برانڈز کی شاپنگ: چوہا دوڑ میں وقت نہ ضائع کیجیے


ابھی کچھ سال تک سیر و تفریح سے مراد کسی پارک، تاریخی مقام یا میوزیم کی سیر سمجھا جاتا تھا۔ بچے چڑیا گھر کی سیر کی ضد کرتے اور بڑے ساحل سمندر یا کسی جھیل کے کنارے وقت گزارنے سے محظوظ ہوا کرتے۔ بدلتے وقت نے جہاں اور بہت کچھ بدلا تفریح کے ڈھنگ اور مطالب بھی بدلنے لگے۔ بڑھتی ہوئی آبادی، تفریحی مقامات کی ابتری و نایابی نے عام آدمی کو گھٹن کا شکار کیا اور اس خلاء کو خریداری کلچر نے پورا کرنے کی ٹھان لی۔ اس ضمن میں عوامی اشتہاء اور ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے نئے بزنس ماڈلز کے تحت متبادل تفریح کے نظریے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے بلند و بالا، وسیع و عریض جگمگاتے شاپنگ سینٹرز اور مالز کی ”مشروم گروتھ“ ہونے لگی۔

نت نئے برانڈز کے دل لبھاتے اشتہارات، فیشن پریڈز، گرینڈ اوپنگز ہیں کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لیتے۔ آنکھوں کو خیرہ کر دینے والی اشیاء سے بھرے پلازے اور شاپنگ آرکیڈز، ملٹی سٹوری پارکنگ اور دیگر جدید سہولیات سے لیس بازار خریداروں کے پسندیدہ سپاٹ بنتے چلے گئے۔ چونکہ آبادی کی اکثریت نچلے متوسط یا کم آمدنی والے افراد پر مشتمل ہے جن کے لئے تفریحی سرگرمیاں کسی لگژری سے کم نہیں ، ان کے لئے مذکورہ خریداری مراکز دل کی حسرت مٹانے کا ذریعہ بھی ہیں ۔ پرسکون صاف ستھرے اور محفوظ ماحول میں وقت گزاری کا بہانہ بھی۔

اس دوران کسی خریداری کی سکت نہ ہونے کے باوجود بھی ”ونڈو“ شاپنگ کے مزے لئے جا سکتے ہیں۔ شاپنگ مالز میں ہر قسم کی خریداری اور تفریح کے مواقع ایک ہی چھت کے نیچے دستیاب ہوتے ہیں۔ بچوں کے لئے پلے ایریا کی سہولت، کھانے پینے کے ملٹی نیشل ریستورانوں کے علاوہ دیسی چٹخاروں سے لطف اندوز ہونا بھی اس تفریحی پیکج کا لازمی حصہ سمجھا جاتا ہے۔

کنزیومر ازم کے بنیادی اصولوں کے عین مطابق فرد کو صارف ہونے کا شدت سے احساس دلانے اور خریداری کلچر کو بڑھاوا دینے میں میڈیا اور اشتہاری ایجنسیوں کے کردار سے کون انکار کر سکتا ہے۔ انہی کی شب و روز محنت سے سجے دھجے خریدار سرگرداں و پریشاں سیل کی قطاروں میں لگے نظر آتے ہیں۔ مذکورہ سٹورز، گروسری آئٹمز سے لے کر ہر قسم کی خریداری کی ایک لمبی فہرست تھامے صارف کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے نت نئی آفرز کے ذریعے سارا سال خوب منافع کماتے ہیں۔

خواتین کی اکثریت مشہور برانڈز کے ملبوسات و دیگر اشیاء کی خریداری میں مردوں کی نسبت کہیں زیادہ پرجوش اور سرگرم دکھائی دیتی ہیں۔ درحقیقت اکثر ملازمت پیشہ اور بہت سی گھریلو خواتین کی زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ ”میں کیا پہنوں؟“ ہے۔ ہمہ وقت منفرد و ممتاز نظر آنے کا چیلنج ہمارے حواس شل کیے ہوئے ہے ، لہٰذا خریداری کے شوق کو تفریح سے خلط ملط کر کے ہمارا معاشرہ ایک تھکا دینے اور کبھی نہ ختم ہونے والی چوہا دوڑ کا حصہ بن چکا ہے۔ اس سے بھی زیادہ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ اس پرمشقت مشق کے بعد بھی ان کی خوشی و انبساط کا دورانیہ نہایت مختصر اور بالآخر مایویسی و بے چینی پر منتج ہوتا ہے۔

مالز کلچر کے پھیلاؤ نے ہر طبقہ زندگی کو اپنی جانب متوجہ کیا ہے، جو پہلے فیشن ایبل، جدت پسند لوگوں کا شغل تھے وہ اطوار اب روایتی و مذہبی طبقے میں بھی یکساں طور پر رائج ہو چکے ہیں۔ کبھی قناعت و سادگی کے اصولوں کا وعظ دینے والے علماء کرام بڑے کر و فر سے اپنے برانڈز کی لانچنگ سیریمنیز کا انعقاد کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

اس میں کوئی عیب ہے نہ قباحت کہ بدلتے وقت کے ساتھ قدم ملا کر چلا جائے، نئے زمانے کی ضروریات سے ہم آہنگ ہو کر زندگی خوشگوار و دلچسپ بنانے کی تگ و دو میں کوئی برائی نہیں۔ معاشی سرگرمیوں کا گھومتا پہیہ ملکی ترقی کے اشاریے بڑھانے میں بھی کچھ نہ کچھ مددگار ثابت ہوتا ہے، مگر یہ سب اتنا سیدھا سادہ بھی نہیں جتنا دکھائی دیتا ہے۔ اس ضمن میں کچھ دیر رک کر سوچنے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ بہتر اور اپ ٹو ڈیٹ لائف سٹائل اپنانے کی دھن میں بے دریغ خرچ کرنا اور ہر آن نیا دکھنے جیسی بے جا فکروں میں گھلتے جانا کہاں کی عقلمندی ہے؟

ہائے میرے پاس تو موقع کی مناسبت سے موزوں لباس و لوازمات ہی نہیں ہیں! یہ لباس تو میں اس سے پیشتر بھی استعمال کر چکی ہوں! یہ خوف اور بے سکونی کی علامات ہیں۔ دیکھنے والوں کے نکتہ چینی و دزدیدہ نظروں کا سامنا کرنے کی جرأت کا نہ ہونا آپ میں شخصی اعتماد کی کمی کا پتہ دیتا ہے۔ دلکش و خوبصورت نظر آنا ہر انسان کا حق ہے اور اسی کے ساتھ ساتھ اپنے حق کو استعمال کرنے کے اصول و ضابطے بھی مذکورہ فرد نے خود ہی طے کرنے ہیں۔

ٹھیک ہے کہ آپ افورڈ کر سکتے ہیں، آپ کے مالی وسائل آپ کے شوق پورا کر سکتے ہیں مگر بے لگام خواہشات کے اڑیل گھوڑے پر سوار آپ بہت سے دوسروں کو بے وجہ افسردگی و مایوسی کا شکار بنا رہے ہیں۔ ہمارا سماج یوں بھی طبقاتی طور پر تقسیم اور عدم مساوات کا شکار ہے ۔ اس کی ’فالٹ لائنز‘ کو مزید بڑھاوا مت دیجیے۔ تفریح کے صحت مند چلن اپنائیے، سمارٹ اور پائیدار شاپنگ کو ترویج دیجیے۔ یوں بھی ترقی یافتہ دنیا “sustainable” اور“ minimalist ”شاپنگ کے تصور کو اپنا رہی ہے۔ آپ بھی اپنی محنت کی کمائی درست ترجیحات پر صرف کیجیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments