سی ای او سیکرٹس: ٹھیلے پر چائے کا بزنس شروع کرنے والی خاتون جن کی پراڈکٹ اب بڑے سٹورز اور ریسٹورنٹس پر فروخت ہوتی ہے

ڈگلس شا - بی بی سی نیوز


 

ٹینا چین

ہمارے کاروباری مشوروں کے سلسلے ’سی ای او سیکرٹس‘ (یعنی سی ای او کے راز) میں ٹینا چین بتاتی ہیں کہ ایک اجنبی ملک میں خود کو ایک اکیلی اور مضبوط خاتون کاروباری شخصیت ثابت کرنے کے لیے ان کی حکمت عملی کیا ہے۔

28 سالہ ٹینا چین خود کو ایک ’انٹرپرونئیر‘ کے بجائے ’سولو پرونئیر‘ یا تن تنہا کاروبار کرنے والی خاتون کہلوانا پسند کرتی ہیں۔ انھوں نے جانوروں کے دودھ سے پاک ’وِیگن مِلک‘ سے تیار کی جانے والی چائے کے مختلف ذائقے متعارف کرائے ہیں اور اس کے لیے ’ہیومنی ٹی‘ کے نام سے ایک کمپنی کی بنیاد رکھی۔

انھوں نے اپنے کاروبار کا آغاز دسمبر 2018 میں لندن میں کیا اور کورونا کی وبا کے باوجود ان کی کمپنی مسلسل ترقی کرتی رہی ہے۔ یہاں تک کہ حال ہی میں انھوں نے کراؤڈ فنڈنگ کے ذریعے پیسے اکٹھے کر کے ایک فیکٹری بھی قائم کر لی ہے اور اب تک مختلف ذائقوں کی چائے کے پانچ ہزار سے زیادہ کپ فروخت بھی کر چکی ہیں۔

اسی سال انھوں نے نئے کاروبار میں مدد کی سرکاری سکیم ’کِک سٹارٹ‘ کے تحت ملنے والی امداد سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دو ملازم بھی رکھ لیے ہیں۔

لیکن ان کا کاروباری سفر آسان نہیں رہا اور اب انھیں لگتا ہے کہ وہ بہت تھک گئی تھیں۔ اسی لیے وہ کاروباری دنیا میں آنے والی نئی خواتین کو خاص طور پر خبردار کرنا چاہتی ہیں کہ آپ کو خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، خاص طور اس وقت جب آپ تن تہنا کاروبار چلا رہے ہوں۔

HumaniTea drinks

HumaniTea
ٹینا کو قدرتی دودھ سے پاک چائے کے کاروبار کا خیال ان کے اپنے پس منظر کی وجہ سے آیا

ٹینا کو قدرتی دودھ سے پاک چائے کے کاروبار کا خیال ان کے اپنے پس منظر کی وجہ سے آیا۔ وہ ایک ایشیائی امریکی خاتون ہیں جو پیدا تو تائیوان میں ہوئیں لیکن چار برس کی عمر میں ان کا خاندان امریکہ چلا گیا جہاں وہ لاس اینجیلیس میں بس گئے۔

تائیوان میں ان کے گھر والے ببل ٹی، یعنی بلبلوں والی چائے پیتے تھے۔ ببل ٹی ایک میٹھا مشروب ہوتا ہے جو دودھ اور اضافی ذائقے والی چائے میں ساگو دانہ ملا کر بنائی جاتی ہے۔ جب ٹینا امریکہ میں بڑی ہو رہی تھیں تو انھوں نے دیکھا کہ یہ مشروب ریاست کیلیفورنیا کی تائیوانی برادری میں بھی بہت مقبول ہے۔

Bubble Tea (pictured in Berlin)

ببل ٹی یا بلبلوں والی چائے کا آغاز سنہ1980 کے عشرے میں تائیوان میں ہوا، تاہم اب یہ یورپ و امریکہ میں بھی خاصی مقبول ہو چکی ہے

ٹینا نے تعلیم لاس اینجیلیس میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سے حاصل کی اور اپنا کاروبار شروع کرنے کا خیال انھیں اسی یونیورسٹی میں آیا۔ وہاں دیگر مضامین کے علاوہ انھوں نے بزنس سٹڈیز کے کورس بھی لیے، اپنا کاروبار شروع کرنے والے انٹرپرونئیر کے کلب میں شامل ہوئیں اور یہ بھی دیکھا کہ دیگر نوجوان لوگ کراؤڈ فنڈنگ کی ویب سائٹس کے ذریعے کیسے بڑی بڑی رقوم اکٹھی کر رہے ہیں۔

اس کے بعد وہ طلبہ کے دوسرے ملکوں میں تبادلے کے ایکسچینچ پروگرام میں شامل ہو گئیں اور ایک سال کے لیے لندن آ گئیں۔ وہ چاہتی تھیں کہ وہ لندن جیسے شہر میں رہنے کا تجربہ حاصل کریں، تاہم امپیریئل کالج سے ایم بی اے مکمل کرنے کے بعد انھوں نے لندن کو اپنا مستقل ٹھکانہ بنا لیا۔

برطانیہ میں رہتے ہوئے ٹینا نے مشاہدہ کیا کہ یہاں بڑے بڑے سٹوروں میں بھانت بھانت کی ’لاتے کافی‘ فروخت ہو رہی ہے، لیکن ٹینا کو لگا کہ مارکیٹ میں چائے کی اتنی زیادہ اقسام دستیاب نہیں ہیں۔ انھوں نے سوچا کہ اگر وہ یہاں اپنے بچپن کی پسندیدہ چائے متعارف کرائیں تو کیسا رہے۔ اس چائے میں شکر بھی کم ہوتی ہے اور گائے بکری وغیرہ کا دودھ بھی استعمال نہیں ہوتا۔ وِیگن مِلک برطانیہ میں پہلے ہی مقبول ہوتا جا رہا تھا۔

چونکہ ٹینا کے بڑوں نے کبھی کھانے پینے کی صنعت میں کام نہیں کیا تھا، اس لیے ٹینا نے اپنے گھر کے باورچی خانے میں ہی انٹرنیٹ پر دستیاب ترکیبوں کے مطابق دودھ کے بغیر چائے بنانے کا تجربہ شروع کر دیا۔

یوں ٹینا نے ان تمام مشکلات کا خود مقابلہ کیا جو ہر اس شخص کو پیش آتی ہیں جو اکیلے کوئی کاروبار شروع کرتا ہے۔ چونکہ وہ لندن میں اکیلے رہتی ہیں، اس لیے خاندان کا کوئی دوسرا فرد بھی ان کی مدد کے لیے موجود بھی نہیں ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے کسی ’کو فاؤنڈر‘ کو تلاش کرنے کی کوشش کی جو میرے ساتھ کاروبار میں شریک ہو سکے، لیکن مجھے کوئی ایسا شخص نہ ملا جو میری طرح اس کام میں 110 فیصد محنت ڈال سکے۔‘

ان دنوں ٹینا خود ہی مختلف اقسام کی چائے بناتیں اور مرکزی لندن کے مختلف مقامات پر ٹھیلہ لگا لیتیں۔

Borough Market

HumaniTea
ان دنوں ٹینا خود ہی مختلف اقسام کی چائے بناتیں اور مرکزی لندن کے مختلف مقامات پر ٹھیلہ لگا لیتیں

وہ ایک ریسٹورنٹ کے کچن میں آدھی رات کو ہی مختلف قسموں کی چائے بنا کر پلاسٹک کی بوتلوں میں بھرنے لگتیں اور پھر اگلی ہی صبح بازار میں جا کر فروخت کر دیتیں۔ انھیں نیند پوری کرنے کا وقت بھی نہیں ملتا تھا۔

آدھی رات کو ریسٹورنٹ جیسے بڑے کچن کو کرائے پر لینا قدرے سستا ہوتا ہے، یوں یہ طریقہ ٹینا کے کاروبار کے لیے اچھا تھا۔ اور دوسرا یہ کہ رات کو اس قسم کے کمرشل کچن کم مصروف ہوتے ہیں۔

لیکن بغیر سوئے یوں راتوں کو کام کرنے کے اثرات بھی پڑتے ہیں اور ٹینا کو بھی ان کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک مرتبہ تو انھوں نے گرم پانی سے خود کو زخمی بھی کر لیا۔

’یہ وہ موقع تھا جب مجھے لگا کہ جب آپ کوئی کاروبار شروع کر رہے ہوتے ہیں تو خود اپنا خیال رکھنا کتنا اہم ہوتا ہے۔‘

اس کے علاوہ ٹینا کو کاروبار میں کچھ اور دھچکے بھی لگے۔ انھوں نے اپنی کمپنی کا جو نام رکھا تھا اس کے جملہ حقوق پر جھگڑا ہوا، تاہم اب انھوں نے یہ نام تبدیل کر دیا ہے۔ اسی طرح جب ان کی فیکٹری میں پہلی مرتبہ صنعتی پیمانے پر چائے بنانے کا آغاز ہونا تھا تو ان کی چائے کی پتی کی کھیپ وقت پر لندن نہ پہنچ سکی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مارکیٹ میں چائے متعارف کرانے میں ایک ماہ کی تاخیر ہو گئی۔

ٹینا کہتی ہیں کہ ایسی مشکلات وہی محسوس کر سکتا ہے جسے ان کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ان کی کاروباری زندگی میں ایسے بہت سے موقعے آئے جب انھیں رونا آ جاتا تھا۔

’لیکن مجھے لگا کہ رونے سے مجھے اپنے جذبات کو باہر نکالنے میں مدد ملتی ہے، رونے کے بعد میں بہتر محسوس کرتی ہوں۔ خود کو توازن میں رکھنے کا یہ ایک اچھا طریقہ ہے۔‘

ٹینا کہتی ہیں کہ کسی استاد کا ہونا بھی بہت اہم چیز ہے۔ ٹینا کے مینٹر یا استاد نے انھیں بتایا کہ جو چیز ہو گئی، اس کے بارے میں کبھی نہ سوچیں، اس کی بجائے ہمیشہ اپنی توجہ مسئلے کا حل تلاش کرنے پر مرکوز رکھیں۔

ٹینا نے ان ہدایات پر بھی عمل کیا اور اب ان کی آنسو بھری چائے کی بوتلیں آپ کو لندن کے درجنوں سٹوروں اور ریستورانوں میں دکھائی دیتی ہیں۔ ٹینا کا منصوبہ ہے کہ وہ اپنے کاروبار کو آہستہ آہستہ پھیلائیں اور اس دوران بیرون ملک بھی ایسے لوگوں سے رابطہ کریں جو ان کی مصنوعات کو ان ممالک میں فروخت کریں۔

اس کے ساتھ ساتھ ٹینا اپنی چائے کی نئی اقسام بھی متعارف کرانے کی کوشش کر رہی ہیں اور آج کل ان کی فروخت زیادہ تر انٹرنیٹ پر ہو رہی ہے جہاں خریدار براہ راست ان سے چائے خرید لیتے ہیں۔

Supermarket shelf

HumaniTea
اب ہیومنی ٹی آپ کو لندن کے درجنوں سٹوروں اور ریستورانوں میں دکھائی دیتی ہے

ٹینا کہتی ہیں کہ ان جیسے ’سولو پرونیئر‘ کے لیے نہایت ضروری ہے کہ وہ مشکلات کے دور کے لیے اپنے ارد گرد ایسے لوگوں کا گروہ بنائیں جو مشکل میں ان کی مدد کر سکے۔

اپنے کاروبار کے ساتھ ساتھ، ٹینا دوسری کاروباری تنظیموں کی مدد سے ایسی خواتین کا ایک گروپ بھی بنا رہی ہیں جو ٹینا کی طرح کاروباری دنیا میں آنا چاہتی ہیں یا یہ کام شروع کر چکی ہیں۔ برطانیہ میں ’بریڈ اینڈ جیم‘ جیسی تنظیمیں ایسی خواتین سے واٹس ایپ کے ذریعے رابطے میں رہتی ہیں اور عملی مدد کے علاوہ ضرورت پڑنے پر جذباتی مدد کے لیے بھی تیار ہوتی ہیں۔

اب جبکہ ٹینا کا کاروبار قدرے مستحکم ہو گیا ہے تو انھوں نے یہ بھی سیکھ لیا ہے کہ وہ ہفتہ اتوار چھٹی کیا کریں اور یہ وقت اپنے دوستوں کے ساتھ گزارا کریں۔

’تن تہنا اپنا کاروبار شروع کرتے ہوئے آپ کو لگتا ہے کہ آپ واقعی اکیلے رہ گئے ہیں، لیکن ایسا ہونا نہیں چاہیِے۔ میں اب خود کو تنہا محسوس نہیں کرتی۔‘

’اپنا کاروبار کرنے کا حسن یہی ہے کہ اس میں نشیب و فراز آتے رہتے ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp