ہماری چھت کا آرکیٹیکٹ


میں اپنے آبائی گھر میں ہوں۔ اگلے ہفتے بارش کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ میں نے جوں ہی اپنے ایک دوست سے تذکرہ کیا۔ اس کے چہرے پر پریشانی و تفکرات کے سائے پھیل گئے۔ میں حیران ہوا کہ اسے کیا ہوا ہے۔ وہ بولا کہ گندم کی فصل پک چکی ہے۔ کٹائی زوروں پر ہے۔ بارش کی ہلکی چھینٹیں بھی فصل کا وزن، شکل، رنگ اور کوالٹی تبدیل کر دیں گیں۔ فصل گر گئی تو نقصان ہے۔

میرے لئے تمام گرم جوشی اور خوشی کا اظہار بدل گیا۔ میں نے اگلے ہی لمحے یہ سوچا تھا کہ بارش کے معانی سب کے لئے مختلف ہیں۔ کچی چھت اور پکی چھت پر ہی بارش کا انداز بدل جاتا ہے۔ ٹین کی چھت پر گرتی بارش اور سرکنڈوں کی کٹیا پر بارش اپنی آواز بدل لیتی ہے۔

جو لوگ کھیتوں میں تربوز، خربوزے، کھیرے، ٹماٹر کی فصل اگاتے ہیں تو وہ وہاں کھیت کے درمیان سرکنڈوں کی کٹیا بنا لیتے ہیں۔ یہ دھان کی فصل سے بچ جانے والی ”پرالی“ یعنی باقیات سے بھی بنائی جاتی ہے۔ کسان اس میں رات گزارتا ہے۔ تیز بارش میں پانی اس سے رسنا اور ٹپکنا شروع ہوتا ہے تو اس کی بوندیں برداشت کرتا ہے۔ وہ بوندوں کی تکلیف اور چہرے پر وار شدت سے برداشت کرتا ہے۔ ایک وقت آتا ہے کہ پانی اس کٹیا میں چارپائی کے پائے کچھ انچ تک ڈبو دیتا ہے۔ کسان اسی چارپائی پر بیٹھا اپنی فصل کی رکھوالی کرتا ہے۔ سانپ بچھو بھی کسان سے دور بھاگتے ہیں۔ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ کسی کو الٹا کرے گا اور وار کر کے انہیں مار دے گا۔

اسی طرح کچے مکانوں میں بارش کے معانی کچھ اور ہوتے ہیں۔ ٹپکتی چھتوں تلے سلور، پیتل یا لوہے پلاسٹک کے برتن رکھے جاتے ہیں۔ ٹپ ٹپ کی آواز ان ہی چھتوں کے مکینوں کے کی سماعتوں کے لئے تخلیق ہوئی تھی۔ یہ ان کانوں کی بارش میں مانوس آواز ہے۔ ساون کی جھڑی اگر دو چار دن بڑھ جائے تو یہ کچی چھتیں پانی کا مقابلہ نہیں کر پاتی ہیں۔ سہمی ہوئی مائیں چھت کی طرف دیکھتی ہیں۔ معصوم بچوں کو گود میں لٹا کر ساری رات جاگتی ہیں۔ پرنالوں اور نالیوں سے تنکے پتے نکالے جاتے ہیں تاکہ دیوار کے ساتھ پانی نہ کھڑا ہو۔

کچی چھت کے بعد ایک چھت آہنی گارڈر اور لکڑی سے بنی ہوتی ہے۔ لکڑی اور لوہے کی اس چھت پر گرتی بارش  مکینوں کے لئے نسبتاً کم پریشانی کا باعث ہوتی ہے۔ چھت سے پانی پھسل جاتا ہے۔ کچی اور پکی چھتوں کے درمیان ایک چھت ٹی آئرن کی بھی ہوتی ہے۔ یہ کچھ مضبوط چھت ہے۔

اس کے بعد سیمنٹ سے بنی، لینٹر والی چھت ہے۔ مکین بارش انجوائے کرتے ہیں۔ پانی ٹھہرتا ہی نہیں۔ نکاسی کا بہترین نظام۔ کھڑکیوں سے گرتی بوندوں کا نظارہ۔ گرم کافی کا مگ تھامے بارش کی نغمگی کو سننا مسحور کن۔ سماعتیں روح تک سکون محسوس کریں۔ ہوا کا جھونکا جب چہرہ بھگوئے تو سرشاری کا احساس روح کو گرمائے۔ یہ بارش نعمت لگے۔ باراں رحمت محسوس ہو۔

ایک چھت وہ بھی ہے جو نیلی ہے۔ جو دھوئیں سے کالی پیلی ہو چکی ہے۔ جس کے مکین بارش، دھوپ، آندھی ہوا میں اٹھ کر کھڑکی نہیں بند کر سکتے۔ جو ونڈو بلائنڈ نہیں آن کر سکتے۔ جو چھت ٹپکنے پر متفکر نہیں خوف زدہ ہوتے ہیں۔ یہ بھی سوچتے ہیں کہ بارش میں کس جگہ جائیں گے۔ پارک کے شیڈز کے نیچے پناہ لیں گے یا پل ان کو جگہ دے گا۔ یقین مانیں یہ لوگ بھی ہیں۔ آپ آزادی چوک کے اقبال پارک میں مینار پاکستان کے سائے میں گھاس پر سوئے سینکڑوں لوگوں کو دیکھیں۔

آپ فٹ پاتھ پر لیٹے ان گنت پردیسی مزدوروں کو دیکھیں۔ اسلام آباد کی سڑکوں، چوراہوں، بری امام، میلوڈی، کراچی کمپنی، پشاور موڑ، ستارہ مارکیٹ اور متعدد جگہوں پر دیکھیں تو سینکڑوں بے گھر لوگ سردیوں تک میں ٹھنڈی زمین پر لیٹے نظر آئیں گے۔ کراچی کے صدر، کالا پل، کینٹ اسٹیشن، شاہراہ فیصل اور بہت سی جگہوں پر میں نے بہت سے جسموں کو زمین سے لپٹے دیکھا ہے۔

اسلام آباد میں قائد اعظم یونیورسٹی کے قیام کے دوران میرے دوست شبیر حسین لدھڑ اور چند احباب نے مل کر ایسے بے گھر لوگوں کے لئے بستروں کا اہتمام کیا۔ رات کے اندھیرے میں ان ٹھٹھرتے بدنوں پر نئے کمبل اور رضائیاں اوڑھ آتے۔ جب تک اس کی آنکھ کھلتی تو یہ لوگ جا چکے ہوتے تھے۔ یہ دکھاوے یا تعریف و توصیف کے لئے کبھی وہاں نہ رکتے تھے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ بدن جب حدت محسوس کرتے ہوں گے تو جاگ جاتے ہوں گے۔

کچھ جسموں، انسانوں، روحوں کے لئے سکون، طمانیت، حدت، لطافت عجب سی چیز ہوتی ہے۔ وہ سکون کے عادی ہی نہیں ہوتے۔ کرب و دکھ انہیں اپنا محسوس ہوتا ہے۔ حالانکہ سب اسی مٹی کے بنے انسان ہیں اور مٹی ہی ان کی اصل منزل ہے۔ ایسے لوگوں کو ڈھونڈ کر ان کے لئے آسانی پیدا کریں۔ ہم اگر سرکنڈوں، شہتیروں، ٹی آئرن، یا لینٹر کی چھت کے مکین ہیں تو اس میں ہمارا کوئی کمال نہیں ہے۔ اس چھت کا میٹریل بدلتے دیر نہیں لگتی۔ اس کا آرکیٹیکٹ بہت طاقت و جلال والا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments