٹر فائر کی آوازیں یاد ہیں۔

اورٹیگا یاد کرتے ہیں ’16 اپریل کو فیدل کاسترو نے اپنی تقریر میں بمباری کے دوران ہلاک ہونے والے ہمارے سات ساتھیوں کو خراج عقیدت پیش کیا اور ہم نے اس تقریر کو غور سے سنا تھا۔ ہوانا جاتے ہوئے لوگ جھنڈے لے کر سڑک پر نکل آئے تھے اور ہم سے یہ پوچھتے کہ کیا ہم نے دشمن کو شکست دی۔’

اسی تقریر میں ہی کاسترو نے پہلی بار انقلاب کی سوشلسٹ نوعیت کا اعلان کیا تھا اور انہوں نے عوام سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ بھاڑے کے فوجیوں کو پسپا کریں۔

Jorge Ortega artillery

18 اپریل کی صبح اورٹیگا نے دشمن کے طیاروں کا سوراخ لگایا۔ یہ پہلا موقع تھا جب انھوں نے توپ سے بمباری کی۔

اورٹیگا کہتے ہیں کہ ‘آپ جھجک محسوس کرتے ہیں۔ ہم سب کو خوف محسوس ہوتا ہے۔ جو بھی آپ کو کوئی دوسری صورت بتاتا ہے وہ جھوٹ بولتا ہے۔ لیکن آپ اپنے ساتھ والے شخص کی طرف دیکھتے ہیں اور آپ کے باقی ساتھی بھی پُرعزم اور مضبوط نظر آتے ہیں۔ جب آپ فائر کرنا شروع کرتے ہیں تو آپ طیش میں آجاتے ہیں اور خوف ختم ہوجاتا ہے۔’

اسی دن ان کی بٹالین لارگا ساحل سمندر کے قریب مزید دستوں کے ہمراہ روانہ ہوئی، جس نے جلاوطن کیوبنز کی حملہ آور فوج کا محاصرہ کر لیا۔

’19 اپریل کی صبح ہم نے دیکھا کہ کس طرح ایک طیارہ، جسے ہماری بٹالین نے گرایا تھا، سمندر میں جا گرا۔ ایک اور ہوائی جہاز گنے کے کھیت میں گرا۔ اس طیارے کا شریک پائلٹ جل کر ہلاک ہوگیا لیکن پائلٹ اپنے پیراشوٹ کے ساتھ کود گیا اور ایک اور سابق فوجی نے بتایا کہ اُس نے فرار ہونے کی کوشش کی۔ وہ ہماری فوج کے ساتھ لڑائی میں مارا گیا۔’

ساحل پر اترنے سے پہلے ہونے والے فضائی حملوں کی منسوخی کی وجہ سے، اس زمینی حملے کا ساتھ دینے والے B-26 بمبار طیارے کاسترو کی مضبوط فضائیہ کا آسان شکار تھے۔

طیاروں کے لیے ایندھن لے جانے والی کشتیاں تباہ ہوگئیں اور حملہ آور طیارے جیرون ساحل سمندر کے قریب ہوائی اڈے استعمال نہیں کرسکتے تھے، جیسا کہ انہوں نے منصوبہ بنایا تھا۔

انہیں اب ایندھن کے لیے نکاراگوا میں ہوائی اڈے پر چار گھنٹے دور کی پرواز کی ضرورت تھی۔ ہر بار جب وہ کیوبا واپس آتے تو انھیں بم گرانے کے لیے ایک گھنٹہ سے بھی کم وقت ملتا تھا۔

حملہ آور طیارے کے عملے نے انھیں لمبی پرواز کرنے کے قابل بنانے کے لیے طیاروں سے مشین گنوں کو ہٹا دیا۔ لیکن اس نے انہیں مزید کمزور کردیا۔

17 اپریل کو ساحل پر حملے کے چوبیس گھنٹوں کے بعد، حملہ آور اپنے چھ بحری جہازوں میں سے دو اور اپنی نصف کشتیوں کو کھو چکے تھے۔

Destroyed aircraft

امریکی فضائیہ کی حفاظت کے بغیر امریکہ کے طاقتور بمبار طیارے بی-26 خطرے میں تھے۔

باقی بچ جانے والی کشتیاں کھلے سمندر میں واپس چلی گئیں تاکہ انھیں کاسترو کی فوج سے مزید نقصان نہ پہنچے۔

19 اپریل کو نکاراگوا میں مقیم امریکی فضائیہ کے چار انسٹرکٹرز بریگیڈ 2506 کی مدد کے لیے پرواز کرتے ہوئے پہنچے۔ یہ بریگیڈ اس وقت تک بے یار و مدد گار تھی۔ فیدل کاسترو کی فوج نے امریکی انسٹرکٹرز کے طیارے کو مار گرایا۔

لوپیز ڈی لا کروز افسوس کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ‘ان کو (ہمارے لیے) مرنے کی ضرورت نہیں تھی، لیکن انھوں نے محسوس کیا کہ ہمیں مدد کی ضرورت ہے۔’

19 اپریل

کاسترو کو معلوم تھا کے دشمن کو اس وقت بہت ساری مشکلات کا سامنا ہے۔ اُس نے حملہ آوروں کو گھیرنے کے لیے ایک بھر پور حملے کا حکم دیا تاکہ کوئی فرار نہ ہو سکے۔

ان کے فوجی جوق در جوق لہروں کی صورت میں حملہ آور ہوئے۔ لاریوں میں مزید فوجی پہنچے، بکتر بند گاڑیاں، مارٹر گولے، اور طیارے، غرض کہ سب کچھ پہنچ گیا۔

تیسرے دن تک باہر سے آنے والے حملہ آوروں کے پاس اسلحہ، طیارے یا فرار ہونے کے راستے ختم ہو چکے تھے۔ انھوں نے 19 اپریل کو شام کو ساڑھے پانچ بجے ہتھیار پھینک دیے۔

حملہ آوروں کی ہلاکتوں کا اندازہ لگانا کافی پیچیدہ اور مشکل کام ہے۔

Castro's soldiers at Playa de Giron, Cuba

کاسترو کو دشمن کی مشکلات کاعلم تھا، اس نے فوراً اپنی فوج کو جیران کے ساحل پر بھیجا۔

ڈی لا کروز کہتے ہیں کہ ‘ان کشتیوں میں نیوی کا کافی سارا عملہ تھا اور یہ ڈوب گئیں اور ہم انھیں گِن نہیں سکے۔’

اس جنگ میں شریک حملہ آوروں کی تنظیم کے اندازوں کے مطابق اُس وقت 103 افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ 100 کے قریب زخمی ہوئے تھے۔

ان کے خیال میں تین دنوں تک جاری رہنے والی جنگ کے لحاظ سے ہلاک ہونے والوں اور زخمیوں کی تعداد کافی کم تھی۔

کیوبا کی طرف سے گوریلا جنگ لڑنے والے ایک کمانڈو، جوسن رامون فرنینڈس اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ان کے 176 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ یہ کتاب انھوں نے فیدل کاسترو کے ساتھ مل کر لکھی تھی۔

Soldiers

حملہ آوروں کی ہلاکتوں کا اندازہ لگانا کافی مشکل کام ہے۔

بڑی طاقت کا تکبر

کورن بلو کہتے ہیں کہ ‘بے آف پگز کا حملہ سی آئی اے کی ایک بہت ہی بڑی تکبرانہ غلطی تھی۔’

انٹیلیجینس کمیونٹی کو یقین تھا کہ کاسترو کا انقلاب غیر مقبول تھا اور انھیں صرف اس کے مخالفین کے ایک فوجی حملے کی ضرورت تھی جس کے بعد عوام کاسترو کے خلاف سڑکوں پر اُٹھ کھڑے ہوں گے۔

کورن بلو کہتے ہیں کہ ‘لیکن سچ یہ ہے کہ کاسترو اُن علاقوں میں بہت مقبول تھے جہاں حملہ کیا گیا تھا۔ انھوں نے وہاں کے عوام کو بجلی اور زراعت میں امداد دی تھی۔ سی آئی اے نے جھوٹے اور کمزور مفروضوں کی بنیاد پر حملے کا منصوبہ تیار کیا تھا۔ اس کے علاوہ اس بات کا اندازہ بھی نہیں لگایا گیا تھا کہ کاسترو کے ہزاروں فوجی 1400 حملہ آوروں کو فوراً شکست دے دیں گے۔’

بریگیڈ 2506 کے 1100 جوانوں کو گرفتار کیا گیا اور انھیں جیلوں میں ڈال دیا گیا۔

جیلوں میں قیدی

Watched by armed guards, grim-faced invaders are marched off to prison from temporary quarters at Giron Beach, Las Villas province, after their capture by Castro forces

Short presentational grey line

ہمبرتو لوپیز سالدنیا بی بی سی منڈو کو اپنی قید کے دنوں کے واقعات بتاتے ہیں:

اس سے پہلے کہ وہ ہمیں جیل بھیجتے، چی گویرا آگیا۔ اس نے ہم سے پوچھا کہ کیوبا چھوڑنے سے پہلے ہمارا پیشہ کیا تھا۔ وہ بہت پرسکون نظر آتا تھا، لیکن میں نے ہمیشہ سوچا تھا کہ کسی بھی لمحے وہ مجھے گولی مار سکتا ہے۔

انہوں نے ہمیں کئی لاریوں میں منتقل کیا۔ ان میں سے ایک میں بہت بھیڑ تھی۔ اسے سیل کردیا گیا تھا۔ میرے نو ساتھی اس گاڑی کے اندر ہی دم توڑ گئے۔

میری لاری کی کھڑکیاں کھولی ہوئی تھیں۔ جب ہم منتقل ہورہے تھے تو لوگوں نے گلیوں میں ہمارے خلاف نعرے لگائے: ‘کرائے کے ضمیر فروش! ہم تمھیں پھانسی دیں گے!’

بعد میں ہوانا میں ہمیں کاسٹیلو ڈیل پرنسپے جیل میں بند کردیا گیا۔ ہمارے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا گیا۔

جیل کے کچھ خانوں میں زیادہ ہجوم تھا اور آپ کو فرش پر سونا پڑا تھا۔

سگریٹ لینا بہت مشکل تھا۔ کچھ قیدی ساتھیوں کے پھینکے ہوئے سگریٹ کے آخری حصے استعمال کرکے تمباکو نوشی کرتے تھے۔

جب ہمیں صحن میں چلنے کے لیے باہر لے جایا جاتا تو، اگر ہم ایک مقررہ رفتار کو برقرار نہیں رکھتے تو ایک گارڈ ہمیں زور سے ڈنڈے مارتا۔

جیل کے ہر برآمدے میں ڈیڑھ سو کے قریب قیدی تھے، لیکن ہم سب کے لیے صرف ایک ٹوائلٹ تھا۔

ہمیں کافی کا ایک کپ دیا جاتا جو حقیقت میں گندا پانی تھا۔ کپ ہمارے حوالے کرنے سے پہلے کئی بار وہ اس میں تھوک دیتے۔ ہمیں جو روٹی دی جاتی تھی وہ چٹان کی طرح سخت ہوتی تھی۔ وہ اسے زمین پر پھینک دیتے۔ اسے چبانے کے لیے آپ کو اُسے پانی میں ڈبونا پڑتا تھا۔ کھانا بہت کم ملتا تھا۔

Short presentational grey line

قیدیوں کا تبادلہ

لوپیز ڈی لا کروز نے تین ماہ قیدِ تنہائی میں بسر کیے کیونکہ انھوں نے فرار ہونے کی کوشش کی تھی اور انھیں ایک خطرناک قیدی نامزد کیا گیا تھا۔

اسی وجہ سے انھیں قیدیوں کو کیوبا سے رہائی کے بعد واپس میامی لے کر جانے والے آخری جہاز پر بھیجا گیا تھا۔

یہ سنہ 1962 میں کرسمس کا موقع تھا۔

کینیڈی نے کاسترو کے ساتھ بات چیت کے لیے ایک مشہور وکیل بھیجا تھا۔

ان کا نام جیمز بی ڈونوون تھا۔ وہ فروری سنہ 1962 میں امریکہ اور سوویت یونین کے مابین قیدیوں کے تبادلہ کے انتظامات کر چکے تھے۔

James Donovan

قیدیوں کے رشتہ داروں اور حکام نے دونوں ملکوں کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے لیے امریکہ کے معروف وکیل جیمز ڈونوون کی مدد حاصل کی تھی۔

امریکی وکیل 30 اگست سنہ 1962 کو پہلی بار ہوانا گئے۔ اگلے دن انہوں نے کیوبا کے رہنما سے چار گھنٹے کی طویل ملاقات کی۔

اگلے مہینوں کے دوران ڈونوون نے کاسترو کے ساتھ متعدد بار بات چیت کی۔

پیٹر کورن بلو بتاتے ہیں کہ بات چیت انسانی مسئلے کے بجائے ‘نقصان کی تلافی کے لیے معاوضے’ کے عمل کے طور پر شروع ہوئی۔ ‘کاسترو نے شروع سے ہی یہ مطالبہ کیا تھا، کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ کیوبا کو حملے سے ہونے والے نقصانات کی تلافی کی جائے۔’

قیدیوں کی رہائی سے کئی ماہ قبل قیدیوں کو غداری کے الزام میں عوامی مقدمے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

The televised trial

ان قیدیوں نے ٹیلی ویژن پر نشریات کے دوران اس بات کا اقرار کیا کہ سی آئی اے اس فوجی کارروائی میں شامل تھی۔

بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ انھیں فائرنگ سکواڈ کے سامنے کھڑا کر کے موت کی سزا سنائی جائے گی۔ لیکن انہیں 30 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ ان کی رہائی کے لیے مجموعی طور پر چھ کروڑ بیس لاکھ ڈالر کا معاوضہ ادا کرنا ہوگا۔

دسمبر سنہ 1962 کے آخر تک، ڈونوون نے کاسترو سے کیوبا کے عوام میں تقسیم کی جانے والی ادویات اور خوراک کی صورت میں پانچ کروڑ تیس لاکھ ڈالر کے عوض ان قیدیوں کی رہائی پر اتفاق کیا۔

جب یہ ادویات اور خوراک 23 دسمبر کو کیوبا پہنچنے لگیں تو پین امریکن ایئر لائنز کی پہلی پروازوں نے قیدیوں کو میامی لے جانا شروع کیا، جہاں ڈنر کیو آڈیٹوریم میں دس ہزار افراد نے ان کا استقبال کیا۔

اسی دوران کیوبا نے ‘جیرون ساحل پر دوسری فتح’ کا جشن منایا، کیونکہ انھوں نے ‘معاوضے کی جنگ’ بھی جیتی تھی۔

لوپیز ڈی لا کروز کو وہ آخری پرواز یاد ہے۔ انھوں نے ہوائی جہاز کی کھڑکی سے باہر دیکھا اور یہ سوچا کہ اب ان کا اپنے ملک کیوبا واپس آنا بہت مشکل ہوگا۔

لوپیز سالدنیا نے کہا کہ ‘لوگوں نے کہا کہ انہوں نے بچوں کی خوراک کے بدلے ہمارا تبادلہ کیا، لیکن ہمیں ذلت محسوس نہیں ہوئی۔ ہماری رہائی کی وجہ سے کیوبا کو بہت سے کپڑے، کھانا اور ادویات ملیں جو حکومت نے وہاں تقسیم کی تھیں۔’

ان دونوں میں سے کوئی بھی جلاوطنی کے بعد اب تک کیوبا نہیں گیا۔

Short presentational grey line

یہ ہمیشہ ہمارے دشمن رہیں گے’

سابق جلا وطن جنگجو جارج اورٹیگا بی بی سی منڈو کو بتاتے ہیں:

کیا میں ایک دن اس قابل ہوسکوں گا کہ ان میں سے کسی ایک کے ساتھ بیٹھوں اور ان کے ساتھ مل کر شراب پی سکوں؟ میرے خیال میں میرے وہ تمام ساتھی جو اس حملے کے دوران ہلاک ہوئے یا زخمی ہوئے وہ ہماری غلطیوں کی وجہ سے ان مشکلات کا شکار ہوئے یا مارے گئے تھے۔

مذاکرات ہونے چاہییں، ہاں۔ کیوبا ہمیشہ بات چیت کے لیے تیار رہتا ہے۔ لیکن شرائط ایک جیسی ہونی چاہییں۔ اگرچہ ابھی (امریکی کی جانب سے تجارت پر) پابندیاں عائد ہیں، اس لیے بات چیت نہیں ہوسکتی۔

بریگیڈ کے لوگ بھاڑے کے سپاہی ہیں کیونکہ انہوں نے اپنے آپ کو ایک ایسے ملک کو بیچا جس نے انہیں مزدور بنا کر رکھا ہوا ہے۔ وہ ہمیشہ ہمارے دشمن رہیں گے۔

انہوں نے ایسا ہونے سے کبھی نہیں روکا۔ آج تک وہ لوگ میامی میں بیٹھے (امریکیوں کے ساتھ مل کر) ہمارے وطن کے خلاف ناکہ بندی کی حمایت کرتے ہیں۔

یہ سچ ہے کہ سابق امریکی صدر اوباما کچھ عرصہ قبل کیوبا آئے تھے اور انہوں نے بات چیت کا مطالبہ کیا تھا۔ لیکن انہوں نے تاریخ کو فراموش کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔

تاریخ کو کبھی فراموش نہیں کیا جاتا۔ تاریخ ہمیشہ ہمارے ساتھ موجود رہتی ہے۔

Short presentational grey line

کیوبا میں غدار ہیں، میامی میں ہیرو

کیوبا میں بے آف پگز والے حملے کو ان غداروں کی جانب سے جارحیت سمجھا جاتا ہے جنھوں نے اپنے ضمیر کو امریکہ کے ہاتھ فروخت کردیا تھا۔

ہر سال 19 اپریل کو فوجی پریڈ کے ساتھ، کیوبا کی حکومت کے بقول، ‘سامراج کی لاطینی امریکہ میں پہلی شکست’ کے جشن کی تقریبات منائی جاتی ہیں۔

Cubans in the island celebrate the victory at the Bay of Pigs,

ہر سال 19 اپریل کو کیوبا کا ہر شہری بے آف پگز میں کامیاب دفاع کا ‘بھاڑے کے فوجیوں پر فتح’ کا جشن مناتا ہے۔

دوسری جانب صرف نوے میل کے فاصلے پر لوگوں کے احساسات بالکل مخلتف ہیں۔

میامی کی سڑکوں اور گلیوں میں یہ بات ہوتی ہے یا احساس پیدا ہوتا ہے کہ نہ جانے کیا کچھ ہوسکتا تھا۔

یادگاریں، میوزیم اور پارکس بریگیڈ 2506 کے ہیروز کی یاد دلاتے نظر آتے ہیں۔

آج 60 سال بعد زندہ بچ جانے والے اس بارے میں بات کرنا پسند نہیں کرتے ہیں کیونکہ انہوں نے حملے کے دوران دوسری طرف کے پتہ نہیں کتنے کیوبنز ہلاک کیے تھے۔

لوپیز ڈی لا کروز کا کہنا ہے کہ ‘حقیقت یہ ہے کہ میں اس پر بات نہیں کرنا چاہوں گا۔ ہمیں معلوم تھا کہ ہم جنگ لڑنے جارہے ہیں، لیکن کوئی بھی کبھی آپ کو یہ نہیں بتائے گا کہ ہمیں لوگوں کو مارنے میں مزا آیا تھا۔ ہم سب بھائی تھے۔’

لوپیز سالڈنیا نے اصرار کرتے ہوئے کہا کہ ‘آپ مارنے یا مرنے کے لیے جاتے ہیں۔ آج یہ بات مختلف معلوم ہوتی ہے۔ یہ سچ ہے کہ ہم سب کیوبن تھے۔ لیکن اس وقت ہم نے صرف کیوبا کو ان تمام ہولناک واقعات سے آزاد کرنے کا سوچا تھا۔’

بریگیڈ 2506 کے ایک سابق فوجی اب بھی اپنی زندگی میں کیوبا کی حکومت کے زوال کے خواب دیکھتے ہیں۔

وہ سمجھتے پیں کہ دو امریکی صدر ہیں جن کو معاف کرنا مشکل ہے: کینیڈی اور اوباما۔

لوپیز ڈی لا کروز نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ ‘کینیڈی یہ کر ہی نہیں سکتا تھا۔ یہ حماقت کا ایک عمل تھا۔ اگرچہ وہ امریکہ کی حفاظت کرنا چاہتا تھا، لیکن یہ دیکھنا آسان تھا کہ وہ اس میں ملوث تھے۔ برسوں بعد میں اس کے فیصلے کو سمجھ سکتا ہوں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ دھوکہ ہوا تھا اور انھیں مایوس کیا گیا تھا۔’

بریگیڈ کے سابق ممبران اوباما پر تو اور بھی زیادہ شدید تنقید کرتے ہیں۔

لوپیز سالڈنیا نے زور دے کر کہا کہ ‘وہ کاسترو حکومت کی خوشنودی حاصل کرنا اور اس سے بات چیت کرنا چاہتے تھے، لیکن وہ نادان تھے۔ انھوں نے کیوبا میں کچھ بھی بدلے بغیر اُس کے لیے دروازے کھول دیے۔ یہ ایک تباہ کن پالیسی تھی۔’

فلوریڈا میں کیوبا کی جلاوطن کمیونٹی کا کافی سارا حصہ اب بھی اس جزیرے کے خلاف سخت گیر پالیسی کی حمایت کرتا ہے۔ وہ سابق بریگیڈ ممبروں کو جلاوطنی کے ہیرو کی طرح پوجتے ہیں۔

لوپیز سالڈنیا نے کہا کہ ‘ہمیں زبردست اطمینان ہے۔ ہم نے اپنا فرض پورا کیا حالانکہ ہم اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے تھے۔ یہاں میامی میں لوگ ہماری بہت عزت کرتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ خود ہم سے متعدد بار ملے تھے۔ درحقیقت ستمبر سنہ 2020 میں انھوں نے ہمیں وائٹ ہاؤس میں مدعو کیا تھا۔ ہمیں بہت فخر ہے۔’



Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp