بھارت میں نوجوان ویکسین لگوانے کے لیے پرجوش، چند گھنٹوں میں ایک کروڑ سے زائد رجسٹریشن


بھارت کی حکومت کی جانب سے یکم مئی سے 18 سے 44 سال کی عمر کے لوگوں کو ویکسین لگانے کے اعلان کے بعد نوجوانوں میں ویکسین رجسٹریشن کے لیے جوش دیکھا جا رہا ہے۔

حکام کے مطابق 28 اپریل کی شام چار بجے ’کو۔وِن‘ ایپ پر رجسٹریشن کا آغاز ہوا اور اب تک ایک کروڑ 70 لاکھ افراد خود کو رجسٹر کرا چکے ہیں۔

حکام کے مطابق رجسٹریشن شروع ہونے کے ابتدائی تین گھنٹوں یعنی چار سے سات بجے کے دوران 38 کروڑ 30 لاکھ اے پی آئی ہٹس درج کی گئیں۔ یعنی 27 لاکھ ہٹس فی منٹ ریکارڈ کی گئیں۔ اس کے علاوہ ایک کروڑ 45 لاکھ ٹیکسٹ میسج کامیابی کے ساتھ ڈلیور ہوئے۔

انہوں نے بتایا کہ ریاستوں اور نجی مراکز کی جانب سے فراہم کیے گئے اسٹال کی بنیاد پر ویکسین لگوانے کے لیے وقت دیا جائے گا۔

چار بجتے ہی پورٹل پر زبردست رش

رپورٹس کے مطابق 28 اپریل کو جوں ہی گھڑی کی سوئی نے چار بجائے پورٹل پر زبردست رش ہو گیا جس کی وجہ سے شروع میں کچھ دیر کے لیے پورٹل نے کام کرنا بند کر دیا تھا۔ البتہ بعد میں اسے ٹھیک کر لیا گیا اور رجسٹریشن کا عمل دوبارہ شروع ہو گیا۔

اس سے قبل رواں ماہ کے آخر تک 45 سال سے اوپر کی آبادی اور طبی عملے کو ہی ویکسین لگانے کا اعلان کیا گیا تھا۔

بھارت میں 18 سال سے 44 سال کی مجموعی آبادی 59.5 کروڑ کے قریب ہے جب کہ آٹھ ریاستیں اب تک مفت ویکسین دینے کا اعلان کر چکی ہیں۔

حکومت کے ذرائع کے مطابق دہلی میں 18 سے 44 سال تک کے لوگوں کو ویکسین دینے کے تیسرے مرحلے کی مہم سست رفتاری سے شروع ہونے کا امکان ہے۔ اس کے تحت دوسرے امراض سے متاثرہ لوگوں کو ترجیح دی جائے گی۔

’کو وی شیلڈ‘ اور ’کو ویکسین‘ دینے کا عمل جاری

رپورٹس کے مطابق اگرچہ حکومت نے یکم مئی سے 18 سال سے اوپر کی آبادی کو ویکسین لگانے کا اعلان کیا ہے لیکن گزشتہ چند دنوں میں متعدد ریاستوں نے یہ اشارہ دیا ہے کہ وہ یکم مئی سے ویکسین دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ کیوں کہ انہیں ویکسین کی کھیپ کا انتظار ہے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ نئے منصوبے کے تحت سرکاری اور نجی اسپتال اور کارپوریٹ ادارے 18 سال سے اوپر کے افراد کے لیے فی الحال ’کووی شیلڈ، اور ’کوویکسین‘ کی 50 فی صد پیداوار حاصل کر سکتے ہیں۔

اٹھارہ سے 44 سال تک کے لوگوں کو ویکسین لینے کے لیے مقررہ ایپ پر رجسٹریشن، بکنگ اور اپوائنٹمنٹ لینا ضروری ہو گا۔ کو-وِن ایپ کے علاوہ ’آروگیہ سیتو‘ پر بھی رجسٹریشن کرائی جا سکتی ہے۔

اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسیف سے وابستہ ڈاکٹر مظفر حسین غزالی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پہلے عوام میں ویکسین کے بارے میں تحفظات تھے لیکن اب جب کہ کرونا کی دوسری لہر زیادہ خطرناک ثابت ہو رہی ہے تو وہ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ ویکسین ہی کرونا کا علاج ہے۔ اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ وہ خود کو جلد از جلد ویکسی نیٹ کرا لیں۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملک میں غریبوں کی تعداد بہت زیادہ ہے لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ وہ کم از کم غریبوں کو مفت ویکسین دے۔ تاکہ وہ بھی کرونا سے محفوظ ہو سکیں۔ ان کے مطابق اگر اکثریتی آبادی کو ویکسین لگ جاتی ہے تو ملک میں ہرڈ ایمونٹی آجائے گی۔

شکوک و شبہات پس پشت

تجزیہ کاروں کے مطابق جب 16 جنوری کو ویکسین دینے کا عمل شروع ہوا تھا تو عوام میں زیادہ جوش و خروش نہیں تھا۔ ان میں ویکسین سے متعلق شکوک و شبہات بھی تھے۔

ان کے مطابق اب جب کہ کرونا کی دوسری لہر کہیں زیادہ خطرناک اور مہلک ثابت ہو رہی ہے تو عوام نے تمام شکوک و شبہات کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ ان میں ویکسین لگانے کے لیے اعتماد بڑھ رہا ہے اور وہ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ اگر انہوں نے ویکسین کی دونوں خوراکیں لگوا لیں تو انہیں کرونا ہو بھی جائے تو وہ ٹھیک ہو جائیں گے۔

رپورٹس کے مطابق ایسے متعدد افراد بھی کرونا سے متاثر ہوئے ہیں جنہوں نے دونوں خوراکیں لی ہیں لیکن ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ انہیں کوئی خطرہ نہیں ہے۔ انہیں کرونا کی دوا لینے کی ضرورت نہیں ہے۔

ویکسین کی دونوں خوراکیں لگوانے والے ایک شخص 63 سالہ عبد السلام نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہ اور ان کی اہلیہ دونوں نے ویکسین کی دونوں خوراکیں لے لی ہیں اس کے باوجود ان کی اہلیہ کرونا پازیٹیو ہو گئیں۔

ان کے بقول انہوں نے جب اپنے ڈاکٹر سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں چوں کہ آپ دونوں خوارکیں لے چکے ہیں اس لیے آپ کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ البتہ آپ ان لوگوں سے فاصلہ بنائے رکھیں جنہوں نے دونوں خوارکیں نہیں لی ہیں۔ کیوں کہ آپ سے ان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔

آئی ٹی کمپنیوں میں وار روم

بھارت میں آئی ٹی کمپنیوں کے شہر بنگلورو میں کمپنیوں نے اپنے کارکنوں کے لیے وار رومز بنائے ہیں جو کرونا مثبت پائے جانے والے کارکنوں کے لیے اسپتالوں میں بیڈ، آکسیجن اور ادویات کی فراہمی کی کوشش کر رہے ہیں۔

گولڈمین سچس اور اسٹینڈرڈ بینک جیسے اداروں نے، جن کے بنگلورو، چنئی اور حیدرآباد میں دفاتر ہیں، حکومت کی جانب سے عمر کی قید ہٹا دینے کے بعد اپنے ہزاروں کارکنوں اور ان کے اہل خانہ کو ویکسین دینے کے لیے بنیادی سہولتوں کا انتظام کیا ہے۔

ایکسنچیور اور ویپرو جیسے خدمات فراہم کرنے والے اداروں کے کارکنوں کی بڑی تعداد کرونا پازیٹو ہونے کے بعد موجود اہلکاروں کی ٹیمیں پروجیکٹس کو وقت پر مکمل کرنے کے لیے 13 گھنٹے مسلسل کام کر رہی ہیں۔

ایکسنچیور کے ایک ملازم نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے ’الجزیرہ‘ کو بتایا کہ کرونا کی دوسری لہر کے بعد بڑی تعداد میں کارکن متاثر ہوئے ہیں جس کی وجہ سے وقت پر منصوبوں کی تکمیل ایک بڑا مسئلہ بن گیا ہے اور باقی کارکنوں پر بہت زیادہ بوجھ بڑھ گیا ہے۔

کمپنی کے ذرائع نے بتایا کہ کمپنی کی جانب سے ملازمین کے علاج اور ویکسی نیشن کا خرچ برداشت کیا جا رہا ہے۔

بنگلورو میں اس بار کرونا مریضوں کی تعداد پہلے کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ بڑھ گئی ہے۔ ریاستی حکومت نے پیر سے شہر میں مکمل لاک ڈاون نافذ کر رکھا ہے۔

ویکسین کی قلت کی شکایت

اس صورتِ حال کے دوران کئی ریاستوں نے اپنے یہاں کرونا ویکسین کی قلت کی شکایت کی ہے جس پر وزارتِ صحت نے صفائی دیتے ہوئے کہا ہے کہ ریاستوں اور مرکز کے زیرِ انتظام خطوں میں ویکسین کی ایک کروڑ سے زائد خوراکیں موجود ہیں اور انہیں اگلے تین دنوں میں 20 لاکھ خوراکیں اور مل جائیں گی۔

ریاست مہاراشٹرا سے متعلق ذرائع ابلاغ میں یہ رپورٹ کیا گیا کہ وہاں ویکسین کی خوراکیں ختم ہو گئی ہیں جس کی وجہ سے ویکسین لگانے کے عمل پر اثر پڑ رہا ہے۔

اس پر مرکزی وزارتِ صحت نے کہا کہ ریاست کے پاس اب بھی سات لاکھ 49 ہزار 960 خوراکیں ہیں۔ مزید خوراکیں ایک دن میں اور مل جائیں گی۔

اسی دوران آرمی چیف جنرل منوج مکند نرونے نے وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کی اور کرونا وبا سے نمٹنے میں فوج کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات سے آگاہ کیا۔

وزیرِ اعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق آرمی چیف نے وزیرِ اعظم کو بتایا کہ فوج کا میڈیکل اسٹاف ریاستی حکومتوں کے لیے موجود ہے۔ جہاں بھی ضرورت ہوگی وہ اسپتال بنانے کے لیے تیار ہے۔

ادھر دہلی حکومت نے کہا ہے کہ اس کے پاس ویکسین کی خوراکیں ختم ہو رہی ہیں۔ ریاستی وزیر صحت ستیندر جین نے ایک بیان میں کہا کہ ہم نے ویکسین تیار کرنے والی کمپنیوں سے جلد از جلد خوراکیں سپلائی کرنے کی درخواست کی ہے۔

حکومت نے اب تک ریاستوں اور مرکز کے زیرِ انتظام علاقوں کو ویکسین کی 16 کروڑ 16 لاکھ خوراکیں فراہم کی ہیں۔ اس وقت بھی ریاستوں میں کئی لاکھ خوراکیں موجود ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں ویکسین کی کمی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت دوسرے ملکوں سے ویکسین درآمد کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

امریکہ کی جانب سے ویکسین تیار کرنے میں استعمال ہونے والے خام مال کی برآمد پر پابندی ہٹا دی گئی ہے۔

امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ امریکہ بھارت کو اینٹی وائرل انجیکشن ’ریمڈیسیور‘ اور ویکسین اِن پٹ سمیت طبی امداد بھیج رہا ہے۔

مزید برآں امریکہ نے اپنے شہریوں کے لیے ایڈوائزری جاری کی ہے کہ بھارت میں کرونا کیسز میں تیزی سے اضافے کی وجہ سے شہری بھارت کو جلد از جلد چھوڑ دیں۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments