حدیں پار کرنے والی وہ شہزادی جس کی کتاب پہلی صلیبی جنگ کی اہم شہادت ہے

اسد علی - بی بی سی اردو سروس ، لندن


نویں صدی کے شہنشاہ تھیوفیلس
نویں صدی کے شہنشاہ تھیوفیلس کی ملکہ کے انتخاب کے لیے دربار سجایا گیا جس میں انھوں نے تھیوڈورا کو اپنی ملکہ کے طور پر پسند کیا۔ مؤرخ بتاتے ہیں کہ امیدواروں کی فہرست میں سب سے اپور کاسیہ نامی لڑکی کا نام تھا لیکن وہ اپنی حاضر جوابی کی وجہ سے ملکہ نہ بن سکی۔

ایک شہنشاہ نے عورت کی حاضر جوابی کی وجہ سے منگنی توڑ دی

یہ اینا کی پیدائش سے بہت پرانی بات ہے۔ مؤرخ کولووو نے نویں صدی کی ایک روایت کا ذکر کیا ہے۔ شہنشاہ تھیوفیلس کے سامنے ان کی ملکہ بننے کی امیدواروں کی فہرست پیش کی گئی۔ بازنطینی معاشرے میں اچھے کردار کی ایک اہم نشانی نشانی خوبصورت نظرا آنا بھی تھی اور یہ لڑکیاں اسی بنیاد پر منتخب کی گئی تھیں۔

شہنشاہ کے سامنے پیش کی گئی فہرست میں کاسیہ نامی بازنطینی شاعرہ اپنی خوبصورتی کی وجہ سے سر فہرست تھی۔

شہنشاہ تھیوفیلوس نے اسے مزید پرکھنے کے لیے سوال کیا کہ ’عورت تمام برائیوں کی جڑ ہے۔‘

کاسیہ نے بغیر تعمل کہ جواب دیا کہ ’لیکن عورت تمام اچھائیوں کا ذریعہ بھی ہے۔‘

اس حاضر جوابی کا نتیجہ یہ نکلا کہ شہنشاہ نے اس کے لیے پسند کی گئی خواتین کی فہرست میں ایک اور عورت تھیوڈورا کو اہنی ملکہ بنا لیا۔ اور کاسیہ کی زندگی ایک خانقاہ میں گزری۔ یہ سزا یا خود ساختہ تنہائی نہیں تھی بلکہ کولووو لکھتی ہیں کہ ’ایک دانشور عورت کے لیے یہی جگہ ہو سکتی تھی تھی جہاں وہ خاندان اور بچوں کی ذمہ داریوں سے آزاد ہو کراپنے شوق پورے کر سکتی تھی۔ کئی صدیوں بعد آج بھی کاسیہ کی لکھی نظم ’فالن ویمن‘ ہر سال مقدس موقع پر یونانی آرتھوڈوکس گرجا گھروں اور دنیا بھر کی خانقاہوں میں گائی جاتی ہے۔

کاسیہ خوبصورت تو تھی لیکن عورت کے لیے تابعداری اور عاجزی بھی اہم تھی اور اس طرح کی حاضر جوابی کی اس معاشرے میں گنجائش نہیں تھی۔

عورت جس کے ’کان اور آنکھیں بھی کنوارے‘ ہوں وہ تاریخ کیسے لکھے گی؟

’نیول لکھتی ہیں کہ آسان الفاظ میں تاریخ نویسی عورتوں کے لیے نامناسب تھی۔‘

تاریخ بتاتی ہے کہ قدیم زمانے اور قرون وسطیٰ کے یونانی مؤرخین کا انحصار اہم واقعات اپنی آنکھوں سے دیکھنے پر تھا۔ ’قابل اعتبار سمجھا جانے کے لیے ضروری تھا کہ مؤرخ کی بات ان الفاظ سے شروع ہو کہ ’میں نے دیکھا‘۔

اگر کسی نے کوئی واقعہ خود نہیں دیکھا تو اس کے لیے ضروری تھا کہ وہ ان لوگوں سے بات کرے جنھوں نے وہ واقعہ دیکھا ہو۔ اب اگر کوئی لڑکی غیر مردوں سے بھی نہیں ملے گی اور باہر بھی نہیں جائے گی تو وہ اچی مؤرخ کیسے بن سکتی ہے۔

اسی وجہ سے، نیول لکھتی ہیں کہ، کئی جگہوں پر اینا کومنینے کی تحریر اچانک غیر روایتی ہو جاتی ہے۔ ’ممکنہ اعتراضات سے بچنے کے لیے وہ اپنے آپ کو اس طرح پیش کرتی ہیں جس سے اس زمانے کے معیار کے مطابق نسوانیت کی تصویر سامنے آتی ہے۔‘

نیول بتاتی ہیں کہ اینا کی تاریخ کو ’عجیب‘ سی تاریخ بھی کہا گیا ہے لیکن یہ کہتے ہوئے لوگوں نے اس بات پر غور کرنے کی کوشش نہیں کہ یہ ’عجیب‘ کیوں تھی؟ انھوں نے اس کا جواب دیا کہ یونانی روایت میں تاریخ لکھنا مردوں کا کام رہا ہے اور اینا کا چیلنج یہ تھا کہ وہ ’اچھی لڑکی‘ ہونے کے تقاضے پورے کرتے ہوئے مردوں کے اس میدان میں قسمت آزمائیں۔

مؤرخ کہتے ہیں کہ اینا کا کئی مقامات پر غیر ضروری طور پر جذباتی انداز اپنانا بھی اسی حکمت عملی کا حصہ معلوم ہوتا ہے اور اسی طرح کئی بار وہ شوہر کی موت کے بعد اپنے آپ کو تنہا اور مظلوم عورت بنا کر بھی پیش کرتی ہیں۔‘

لوگوں کا اعتبار حاصل کرنے کے لیے انھوں نے بڑے پیمانے پر اپنی تاریخ نویسی میں دستاویزات کا سہارا لیا ہے اور ان کا ذکر بھی بار بار کیا ہے۔ اور نیول کے مطابق ان پر اپنے ذرائع کا ذکر کرنے کا دباؤ کسی مرد مؤرخ سے زیادہ نظر آتا ہے۔

وہ تسلیم کرتی ہیں کہ معاشرے کے تقاضے جو بھی تھے اور پر مکمل طور پر عمل نھیں کیا جا سکتا اور یہ کہ اسی ماحول میں کئی خواتین نے انتہائی آزادی سے کام کیا۔ ’ہم انھیں تاجروں، کاروباری شخصیات، زمینداروں اور خانقاہوں کی لیڈروں کے طور پر دیکھتے ہیں۔ سلطنت کی ملکاؤں کا بازنطین کی مشہور ترین شحضیات میں شمار ہوتا ہے۔‘

’ایسا نہیں ہے کہ کوئی کمرے میں گھس کر اینا سے قلم چھین سکتا تھا، لیکن ان کی تحریر ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ ان پر اپنے آپ کو ایسی اچھی عورت ثابت کرنے کا کتنا دباؤ تھا جو کلچر کے عورتوں سے متوقع معیار کے مطابق زندگی گزار رہی ہے۔‘

نیول کہتی ہیں کہ بازنطینی عورتیں اپنے سماج کے نظریات کے مطابق چلتے ہوئے خودمختاری کے اظہار کے راستے تلاش کرتی تھیں۔ ’اینا نے اپنی کتاب الیکسی ایڈ میں یہ تمام طریقے اپنائے ہیں۔۔۔۔ اس طریقے سے انھیں آزادی بھی مل جاتی تھی لیکن ساتھ ہی ان اقدار کو نئی زندگی بھی۔‘

نیول بتاتی ہیں کہ اینا کو ریاضی، فلکیات کے ساتھ ساتھ طب سے بھی اتنی آگاہی ضرور تھی کہ وہ اپنے والد کے ڈاکٹروں سے اس موضوع پر زوردار بحث کر سکتی تھیں۔ انھیں کلاسیکل ادب سے بھی خوب واقفیت تھی۔

نیول لکھتی ہیں کہ ’الیکسی ایڈ تاریخ نویسی کا ایک شاہکار ہے جو 12ویں صدی میں مشرقی بحیرہ روم کی تاریخ اور سیاست کے بارے میں ہماری معلومات کا اہم ذریعہ ہے۔‘

پاپائے روم اربن دوم صلیبی جنگ کی دعوت دیتے ہوئے
پاپائے روم اربن دوم صلیبی جنگ کی دعوت دیتے ہوئے: شہزادی اینا کے والد نے سلطنت کی مشرقی سرحدوں پر سلجوکوں کی صورت میں پیدا ہونے والے خطرے سے نمٹنے کے لیے پاپائے روم سے مدد طلب کی تھی جس کے جواب میں پاہائے روم نے صلیبی جنگ کا اعلان کر دیا۔ یہ بات الگ ہے کہ، مؤرخین کے مطابق، شہنشاہ الیکسیوس صلیبی جنگ کے اعلان سے حیران رہ گئے تھے اور وہ اس سے کچھ زیادہ خوش نہیں تھے۔

اینا کا چھپ چھپ کر راتوں کو خواجہ سراؤں سے ملنا

کولووو لکھتی ہیں کہ اپنے پہلے منگیتر کی موت کے بعد گھر واپس آ کر غیر شادی شدہ لڑکیوں کی طرح اینا کا زیادہ تر وقت اپنی والدہ کے ساتھ گزرتا۔ وہ صرف رات کو سونے سے پہلے ایک دوسرے سے الگ ہوتیں۔

کولووو اس زمانے کے مصنف اور اینا کے دوست بشپ جارج ٹورنیکوس کے حوالے سے بتاتی ہیں کہ اینا کے والدین علم کے شوقین تھے خاص طور پر مذہبی کتب سے حاصل ہونے والا علم لیکن وہ اپنی بیٹیوں کے لیے ’غیر ضروری‘ علم کے حق میں نہیں تھے جس سے مراد مسیحیت سے پہلے زمانے کی کلاسیکل تعلیم۔

’ان کے خیال میں وہ کہانیاں تو مردوں کے لیے بھی مناسب نہیں کنواری لڑکیاں کیسے پڑھ سکتی ہیں۔‘ ان والدین کی نظر میں ’لڑکیوں کے کان اور آنکھیں بھی کنواری رہنی چاہیں۔‘ لیکن اینا نے نہ صرف یہ کہانیاں اور علوم پڑھے بلکہ والدین سے اس بات کو پوشیدہ رکھنے کی بھی کوشش کی۔

جارج ٹارنیکس لکھتے ہیں کہ ہر شام والدہ کے سونے کے لیے جاتے ہی اینا پڑھائی لکھائی میں لگ جاتیں اور ان کے استاد تھے شاہی محل کے پرانے عہدیدار اور خواجہ سرا۔ وہ واضح کرتے ہیں کہ اینا نے اس بات کی یقین دہانی کی کہ وہ انجان مردوں کو اہنے گرد جمع کر کے اپنی اور والدین کی عزت پر حرف نہیں آنے دیں گی۔ ’اینا نے کسی معشوق کے لیے نہیں بلکہ علم کے لیے اپنے والدین کو دھوکہ دیا۔‘

والدین کی طرف سے مناسب رشتے کی تلاش تک اینا کو دنیا کی نظروں سے دور اپنے والدین کی ہناہ میں رہنا تھا۔ کم سے کم تھیوری میں ایسا ہی تھا۔

اینا کومنینے کا منگیتر اس کے لیے خدا کا انعام تھا

اینا کی چودہ سال کی عمر میں دوسری بار منگنی ایک طاقتور گھرانے کے سترہ سالہ بیٹے نائیکیفورس برائینیوس سے ہو گئی۔

برائیونیوس خاندان اینا کے خاندان سے اس لحاظ سےکم تر تھا کہ ان میں کوئی شہنشاہ نہیں گزرا تھا۔ اور جب ایک بار نائیکیفورس کے دادا نے بغاوت کر کے تخت حاصل کرنے کی کوشش تو یہ اینا کے والد اور اب شہنشاہ الیکسیوس ہی تھے جنہوں نے اس بغاوت کو کچلا تھا۔

الیکسیوس خود اس وقت شہنشاہ کی فوج میں جرنیل تھے۔ الیکسیوس جب بغاوت کو ناکام بنانے کے بعد نائیکیفورس کے دادا کو قیدی بنا کر لے جا رہے تھے تو راستے میں ایک جگہ آرام کرتے ہوئے ان کی آنکھ لگ گئی اور ان کی تلوار بھی ان سے دور تھی۔

مؤرخ بتاتے ہیں نائیکیفورس کے دادا کے لیے یہ اچھا موقع تھا ’برائیونس کے دل میں اسے مارنے کا خیال بھی آیا، لیکن انھوں نے اپنی شکست کو خدا کا فیصلہ سمجھا کہ وہ شہنشاہ نہیں بن سکتے اور قتل کا خیال جھٹک کر درخت کے نیچے بیٹھ کر الیکسیوس کے جاگنے کا انتظار کیا۔‘

برائیونس کی اس وقت کے شہنشاہ کے حکم پر آنکھیں نکال دی گئی تھیں۔ اب اسی برائیونس کا پوتا ان کی بغاوت ناکام بنانے والے شہنشاہ الیکسیوس کا داماد بن رہا تھا۔

نائیکیفورس برائیونس شہزادی اینا کے لیے خدا کا انعام تھے۔ کم سے کم اینا کے دوست اور مصنف بشپ ٹورنیکس کا یہی خیال ہے۔

اینا کے شوہر اور ان کی ’خوبصورتی‘

اینا نے اپنی تحریروں میں نائیکیوفورس کا موازنہ کلاسیکل یونانی کہانیوں کے ہیرو سے کیا ہے۔ ان کی خوبصورتی، وجاہت اور عسکری مہارت کے قصے بھی درج ہیں۔

لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان کو بھی پڑھائی لکھائی کا اینا کی طرح شوق تھا۔ ایک شادی شدہ عورت کی حیثیت میں انھیں چھپ کر پڑھنے کی مجبوری ختم ہو گئی تھی۔ وہ بہترین سے بہترین استادوں کی خدمات حاصل کر سکتی تھیں۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ اب انھیں پڑھنے لکھنے کے معاملے میں اپنے والدین کی مکمل حمایت حاصل تھی ’کیونکہ ان کے شوہر کو ان باتوں پر اعتراض نہیں تھا۔‘

اینا کا کمال صرف حصول علم نہیں تھا بلکہ ٹورنیکس بتاتے ہیں، انھوں نے بیوی اور سات بچوں کی ماں کے طور بھی اپنا پورا کردار نبھایا۔ ان پر ایک الزام یہ بھی لگا کہ وہ ایک سخت دل عورت تھیں جنھوں نے اپنی کتاب میں اپنے بچوں کا ذکر نہیں کیا۔ لیکن دوسری طرف کولووو لکھتی ہیں اگر وہ ایسا کرتی تو پھر کہنے والوں نے کہنا تھا کہ یہ تو جذباتی عورت ہے اور اس لیے تاریخ نویسی جیسا کام اس کے بس کا نہیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp