ہم ہیں مزدور! ہمیں کون سہارا دے گا


قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں ”بھوک کی اذیت دنیا کی تمام مصیبتوں سے بڑھ کر ہے ، بھوک سے مرنے والے کی روح ایک ہی دم قفس عنصری سے پرواز نہیں کرتی بلکہ مرنے والے والے کے پور پور کو آہستہ آہستہ داغ مفارقت دیتی ہے“ ۔ انسان کے پیٹ میں بھوک کا جلتا ہوا آتش فشاں انسان سے وہ کام بھی کرواتا ہے کہ جو ایک گوشت پوست سے بنے انسان کو چٹانوں جیسا مضبوط اور سخت بنا دیتا ہے۔ ہمارا محنت کش حالات سے مجبور، لاچار، مفلس، بے بس، مزدور طبقہ ہر روز بھوک کے خلاف جنگ لڑتا ہے۔

ان محنت کشوں کے سامنے حالات کی ایک ایسی مضبوط دیوار حائل رہتی ہے کہ جس کو یہ طبقہ ہر روز یاجوج ماجوج کی طرح صبح سویرے چاٹنا شروع کرتا ہے مگر شام تک دیوار وہیں کی وہیں کھڑی رہتی ہے، چاٹ چاٹ کر ان کی زبانیں لہولہان ہو جاتی ہیں۔ یہ بے کس و بے زر مزدور ہماری معیشت کا ستون ہیں۔ یہ مزدور مالیاتی نظام کا حد فاصل ہیں کہ اگر یہ ہٹ جائیں تو عالمی معاشی نظام زمیں بوس ہو جائے۔

ہر سال یکم مئی کو دنیا بھر میں مزدوروں کا دن منایا جاتا ہے۔ یہ دن شگاگو کے مزدوروں کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ 1886 میں شگاگو میں مزدوروں نے اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کی اور بدلے میں ان کو اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنا پڑا۔ اس دن کو منانے کا مقصد مزدوروں کی محنت و مشقت کو خراج تحسین پیش کرنا اور مزدوروں کے استحصال کے خلاف آواز بلند کرنا ہے، پاکستان میں تقریباً 62 ملین کے قریب مزدور کام کرتے ہیں۔ محنت کش کو محنت و مشقت کے دوران مالکان کی طرف سے جس سفاکانہ رویے کاسامنا کرنا پڑتا ہے ، وہ ناقابل بیان ہے۔

ہمارے یہاں مزدوروں کے دو طبقے ہیں۔ ایک طبقہ تعمیراتی کاموں، کھیتوں، ورکشاپوں اور دیگر مقامات پر کام کرتا ہے جبکہ دوسرا طبقہ نجی اداروں، کارخانوں اور دیگر کاروباری مراکز میں کام کرتا ہے ۔ مزدور چاہے کہیں بھی کام کریں ہر جگہ ان کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کیا جاتا ہے۔ کورونا کی وبا میں تو ان محنت کشوں کا وجود ہی لڑکھڑانے لگا، لاک ڈاؤن میں زندگی کی چیرہ دستیوں نے ان سے سانس لینے کی توانائی بھی چھین لی، روز بہ روز بڑھتی ہوئی مہنگائی ان لاچاروں کے بدن کا گوشت نوچ رہی ہے بھوک، غربت ان کے گھروں میں پابجولاں رقص کرتی ہے، ان کے بچے روکھی سوکھی کھا کر اور گندا پانی پی کر زندہ رہتے ہیں ۔ یہ ہر روز فقط اس امید پر محنت کرنے نکل جاتے ہیں کہ کوئی تو ان کا پرسان حال ہو گا۔

ہم جب مزدور کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو ہمارے ذہنوں میں صرف ایک محنت کش مرد کا نقشہ ابھرتا ہے جبکہ ایک محنت و مشقت کرنے والی عورت بھی مزدور ہی کہلاتی ہے۔ اب چاہے وہ لوگوں کے گھروں میں صبح سے شام تک کام کاج کرے یا عمارتوں کی تعمیر میں مردوں کا ساتھ دے یا سڑکوں پر پتھر کوٹنے کا کام کرے یا بھٹوں پر اینٹیں بنائے یا پھر فیکٹریوں میں کم معاوضے پر محنت و مشقت کرتی نظر آئے ، ہر حال میں ایک محنت کش عورت کو ایک محنت کش مزدور مرد کے مقابلے میں زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کیوں کہ سارا دن محنت و مزدوری کرنے کے بعد ایک عورت کو گھر آ کر امورخانہ بھی سر انجام دینے ہوتے ہیں۔

مزدور عورتوں کا غم روزگار ایک طرف ، ان کو اپنے مالکان کے ہاتھوں بھی بہت تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گھریلو ملازمین پر بیگمات کی جانب سے بہت تشدد کیا جاتا ہے یہاں تک کہ ان کو انسان ہی نہیں سمجھا جاتا۔ مزدور عورتیں گرمی اور سردی کا مقابلہ کر کے ایک مضبوط چٹان کی طرح حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرتی ہیں اور اپنے خاندان کا پیٹ پالتی ہیں۔ محنت کش عورتوں کی ایک مکمل تاریخ ہے جس میں ان عورتوں نے محنت اور مشقت کی ایک عظیم مثال قائم کر دی۔

میرے نزدیک ہر وہ عورت مزدور ہے جو اپنے بچوں اور اپنے گھر والوں کا پیٹ پالنے کے لیے سخت محنت و مشقت کرتی ہے۔ نجی تعلیمی اداروں میں ملازمت کرنے والی خواتین کی حیثیت بھی ایک مزدور کی سی ہے جن سے کئی کئی گھنٹے کام کروا کر تھوڑی سی تنخواہ دی جاتی ہے اور اب کورونا کی وبا میں وہ تنخواہ انتہائی محدود ہو کر رہ گئی ہے۔

یہی مزدور عورتیں مفلسی کا بہادرانہ مقابلہ کر کے بہترین معاشرے کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں، اپنی اسی محنت و مشقت سے خود سے جڑے رشتوں کو سکون اور آرام پہنچانے کے لیے اپنا سکون اور آرام داؤ پر لگا دیتی ہیں۔ مزدور عورتوں کی اتنی سخت محنت و مشقت کے باوجود بھی اگر معاشرہ محنت کش عورتوں کو عزت و تکریم نہ دے سکے تو اس سے بڑا المیہ اور کیا ہو گا؟

جمیل مظہری اپنی نظم ”مزدور کی بانسری“ میں مزدور کے حالات کو کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں :

مزدور ہیں ہم، مزدور ہیں ہم، مجبور تھے ہم، مجبور ہیں ہم
انسانیت کے سینے میں رستا ہوا اک ناسور ہیں ہم
دولت کی آنکھوں کا سرمہ بنتا ہے ہماری ہڈی سے
ہم سے بازار کی رونق ہے، ہم سے چہروں کی لالی ہے
جلتا ہے ہمارے دل کا دیا دنیا کی سبھا اجیالی ہے
دولت کی سیوا کرتے ہیں ٹھکرائے ہوئے ہم دولت کے
مزدور ہیں ہم، مزدور ہیں ہم سوتیلے بیٹے قسمت کے
سونے کی چٹائی تک بھی نہیں، ہم ذات کے اتنے ہیٹے ہیں
ہم میں نہیں کوئی تبدیلی جاڑے کی پالی راتوں میں
بیساکھ کے تپتے موسم میں، ساون کی بھری برساتوں میں
کپڑے کی ضرورت ہی کیا ہے مزدوروں کو، حیوانوں کو
کیا بحث ہے، سردی گرمی سے لوہے کے بنے انسانوں کو
مزدور ہیں ہم، مزدور ہیں ہم، مزدور کی دنیا کالی ہے

خنسا سعید
Latest posts by خنسا سعید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments