باجوہ ڈاکٹرائن سے لبیک ڈاکٹرائن تک


وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ روز ملتان میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے واضح کیا کہ حرمت رسولﷺ کے لئے ان کی پالیسی تحریک لبیک کے طریقہ سے بہتر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس مسئلہ پر کسی ایک ملک میں احتجاج کرنے اور اپنی حکومت پر دباؤ ڈالنے سے کامیابی نہیں ملے گی بلکہ سب مسلمان ملکوں کو مل کر مغربی ممالک سے بات کرنا پڑے گی تاکہ توہین مذہب اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کے معاملات پر پالیسی تبدیل کروائی جاسکے۔ انہوں نے تمام مسلمان ممالک کو اس مقصد سے اکٹھا کرنے کا وعدہ بھی دہرایا ہے۔

یہ غیر واضح ہے کہ حکومت اس معاملہ میں عمران خان کی بیان کردہ پالیسی میں کس حد تک کامیاب ہوتی ہے اور دیگر اسلامی ممالک کہاں تک یورپ اور دیگر مغربی ملکوں میں آزادی رائے کو مذاہب کا تمسخر اڑانے کے لئے استعمال کرنے کے رجحان کو تبدیل کروانے میں پاکستان کے ساتھ مل کر ایک نکاتی ایجنڈے پر کام کرنے کے لئے تیار ہوں گے۔ ماضی کے تجربات کی روشنی میں دیکھا جائے تو مسلمان ملکوں کا باہمی اشتراک و اتحاد بیانات تک محدود ہوتا ہے۔ کسی اعلامیہ پر دستخط کرنے والے ممالک بھی اسے اپنی پالیسیوں میں نافذنہیں کرتے۔ یورپ میں توہین مذہب کے خلاف اگر تن تنہا پاکستان کی کوششیں کافی نہیں ہوسکتیں تو اس بات کا امکان بھی نہیں کہ تمام مسلمان ممالک اس معاملہ پر کسی ایسی حکمت عملی پر متفق ہوجائیں، جس کی وجہ سے مغربی ممالک ان کی بات زیادہ غور سے سننے پر آمادہ ہوں۔

یوں یورپ کا کوئی ملک بھی مسلمان حساسیات کے بارے میں غیر ذمہ دارانہ رویہ اختیار نہیں کرنا چاہتا کیوں کہ ان تمام ممالک میں مسلمان بڑی تعداد میں آباد ہیں جو وہاں کی سیاست و معیشت پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ ممالک آزادی رائےکے بنیادی اصول پر کوئی سمجھوتہ کرنے پر بھی تیار نہیں ہیں کیوں کہ ان کے ہاں اسے مروج جمہوریت کی بنیاد سمجھا جاتاہے۔ اس حوالے سے مباحث بھی ہوتے رہتے ہیں اور کسی نہ کسی حد تک مسلمانوں اور مقامی یورپی لیڈروں میں اتفاق رائے بھی ہوجاتاہے لیکن جب تشدد یا دہشت گردی کا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو بات دلیل اور حق سے بڑھ کر قانون شکنی اور انسانی جان کی حفاظت تک جا پہنچتی ہے۔ پاکستان میں تحریک لبیک کے زیر اہتمام فرانس کے خلاف کئے جانے والے احتجاج میں اسی بنیادی نکتہ کو فراموش کیا جاتا ہے۔ اسی لئے بڑی سادگی سے یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ اگر فرانس کے سفیر کو ملک سے نکال دیا جائے تو فرانس کے ’ہوش ‘ ٹھکانے آجائیں گے اور وہاں پر آئندہ گستاخانہ خاکے شائع نہیں ہوں گے۔ اور دوسرے ممالک بھی فرانس کے ’حشر ‘ سے عبرت پکڑیں گے۔

یہ گمان اس بنیاد پر استوار ہے کہ پاکستان دنیا کے اہم ممالک کے لئے ناگزیر ہے اور کوئی بھی ملک اس کے ساتھ تعلقات خراب کرنے کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتا۔ یہ تفہیم دراصل خود توصیفی کے اس مزاج کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے جو پاکستانی میڈیا اور کسی حد اسکولوں اور کالجوں کے سلیبس میں کتابوں کے ذریعے راسخ کیا گیا ہے۔ پاکستان اور پاکستانیوں کو عظیم اور شاندار قوم ثابت کرنے کے جوش میں ان کوتاہیوں اور کمزوریوں کی نشاندہی نہیں کی جاتی جن کی وجہ سے پاکستان کو نہ صرف اندرون ملک نت نئے مسائل کا سامنا ہے بلکہ دنیا کے متعدد فورمز پر بھی اس کے سفارت کاروں کو مشکلات درپیش رہتی ہیں۔ وزیر اعظم نے تحریک لبیک کے احتجاج کے دوران قوم سے خطاب میں کسی حد تک اس صورت حال کا احاطہ کرنے کی کوشش کی تھی اور بتایا تھا کہ فرانسیسی سفیر کو نکالنے سے فرانس کو تو کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن سارے یورپ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات خراب ہوجائیں گے جس کے نتیجہ میں ملکی معیشت پر جان لیوا اثرات مرتب ہوں گے۔ روپے کی مالیت کم ہوجائے گی، بیروزگاری بڑھ جائے اور صنعتی سرگرمی ماند پڑ جائے گی۔

افسوس کی بات ہے کہ وزیر اعظم قوم کو یہ نصیحت کرنے کے بعد اپنے وزیروں کے ذریعے تحریک لبیک کے ساتھ مذاکرات پر مجبور ہوئے تاکہ لاہور کے یتیم خانہ چوک میں دھرنا اور سیکورٹی فورسز کے ساتھ جاری تصادم کو کسی خوں ریزی کے بغیر ختم کروایا جاتا۔ اس بات چیت میں حکومتی نمائندے تحریک لبیک کی قیادت کو اس بات پر آمادہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے کہ وہ فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کے مطالبے سے پیچھے ہٹ جائے اور دیگر معاملات پر رعایت لے کر احتجاج ختم کردے۔ اس کے برعکس تحریک لبیک فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کا معاملہ قومی اسمبلی میں زیر بحث لانے کےمطالبے پر قائم رہی بلکہ اپنے امیر سعد حسین رضوی اور دیگر لیڈروں کی رہائی اور مقدمات کی واپسی کے معاملہ میں انتظار کرنے پر آمادہ ہوگئی لیکن حکومت کو مجبور کیا کہ وہ فوری طور سے قومی اسمبلی کا اجلاس بلائے اور اس میں ایسی قرار داد منظور کروائے جس میں فرانسیسی سفیر کو ملک سے نکالنے کے سوال پر قومی اسمبلی میں بحث کا اعتراف کیا جائے۔

حکومت نے حکمران جماعت کے رکن کی ایک نجی قرار داد کے ذریعے تحریک لبیک کا یہ مطالبہ تو پورا کردیا اور لاہور میں جاری تصادم بھی فی الوقت ختم ہوگیا لیکن یہ سوال بدستور جواب طلب ہے تحریک لبیک کا مطالبہ کیسے پورا ہوگا اور فرانس کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کس حد تک سڑکوں پر ہی طے کئے جائیں گے۔ حتی کہ فی الوقت تو یہ معاملات ملک کے سب سے معتبر ادارے قومی اسمبلی میں حل ہونے کا امکان بھی نہیں۔ مسلم لیگ (ن) ایوان میں منظور کی گئی قرار داد پر قومی اسمبلی کے اجلاس میں بحث کرنا چاہتی ہے تاکہ احسن اقبال کے بقول ’ختم نبوت‘ پر ارکان اسمبلی اپنے جذبات کا اظہار کرسکیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی اس معاملہ پر بحث کے ذریعے یہ جاننا چاہتی ہے کہ حکومت نے احتجاج ختم کروانے کے لئے تحریک لبیک کی کون سی ناجائز شرائط تسلیم کی ہیں اور کس حد تک ملکی مفادات کو داؤ پر لگایا ہے۔ گزشتہ ہفتے کے دوران ہونے والے اجلاس میں جب تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی بھی اپوزیشن کے احتجاج میں شامل ہوگئے تو ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کو اجلاس غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کرنا پڑا۔

 یہ معاملہ آئندہ کسی بھی اجلاس میں زیادہ شدت کے ساتھ سامنے آئے گا۔ اسی لئے وزیر اعظم مختلف طریقوں سے عوام کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ان کا طریقہ کار تحریک لبیک کے احتجاج کرنے اور دھرنے دینے جیسے طریقوں سے بہتر ہے۔ اسی حوالے سے انہوں نے ملتان کی تقریر میں بھی خیالات کا اظہار کیا ہے۔ یہ تقریر اس خوف کی علامت بھی ہے کہ تحریک لبیک کو لعدم قرار دینے کے باوجود اس کے ساتھ معاہدہ کر کے اور فرنسیسی سفیر کو ملک سے نکالنے کے مطالبے کو ایک قرار داد کی صورت میں قومی اسمبلی کے ریکارڈ کا حصہ بنا کر حکومت نے تحریک لبیک کی طاقت اور حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کی صلاحیت کو تسلیم کیا ہے۔ مستقبل میں تحریک لبیک مسلسل حکومت وقت کے لئے خطرہ بنی رہے گی۔ عمران خان خود اسلام اور مسلمانوں کے چیمپئن بن کر دراصل تحریک لبیک کی ’عوامی اپیل‘ کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس بات کا امکان نہیں کہ وہ اس میں کامیاب ہوسکتے ہیں کیوں کہ وزیر اعظم اس اہم اور حساس سوال پر تمام سیاسی پارٹیوں کو اعتماد میں لینے اور مذہب کے نام پر احتجاج کے دوران توڑ پھوڑ اور تشدد کے کلچر کو ختم کرنے کے لئے کوئی قومی حکمت عملی بنانے پر آمادہ نہیں ہیں۔

ان حالات میں ملک میں اب باجوہ ڈاکٹرائن کی بجائے لبیک ڈاکٹرائن کا چرچا ہے اور لوگ سانس روکے یتیم خانہ چوک میں ٹی ایل پی کے مرکز سے سامنے آنے والی نئی ہدایات اور ملک بھر میں اٹھنے والے کسی نئے طوفان سے خوفزدہ ہیں۔ یادش بخیر نومبر 2017 میں تحریک لبیک کے مرحوم بانی خادم حسین رضوی کی سرکردگی میں فیض آباد چوک میں دھرنا دیا گیا تھا کیوں کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت پر ارکان اسمبلی کے حلف نامہ میں ختم نبوت پر ایمان کے الفاظ میں رد و بدل کا الزام تھا۔ اس احتجاج سے حکومت تو تبدیل نہیں ہوئی لیکن دھرنے میں خفیہ اداروں کی دلچسپی، میڈیا کو ملنے والی ہدایات اور اسے ختم کروانے میں فوجی افسروں کی ثالثی سے یہ ضرور طے ہوگیا کہ حکومت کن شرائط پر کام کرے گی اور مستقبل کا سیاسی منظر نامہ کیا ہو گا۔

اسی دوران پاک فوج کے سربراہ قمر جاوید باجوہ کی ڈاکٹرائن کا چرچا بھی شروع ہوچکا تھا جس کے بارے میں کافی حد تک یہ بے یقینی رہی کہ اس کا حقیقی مقصد کیا ہے۔ جنوری 2018 اس وقت کے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے وضاحت کی کہ اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ آرمی چیف پاکستان میں امن چاہتے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’باجوہ ڈاکٹرائن سے ملک میں پائیدار امن قائم ہوگا‘۔ اس کےساتھ ہی انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ریاستی اداروں میں تعاون دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنے کے لئے اہم ہے۔ باجوہ ڈاکٹرائن کے سایے میں اسی سال جولائی کے انتخابات میں تحریک انصاف سب سے بڑی پارٹی کے طور پر سامنے آئی اور اگست میں قومی اسمبلی نے عمران خان کو وزیر اعظم چن لیا۔ یوں اپوزیشن کو نامزد وزیر اعظم کا نعرہ ملا تو اداروں میں تعاون کے ایک نئے عہد کا آغاز بھی دیکھنے میں آیا۔ عمران خان اسے ایک پیج کی حکمت عملی قرار دیتے رہے ہیں یعنی ملک کی سیاسی حکومت اور عسکری قیادت میں کوئی اختلاف نہیں ہے اور وہ مل جل کر مسائل حل کرتے ہیں۔

حال ہی میں تحریک لبیک کے احتجاج اور حکومت کی پسپائی کے بعد اب وزیر اعظم کی طرف سے مسلسل دفاعی مؤقف اختیار کرنے کے پورے عمل میں یہ واضح نہیں ہو پا رہا کہ اداروں کے درمیان تعاون اور ایک پیج کی حکمت عملی میں دوسرا فریق کیا سوچ رہا ہے۔ وزیر اعظم کی بے چینی اور قومی اسمبلی میں بحث سے گریز کی صورت سے تو یہی لگتا ہے کہ ملک پر اب باجوہ ڈاکٹرائن کی بجائے لبیک ڈاکٹرائن کی عمل داری ہے جو امن کی بجائے تصادم اور جینے کی بجائے مارنے پر یقین رکھتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments