ٹوئٹر پر اپنے دادا کے لیے آکسیجن کی اپیل کرنے پر انڈین نوجوان کے خلاف مقدمہ


انڈیا

انڈیا میں آکسیجن کا بحران شدت اختیار کر گیا ہے (فائل فوٹو)

انڈیا میں پولیس نے ایک ایسے شخص کو گرفتار کر لیا ہے جس نے ٹوئٹر پر اپنے دم توڑتے دادا کے لیے آکسیجن کی اپیل کی تھی۔

انڈیا کی ریاست اتر پردیش میں پولیس نے ششانک یادو پر آکسیجن کی قلت کے بارے میں خوف پیدا کرنے کی نیت سے افواہیں پھیلانے پر مقدمہ قائم کیا ہے۔ یادو کو جس نے اپنی ٹویٹ میں کووڈ کا کوئی ذکر نہیں کیا تھا، جرم ثابت ہو جانے کی صورت میں قید کی سزا ہو سکتی ہے۔

اتر پردیش انڈیا کی سب سے زیادہ متاثر ہونے والی ریاستوں میں شامل ہے۔ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی ادتیاناتھ پر کورونا وائرس کی وبا کی شدت کو کم کر کے پیش کرنے پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔

اس ہفتے کے شروع میں یوگی ادتیاناتھ نے کہا تھا کہ کووڈ کے بارے میں افواہیں اور غلط خبریں پھیلانے والے کی جائیداد کو ضبط کر لیا جائے گا۔

نریندر مودی کی انتہا پسند بھارتیہ جنتا پارٹی سے تعلق رکھنے والے اتر پردیش کے وزیر اعلی نے یہ دعوی بھی کیا تھا کہ دہلی کے کسی ہسپتال میں آکسیجن کی کوئی کمی نہیں ہے۔ جبکہ ملک کے صحت عامہ کے نظام کے اس وباء سے نمٹنے میں بری طرح ناکامی کی خبریں اور تصاویر پوری دنیا میں شائع کی جا رہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا کورونا کی خطرناک دوسری لہر کو روکنے میں ناکام کیوں رہا؟

انڈیا میں وائرل وہ تصویر جو ملک میں کووڈ سے ہونے والی تباہی کی علامت بن گئی

’ہمیں ہسپتال کے بستر کی تلاش میں 200 افراد کو فون کرنا پڑے‘

امیٹھی کے شہر کے حکام کا کہنا ہے کہ یادو کی ’جھوٹی ٹویٹ‘ سے باقی لوگوں نے بھی حکومت پر الزام تراشی شروع کر دی اور انہوں نے یادو کے خلاف فوجداری دفعات کے تحت مقدمہ چلانے کی درخواست کی ہے۔

انڈیا

امیٹھی شہر کے ایک پولیس اہلکار نے روزنامہ انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ ‘ششانک یادو کو افواہیں پھیلانے کے جرم میں گرفتار کیا گیا ہے‘۔

مودی حکومت کے ناقدین کا کہنا ہے کہ اس واقع سے ظاہر ہوتا ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں مودی حکومت کے دور میں کس طرح شہری آزادیوں پر اور آزادی اظہار پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔

یادو جن کی عمر صرف 26 برس ہے، انہوں نے پیر کے روز ایک ٹوئٹر پیغام میں اداکار سونو سود کو ٹیگ کرتے ہوئے ایک سیلنڈر کے لیے اپیل کی تھی۔ انہوں نے اس اپیل میں کووڈ کے بارے میں کوئی بات نہیں کی تھی اور نہ ہی انہوں نے اس وبا سے متاثر ہونے والے اپنے دادا کا ذکر کیا تھا۔

https://twitter.com/smritiirani/status/1386763271835774980

ان کی اس اپیل کو ان کے ایک دوست نے ری ٹویٹ کیا اور انہوں نے ایک صحافی سے بھی رابطہ کیا جنہوں نے اس پیغام کو آگے بڑھایا جیسا کہ انڈیا میں بہت سی سرکردہ شخصیات کر رہی ہیں۔

مرکزی حکومت کی وزیر سمتی امرانی جو امیٹھی کے حلقے سے منتخب ہوئی تھیں کو بھی اس ٹویٹ میں ٹیگ کیا گیا تھا اور انہوں نے بعد میں اس پر جواب دیا کہ انہوں نے یادو سے رابطہ کرنے کی کوشش کی ہے اور حکام کو بھی اس بارے میں آگاہ کر دیا ہے۔ لیکن جب سے یادو پر مقدمہ بنایا گیا ہے امرانی نے کچھ نہیں کہا ہے۔

یادو کے دادا کا پیر کی شب کو بظاہر حرکت قلب بند ہو جانے سے انتقال ہو گیا تھا۔ حکام کا کہنا ہے کہ وہ کووڈ 19 سے متاثر نہیں ہوئے تھے لیکن جن حالات میں ان کا انتقال ہوا وہ ابھی واضح نہیں ہیں۔

انڈیا میں کووڈ کی تیسری لہر سے جو بحران پیدا ہوا ہے اس کی وجہ سے وزیر اعظم نریندر مودی پر دنیا بھر میں شدید تنقید کی جا رہی ہے۔

گزشتہ ہفتے سوشل میڈیا پر لوگ حکومت کے خلاف شدید غصے کا اظہار کر رہے تھے لیکن نریندر مودی کی حکومت نے ٹوئٹر کی انتظامیہ سے ایسی تمام ٹوئٹر پیغامات کو ہذف کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

انڈیا میں مسلسل کئی روز سے چوبیس گھنٹوں میں اس مرض کی لیپٹ میں آنے والوں کی تعداد تین لاکھ سے زیادہ رہی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ تعداد مریضوں کی اصل تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔ روزانہ کووڈ سے مرنے والوں کی تعداد بھی تین ہزار کے قریب پہنچ گئی ہے۔

اتر پردیش میں جس کی کل آبادی 24 کروڑ لوگوں پر مشتمل ہے، وہاں 11 لاکھ لوگ اس وبا کا شکار ہیں جب کہ 11 ہزار سے زیادہ لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔ لیکن اگر ہسپتالوں کی صورت حال پر نظر ڈالی جائے تو یہ تعداد بہت مشکوک نظر آتی ہے۔

اس ماہ ایک دن صحت عامہ کے حکام کا کہنا تھا کہ پوری ریاست میں 68 افراد کی موت کووڈ سے واقع ہوئی ہے لیکن ایک اخبار میں سرخی کے ساتھ یہ خبر شائع کی گئی جس میں لکھنؤ کے حکام کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ انہوں نے صرف لکھنؤ شہر میں 98 آخری رسومات ریکارڈ کی ہیں۔

اس کے علاوہ بنارس شہر جسے اب واراناسی کہا جاتا ہے، الہ آباد ، کان پور اور دیگر کئی شہروں میں مسلسل چتائیں جلائی جا رہی ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اصل تعداد سرکاری اعدا و شمار سے کہیں زیادہ ہے۔ بہت سے لوگوں کو یقین ہے کہ مرنے والوں کی اصل تعداد کو سرکاری طور پر چھپایا جا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32554 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp