بھارت میں قہر کی گھڑی میں انسانی ہمدردی اور اخوت کا جنم


جنوبی ایشیا کے اندر بھارت میں کورونا کے قہر نے قیامت خیز اور ہولناک مناظر نے ہر انسان کو رنجیدہ اور غم زدہ کر رکھا ہے، موذی کورونا جیتے جاگتے انسانوں کو کیڑے مکوڑوں کی طرح نگل رہا ہے۔ سڑکوں پر بھاگتی ہوئی ٹریفک میں ایمبولنسوں کے علاوہ گاڑیوں، گدھا گاڑیوں اور یہاں تک کہ موٹر سائیکلوں پر کورونا کے دم توڑتے مریضوں کو لایا جا رہا ہے، لواحقین کی آہ و بکا اور مریضوں کی اکھڑتی سانسوں کی جان لیوا آوازوں نے خوف کی فضاء کو مزید سوگوار اور ہولناک بنا دیا ہے۔

بھارتی اور دیگر عالمی میڈیا پر نشر ہونے والی خبروں کے مطابق بھارت جہاں کورونا کی دوسری لہر کے قہر کا نشانہ بنا، وہیں آکسیجن کی شدید کمی نے رہی سہی کسر پوری کر دی اور مریضوں کی بہت بڑی تعداد آکسیجن کی عدم دستیابی کی وجہ سے موت کے منہ میں چلی گئی ہے۔ ہسپتالوں میں انتہائی نگہداشت کے وارڈوں میں بستروں کی قلت پیدا ہو چکی ہے، ہر طرف افراتفری کا عالم دکھائی دیتا ہے۔ خبروں کے مطابق گزشتہ ایک ہفتے سے نئے کیسز کی شرح تین لاکھ سے بڑھ چکی ہے، اور گزشتہ ایک ہفتہ میں 21 لاکھ سے زائد نئے کیسز سامنے آئے ہیں اور مرنے والوں کی تعداد روزانہ تین ہزار سے بڑھ چکی ہے۔

اس وقت بھارت میں دہلی کی ریاست اور مہاراشتر میں صورتحال سب سے زیادہ سنگین ہے۔ دہلی کی پولیس کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ ڈبل ماسک پہننے کے علاوہ شیلڈ بھی پہنیں تاکہ اس سے محفوظ رہ سکیں اور ڈیوٹیاں ادا کریں۔ گزشتہ دنوں دہلی میں ایک دن میں 524 اور مہاراشٹر میں 895 اموات ہوئیں تھیں، کچھ ایسی ہی صورتحال نئے کیسز میں بھی ہے۔ اس صورتحال نے بھارت کے طبی سسٹم کو ایسی خوفناک صورتحال سے دوچار کر دیا ہے کہ شاید حالت جنگ میں بھی ایسا نہ ہو، لیکن اس کے باوجود بھارتی ڈاکٹر، نرسیں اور دیگر میڈیکل اسٹاف اس انسانی المیے سے نمٹنے کی سر توڑ کوشش کر رہے ہیں، بقول امیتابھ بچن ’’ایک بھگوان مندر سے نکل کر کر ہسپتالوں میں کام کر رہا ہے۔‘‘

بھارت کے اندر ذات پات کی کتنی قسمیں ہیں، کیا کیا رسمیں ہیں ، وہ سب کے علم میں ہے اور ماضی میں انسانوں اور ان کی عبادت گاہوں کے ساتھ کیا کچھ ہوا، وہ بھی بہت پرانے قصے نہیں بلکہ آج ہی کے دور کی باتیں ہیں لیکن اب بھارت میں کورونا نے انسانی شکار کرنے میں کسی قسم کا امتیاز نہیں کیا، نہ مذہب و عقیدہ، نہ ذات پات دیکھی، نہ دنیوی منصب کا خیال کیا، سب کو یکساں نشانہ بنایا ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج ہسپتالوں کے اندر، باہر کہیں بھی مسلم، ہندو، سکھ، پارسی وغیرہ کی شناخت باقی نہ رہی ہے۔

بھارت میں آج زندہ اور مردہ، دونوں انسانوں کو اذیت ناک صورتحال کا سامنا ہے، لوگ پیاروں کی میتیں لیے لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ کورونا کی وبا میں صرف انسان ہی نے نہیں بلکہ مذہبی عقیدت نے بھی دم توڑا ہے۔ اترپردیش میں واقع شہر ”وارانسی“ کو ہندو مذہب میں انتہائی عقیدت کا مقام حاصل ہے، یہ دریائے گنگا کے کنارے آباد ہے، بھارت میں کہیں بھی مرنے والے ہندو کی خواہش ہوتی تھی کہ اس کی آخری رسومات یہیں ادا ہوں، لہٰذا کورونا سے پہلے یہاں روزانہ دو سے تین سو تک مردے اس شمشان گھاٹ پر جلائے جاتے تھے اور یہاں کی آگ کبھی ٹھنڈی نہیں ہوتی، لیکن اب یہ تعداد  محض تیس، چالیس تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ بدترین آفات اور ہنگاموں میں بھی وارانسی شمشان گھاٹ پر ایسی ویرانی دیکھنے کو نہیں ملی تھی۔ صورتحال کی سنگینی اور بدترین حالت کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک طرف کورونا کی ہولناکیوں اور بربادیوں کی دل دہلا دینے والی خبروں سے انسان توبہ توبہ کر رہا ہے تو دوسری طرف انسانی ہمدردی اور اخوت کی بھی ایک نئی لہر نے اس قہر کی گھڑی میں جنم لیا ہے، وہ لہر جو کورونا سے پہلے شاید ہی جنم لیتی۔

آج صورتحال یہ ہے کہ شمشان گھاٹ، قبرستان ایک ہو گئے ہیں، مساجد، مندر، گوردوارے، گرجے ہسپتالوں میں تبدیل ہو گئے ہیں، مریضوں کو ہسپتال لے جانے والوں میں رشتہ دار، پڑوسی سبھی شامل ہیں خواہ ان کا مذہب، دھرم کچھ بھی ہو، ۔ اس مشکل کی گھڑی میں پاکستانی عوام کی طرف سے جس بڑے پیمانہ پر بھارتی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا گیا ہے، اس سے دونوں اطراف کی حکومتوں کی آنکھیں کھل جانی چاہیں۔ ، حکومت پاکستان کی طرف سے امداد کی پیش کش، فیصل ایدھی کی طرف سے پچاس ایمبولینس کی پیشکش بھی کی چا چکی ہے۔

سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو بہت وائرل ہوئی ہے جس میں ایک پولیس والا ہندو، مسلمانوں سے وبا کے خاتمے کے لئے اللہ سے دعائیں مانگنے کی اپیل کر رہا ہے، اسی طرح ایک مسلمان نے اپنے ہندو دوست کی ٹویٹ پڑھی کہ اس کی بیوی کو پلازما کی اشد ضرورت ہے، اس نے روزہ توڑ کر ہندو دوست کی بیوی کی جان بچائی۔ ایک اور بھارتی مسلمان کی خبر سب کے سامنے ہے جس نے اپنے گھر کا سونا، گاڑی فروخت کر کے آکسیجن سلنڈر خریدے اور جن جن تک پہنچا سکتا تھا، اس نے پہنچائے، یہ انسانی ہمدردی کی وہ مثالیں ہیں جن کے اثرات، نتائج بہت مثبت اور گہرے ہو سکتے ہیں۔

بالی وڈ اداکارہ کنگنا رناوت، جو ماضی میں پاکستان مخالف بیانات دیتی رہی ہیں، لیکن اب ایک ٹویٹ میں انہوں نے پاکستانی شہریوں کے جذبہ کو سراہا ہے۔ یہ انسانیت کا دوبارہ جنم نہیں ہے تو پھر کیا ہے، اللہ تعالیٰ اس صورتحال میں سبھی کو سوچنے، سوچنے اور سوچنے کی دعوت دیتا ہے، جیسا کہ قرآن میں لکھا ہے، لیکن کاش کہ ہم سمجھ سکیں اور انسانی ہاتھوں سے امتیازی رویوں کی خود ساختہ دیواروں کو مسمار کر سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments