مصر: ٹوٹی ہوئی ناک والے مصری مجسموں کا معمہ جسے آج تک حل نہیں کیا جا سکا


مجسمہ

دنیا کی قدیم اور پائیدار ترین تہذیبوں میں سے ایک کے متعلق مصر کے ماہرین اور شائقین کے درمیان ایک حل نہ ہونے والا معمہ رہا ہے۔ اور وہ معمہ ہے مجسموں کی ٹوٹی ہوئی ناک۔

پہلی نظر میں یہ عام سی بات لگتی ہے کہ ہزاروں سال گزرنے کے بعد ممکن ہے کہ کوئی بھی یادگار یا نوادرات ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں، لیکن ایسا کیوں ہے کہ بہت سارے قدیم مجسمے ایسے ہیں جن کی صرف ناک ہی ٹوٹی ہوئی تھی یا غائب تھی؟

اگر کچھ ٹوٹنا تھا تو پھر ناک ہی کیوں

اس معاملے نے بہت سے مفروضوں کو جنم دیا ہے اور اس میں ایک تلخ خیال بھی شامل ہے جو بار بار سامنے آتا رہا، حالانکہ اس کی تردید بھی کی جاتی ہے، اور وہ یہ کہ یہ یورپی استعمار پسندوں کی قدیم مصریوں کی افریقی جڑوں کو مٹانے کی کوشش تھی۔

اس کے برعکس ماہرین یہ یقین دہانی کراتے ہیں کہ یہ نظریہ بے بنیاد ہے کیونکہ دوسری وجوہات کے ساتھ اس کے متعلق شواہد ناکافی ہیں حالانکہ وہ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ سامراج کی بہت سی وحشتوں کے باوجود یہ ان میں سے ایک نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ اور کیا ہو سکتا تھا؟

الہامی طاقتیں

مصر

خیال تھا کہ مجسموں میں روحیں اور خدا سماتے تھے

اس موقع پر انتہائی معتبر جواب کا خلاصہ ایک لفظ میں کیا گیا ہے اور وہ ہے یونانی ایکونو کلاسموس کا آئیکنو کلاسزم، جس کا مطلب ہے ’تصاویر یا مجسمے کو توڑنا۔‘

ہم آٹھویں صدی کے حالیہ پیروکاروں کے بارے میں بات نہیں کر رہے ہیں جنھوں نے مقدس امتیازات کے فرق کو مسترد کر دیا، انھیں تباہ کیا اور ان کی تعظیم کرنے والوں کو ستایا۔

یہ بھی پڑھیے

لاہور میں یہ ’شیطانی‘ مجسمہ کیا کر رہا ہے؟

فرعون کے دور کا عبادت خانہ جسے بچایا گیا

اہرام مصر کی تعمیر کی پیچیدہ ترین گتھی حل؟

اس معاملے میں اکثر مذہبی یا سماجی وجوہات کی بنیاد پر یہ اصطلاح تصاویر یا یادگاروں کی تباہی کی اہمیت کے بارے میں سماجی عقیدے کی نشاندہی کرنے کے لیے زیادہ وسیع پیمانے پر استعمال ہوتی ہے اور جب آپ اس بات پرغور کرتے ہیں کہ قدیم مصریوں کے لیے مجسمے قدرت اور زمینی مخلوقات کے درمیان رابطے کا مرکز بنے ہوئے تھے تو اس کا احساس زیادہ مضبوط ہو جاتا ہے۔

قدیم مصریوں کا خیال تھا کہ تصاویر یا مجمسموں میں مافوق الفطرت طاقتیں چھپی ہو سکتی ہے جیسا کہ بروکلین میوزیم کے مصری کلاسیکل اور مشرق وسطی کے قدیم فن کے سینیئر کیوریٹر ایڈورڈ بلیبرگ نے وضاحت کی ہے۔

مصر

قدیم مصریوں کے لیے مجسمے قدرت اور زمینی مخلوقات کے درمیان رابطے کا مرکز بنے ہوئے تھے

بلیبرگ جنھوں نے اس معاملے کی تحقیقات میوزیم کے زائرین کی جانب سے یہ سوال پوچھے جانے کے بعد شروع کی کہ ان مجسموں کی ناک ہی کیوں ٹوٹی ہوئی ہںں، یہ وضاحت کرتے ہیں کہ ’مجسمہ‘ اور ’مجسمہ ساز‘ کے الفاظ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ یہ مجسمے جاندار ہیں یا زندہ ہیں۔

‘مجسمہ’ کے لفظی معنی ‘زندہ رہنے کے لیے پیدا کی ہوئی چیز’ ہے جبکہ ایک مجسمہ ساز وہ ہے جو اسے زندگی بخشتا ہے۔

خیال تھا ’ایسی چیزیں جو انسانی شکل کی نمائندگی کرتی ہیں جو پتھر، دھات، لکڑی، مٹی یا یہاں تک کہ موم سے بنی ہوتی ہیں ان پر خدا یا کسی ایسے انسان کا سایہ ہو سکتا ہے جس کی موت ہو چکی ہے اور اس طرح وہ مادی دنیا میں کام کر سکتا ہے۔‘

یہ ذکر محبت کی دیوی ہاتور نے کیا ہے اور جو ڈینڈیرا مندر کی دیواروں پر تحریر ہے، جسے شاید فرعون پیپی اول (2310-2260 قبل مسیح) نے بنوایا تھا۔

وہاں لکھا تھا ’وہ افق سے اڑتا ہوا نیچے زمین کی جانب آتا ہے اور اس کی روح اپنے مندر میں اتر کر اپنے جسم میں داخل ہو جاتی ہے اس معاملے میں دیوی ایک تین جہتی شخصیت کی آمیزش کرتی ہے لیکن اسی مندر میں اس بارے میں بھی بات کی جا رہی ہے جو قدیم مصر کے سب سے اہم دیوتاؤں میں سے ایک، اوسیریس کس طرح اپنے آپ کو نجات دلانے کے لیے ضم ہو جاتا ہے۔‘

‘اوسیرس ایک روح کی حیثیت میں آتا ہے اور اس مقام پر اپنی پر اسرار شکل کو دیکھتا ہے اس کی شبیہ دیوار پر کندہ ہے اور وہ دیوار پر بنی اپنی پُراسرار شکل میں داخل ہوتا ہے اور اپنی شبیہ پر روشنی ڈالتا ہے۔’

مجسمہ

ایسے میں خوبصورت کلیو پیٹرا کو بھی نہیں بخشا گیا

‘ایک بار روح کا قبضہ ہونے کے بعد تصاویر میں ایسی طاقتیں آ جاتی ہیں جن کا استعمال کچھ رسموں کے ذریعے کیا جا سکتا ہے اور مجسمے یا تصویر کو توڑ کر انھیں بے اثر بھی کیا جا سکتا ہے۔‘

اس کی بہت سے وجوہات تھیں جن میں وہ دشمنوں کے خلاف ناراضگی سے لے کر انھیں اس جہاں سے دوسری دنیا میں تکلیف پہنچانا چاہتے تھے، اس کے ساتھ ہی تاریخ کو دوبارہ لکھنے کی خواہش سے لے کر پوری ثقافت کو تبدیل کرنے کی جستجو بھی شامل تھی۔

جب طوطن خامن کے والد اخناطن، جنھوں نے 1353-1336 قبل مسیح کے درمیان حکومت کی، چاہتے تھے کہ مصر کا مذہب ایک ایسے دیوتا، آطین، کے ارد گرد گھومے جو ایک شمسی دیوتا تھا۔ انھیں ایک طاقتور وجود کا سامنا کرنا پڑا اور وہ تھا دیوتا امون۔ اس کا ہتھیار مجسموں کی تباہی تھا۔

یہ صورتحال اس وقت الٹ گئی جب اخناطن کی موت ہو گئی اور مصری عوام نے روایتی عبادتیں دوبارہ شروع کر دیں۔ ایسے میں آطین اور مرحوم فرعون کی تعظیم کرنے والے مندروں اور یادگاروں کو تباہی کا سامنا کرنا پڑا۔

لیکن ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ صرف دیوتا ہی مجسمے میں نہیں سما سکتے تھے بلکہ ان انسانوں کی روحیں بھی ان میں سما سکتی تھیں جو وفات پا چکے تھے اور مرنے کے بعد کے تکلیف دہ سفر اور سزائیں برداشت کرنے کے بعد مقدس روح بن چکے تھے۔

مصر

اس دور میں قبروں پر حملوں کا معاملہ بہت سنگین ہوا کرتا تھا

یہ احساس کہ آپ کے آباؤ اجداد مرنے کے باوجود بھی آپ کے ساتھ ہیں آپ کے لیے تسلی بخش ہونے کے ساتھ ساتھ تشویش ناک بھی ہو سکتا ہے خاص طور پر اس وقت جب آپ طاقتور شخصیت ہیں اور آپ نہیں چاہتے کہ آپ کے ماضی کا سایہ آپ کے ساتھ ہو۔

جب تھوٹمومس سوئم جس نے 1479-1425 قبل مسیح میں حکمرانی کی، اس بات کو یقینی بنانا چاہا کہ اس کا بیٹا اس کا جانشین ہو تب اس نے اپنے پیش رو اور سوتیلی ماں ہیش سپوت کو تاریخ سے مٹانے کی کوشش کی اور ان کے جسمانی ثبوت کو ختم کر دیا۔

مستقبل کے بارے میں بے چینی

ان مثالوں سے یہ تاثر مل سکتا ہے کہ ایسا صرف انتہائی معاملات میں ہوا ہو گا لیکن دیوتاؤں یا انسانوں کی نمائندگی کرنے والی چیزوں کی تباہی اتنی عام تھی کہ مصر کے ماہر رابرٹ کے رٹنر نے قلمبند کیا کہ قدیمی مصر میں یہ بات مستقل تشویش کا باعث تھی۔

اس تشویش کا اظہار متعدد حوالوں میں کیا گیا ہے جن میں کے ایک شاہی فرمان شامل ہے۔

’اس ملک میں کوئی بھی شخص جو اپنے مجسموں، سلیبس، مندروں یا تاریخی عمارتوں کو نقصان پہنچاتا ہے تو اس کے آباؤ اجداد کی ملکیت کو نہ تو ان کے پاس رہنے دیا جائِے گا اور نہ ہی انھیں قبرستان کی روحوں میں شامل ہونے دیا جائے گا۔

قبروں پر حملے بہت ہی سنگین تھے

ویرسو آف کاپٹس نامی شخص نے، جو (1539-1295 قبل مسیح) میں رہا تھا، ایک دھمکی آمیز تحریر کی جس پر لکھا تھا ’قبرستان میں جو میری قبر کو توڑے گا یا میرے مجسمے تو نقصان پہنچائے گا سورج کا دیوتا اس پر ناراض ہو گا اور وہ اور اس کے بچے کبھی خوشحال نہیں رہیں گے۔‘

اور ناک ٹوٹنے کا کیا مطلب تھا

توڑ پھوڑ کا مقصد طاقت کو محدود کرنا تھا اور یہ مقصد مختلف طریقوں سے حاصل کیا جا سکتا تھا۔ مثال کے طور پر اگر آپ دیوتاؤں کو نذرانہ پیش کرنے سے انسانوں کو روکنا چاہتے ہیں تو آپ اس دیوتا کے بائیں بازو کو ہٹا سکتے تھے جو عام طور پر اس طرح کے کام کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔

اگر آپ چاہتے ہیں کہ دیوتا ان کی بات نہ سُنیں تو آپ دیوتا کے کانوں کو ہٹا سکتے تھے۔

بیلیبرگ کا کہنا تھا ’اگر آپ کا ارادہ لوگوں کے ساتھ دیوتاؤں کے تمام رابطے ختم کرنے کا ہے تو اس کے سر کو جسم سے جدا کرنا ایک اچھا طریقہ ہوا کرتا تھا۔‘

لیکن شاید آپ کی خواہشات کو پورا کرنے کا سب سے مؤثر اور تیز رفتار طریقہ ان کی ناک کو ہٹانا تھا۔

ناک سانس لینے کا ذریعہ ہوتا ہے، اندر کی روح کو ختم کرنے کا سب سے آسان طریقہ یہ تھا کہ ناک کو ہی ہٹا دیا جائے۔ ’ایک ہتھوڑا اور مقصد پورا۔‘

مجسموں تو تباہ کرنے کی مجبوری سے ظاہر ہوتا ہے اور اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ مجسمے اس عظیم تہذیب کے لیے کتنے اہم تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp