انڈیا میں کورونا کی دوسری لہر میں آئی پی ایل: ’کس مہذب ملک میں اس کی اجازت ہو گی جہاں لوگ سڑکوں پر مر رہے ہیں‘


آئی پی ایل، کورونا

’میں پوچھنا چاہتی ہوں کہ کس مہذب ملک میں اس طرح لائیو کھیل کی اجازت ہوگی، وہاں جس وقت فلڈ لائٹس جل رہی ہوتی ہیں یہاں سڑکوں پر لوگ مر رہے ہیں اور شمشان گھاٹ جل رہے ہیں۔‘

انڈیا میں کھیلوں کی سینیئر صحافی شاردہ اگرا نے حال ہی میں این ڈی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) کی دلی شہر منتقلی ’کافی نامناسب‘ ہے۔

کورونا کے بحران میں مبتلا ملک میں بہت سے لوگ شاردہ کے خیالات سے اتفاق رکھتے ہیں۔ وہ یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ روزانہ تین لاکھ سے زیادہ متاثرین اور تین ہزار سے زیادہ اموات کے دنوں میں اگر آئی پی ایل کو مؤخر یا منسوخ نہیں کیا جا سکتا تو کم از کم اس میں کووڈ 19 سے مرنے والوں کے لیے اظہار ہمدردی کیا جانا چاہیے۔

آسٹریلیا کے تین کرکٹرز اینڈریو ٹائے، ایڈم زیمپا اور کین رچرڈسن لیگ کو چھوڑ کر اپنے ملک لوٹ چکے ہیں لیکن درجنوں غیر ملکی کھلاڑی اب بھی اس ٹورنامنٹ کا حصہ ہیں۔

تاہم بعض مبصرین کا خیال ہے کہ یہ لیگ اس مشکل گھڑی میں لوگوں کو تفریح فراہم کر رہی ہے اور اس کی مدد سے لوگوں کو گھروں تک محدود رکھا جا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا کورونا کے پھیلاؤ کے وجوہات کو تسلیم کرنے پر تیار کیوں نہیں ہے؟

آئی پی ایل میں پیسے کی ریل پیل

کیا جون جولائی میں کورونا وائرس انڈیا میں تباہی مچانے والا ہے؟

آئی پی ایل، کورونا

’آئی پی ایل مقابلے ہسپتال سے محض 500 میٹر دوری پر‘

صحافی شاردہ اگرا کا کہنا ہے کہ ’لوگ سمجھتے ہیں کہ آپ یا تو آئی پی ایل کی مخالفت کرتے ہوں گے یا نہیں۔ ہم بس چاہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں کھیلوں کی سب سے بڑی تقریب آئی پی ایل اپنے گرد ہونے والے واقعات پر کچھ ہمدردی کا اظہار کرے اور اسے نظرانداز نہ کرے۔‘

دی کوئنٹ میں شائع ہونے والی اپنی ایک تحریر میں ان کا کہنا تھا کہ یوں لگتا ہے ’آئی پی ایل دور کسی کہکشاں میں ہو رہی ہے۔‘

صحافی روہن وینکا تراما کرشنا نے ’سکرول‘ میں اپنی تحریر میں لکھا ہے کہ ’اگر آپ آئی پی ایل میں ایک کرکٹر ہیں تو آپ آسانی سے دلی میں آکسیجن یا ہسپتالوں میں بستروں کی کمی کو نظر انداز کر سکتے ہیں۔‘

’بی سی سی آئی کے بائیو سکیور ببل کی مدد سے آپ دلی میں اس طبی آفت کو نظر انداز کر سکتے ہیں۔ (یہاں تک کہ) ایئر پورٹ میں آئی پی ایل کے لیے ایک الگ کاؤنٹر بھی ہے۔‘

ان کے مطابق بہت سے لوگوں نے ان حالات میں آئی پی ایل کے جاری رہنے پر سوال اٹھائے ہیں۔

’کرکٹرز کے لیے ٹیسٹوں کی ریزرو صلاحیت کیوں ہے۔ جب عام شہری کو ہسپتال میں داخلے کے لیے کئی دن انتظار کرنا پڑ رہا ہے؟ کھیلوں کی شخصیات کے لیے ایمبولینس گاڑیاں کیوں الگ سے رکھی گئی ہیں، جب کہ ایک ہسپتال سے دوسرے ہسپتال تک شہری آٹو رکشہ میں آکسیجن سلنڈر کے ساتھ سفر کر رہے ہیں؟‘

ادھر صحافی آنند کتاکم کہتے ہیں کہ ’آئی پی ایل کے میچ ایل این جے پی ہسپتال سے محض 500 میٹر کی دوری پر ہو رہے ہیں۔

آئی پی ایل کے ایک منتظم اور انڈین بورڈ کے سینیئر اہلکار نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا تھا کہ لیگ کو شیڈول کے مطابق جاری رکھا جائے گا کیونکہ مشکل وقت میں یہ لوگوں کی تفریح کا باعث بنے گی۔

انھوں نے کہا ’اردگرد بہت زیادہ منفی سوچ ہے۔ شاید ابھی آئی پی ایل کا انعقاد زیادہ اہم ہے۔‘

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ان کا کہنا تھا کہ ’کم از کم اس کی بدولت شائقین گھروں میں محدود ہیں ورنہ وہ ماسک پہنے بغیر باہر نکل آئیں گے۔‘

آئی پی ایل ٹیموں کے متعدد مالکان نے بھی یہی دلیل پیش کی ہے۔

روئٹرز کے مطابق چنائی سپر کنگز کے سربراہ کاسی وشوناتھن کا کہنا ہے کہ ’ہمارے غیر ملکی کھلاڑی مطمئن ہیں۔ ہم نے ان سے کوئی شکایت نہیں سنی۔ ہمیں نہیں لگتا ان میں سے کوئی لیگ کے درمیان گھر واپس جائے گا۔‘

ڈاکٹر مینال نامی صارف نے ٹوئٹر پر لکھا ’انڈیا میں ویکسین کی تقسیم نہایت مشکل ہے مگر اس کے باوجود آئی پی ایل کے کروڑ پتی کھلاڑیوں کو ویکسین دینے میں ترجیح دی جا رہی ہے جب کہ فرنٹ لائن کا طبی عملہ کورونا وائرس کا شکار ہو رہا ہے۔‘

آئی پی ایل میں شریک انڈین بولر روی ایشون کووڈ 19 سے متاثرہ اپنے خاندان کی مدد کے لیے آئی پی ایل سے خود نکل گئے تھے۔

اس حوالے سے کئی کرکٹرز مختلف رائے رکھتے ہیں۔ آسٹریلوی کرکٹر ایڈم گلکرسٹ لکھتے ہیں کہ ’کووڈ کے اعدادوشمار پریشان کن ہیں لیکن آئی پی ایل جاری ہے۔ کیا یہ غیر مناسب ہے؟ یا ہر شب توجہ بٹانے کے لیے ضروری؟‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32554 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp