عوامی شکایات پر سعودی عرب میں تعینات پاکستانی سفیر معطل، چھ افسران سمیت واپس طلب


“اگر ہمیں قونصلیٹ جانا پڑ جائے تو سمجھیں پورا دن ضائع ہو گا اور کوئی ضمانت نہیں ہے کہ جس کام سے گئے ہیں وہ ہو گا یا صرف چکر ہی لگے گا۔” افضل اعوان گزشتہ 15 برس سے سعودی عرب میں ملازمت کر رہے ہیں۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کے سفارت خانے اور کونسل خانوں میں دستاویزات کی تصدیق یا پاسپورٹ کی تجدید جیسے معمولی کام بھی اُن جیسے افراد کے لیے صبر آزما اور وقت طلب عمل ہے۔

افضل اعوان کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعظم عمران خان نے سفارتی عملے کی معطلی اور تحقیقات کا درست قدم اٹھایا ہے جس کے بعد اُن سمیت دیگر پاکستانیوں کے خیال میں حالات بہتر ہوں گے۔

گزشتہ روز پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے عوامی شکایات پر سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں تعینات سفیر راجہ علی اعجاز کو معطل کرتے ہوئے سفارت خانے کے چھ افسران کو وطن واپس طلب کیا ہے۔

سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں نے سفارت خانے کے عملے کے ناروا رویے، بدسلوکی اور رشوت طلب کرنے کی شکایات کی تھیں جس کے بعد یہ سفارتی عملے کی معطلی اور واپس طلب کرنے کے اقدامات سامنے آئے ہیں اور وزیرِ اعظم نے ان شکایات کا جائزہ لینے کے لیے تحقیقات کا حکم بھی دیا ہے۔

دفترِ خارجہ نے جمعرات کو جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ وزیرِ اعظم عمران خان نے سعودی عرب میں مقیم تارکِ وطن پاکستانیوں کی شکایات کی تحقیقات کا حکم دیا ہے اور اعلیٰ اختیارات کی حامل کمیٹی اس تمام معاملے کا جائزہ لے گی۔

بیان میں کہا گیا تھا کہ حکومتِ پاکستان سمندر پار پاکستانیوں کی فلاح و بہبود کو بڑی اہمیت دیتی ہے اور دنیا بھر میں پاکستان کے سفارت خانوں اور قونصل خانوں کو واضح ہدایت کی گئی ہے کہ پاکستانی کمیونٹی کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں مہیا کریں۔

’میت پاکستان بھیجنا سب سے تکلیف دہ عمل‘

سمندر پار پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد سعودی عرب، متحدہ عرب امارات سمیت مشرق وسطیٰ کے ممالک میں مقیم ہے۔

ان ممالک میں مقیم پاکستانیوں میں زیادہ تر افراد تعمیراتی صنعتوں میں مزدوری کرتے ہیں اور اپنی آمدن کا بیشتر حصہ پاکستان میں مقیم اپنے خاندانوں کو ارسال کرتے ہیں۔

افضل اعوان نے بتایا کہ دستاویزات کے معاملے میں تاخیر تو ایک طرف، سعودی عرب میں اگر کسی پاکستانی کا انتقال ہو جائے تو اس کی میت پاکستان بھیجنا سب سے زیادہ تکلیف دہ عمل ہے۔

اُن کے بقول محض دستاویزات کی تصدیق میں سفارت خانہ ہفتوں وقت صرف کرتا تھا۔

افضل اعوان کا کہنا تھا کہ سفارتی عملہ اس سارے عمل کو مشکل بنا دیتا ہے کہ لوگ براہِ راست سفارت خانے سے رابطہ کرنے کے بجائے سفارتخانے کے خود ساختہ کمیشن ایجنٹوں کے ذریعے کام کرائیں جو اضافی رقم یا رشوت لے کر وہی کام کراتے تھے۔

پاکستان کے وزیرِ اعظم آفس سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ عمران خان نے سعودی عرب کے سفارت خانے اور قونصل خانوں میں تعینات افسروں کی کارکردگی، رویّے اور کردار پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔

وزیرِ اعظم عمران خان نے جمعرات کو اپنے خطاب میں کہا کہ انہیں یہ رپورٹس ملی ہیں کہ سعودی عرب میں پاکستان کا سفارتی عملہ تارکینِ وطن کو سہولیات دینے کے بجائے ان کے ساتھ غیر مناسب برتاؤ کرتا ہے۔ ان کے کاموں کی انجام دہی میں رشوت لی جاتی رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس معاملے کی تحقیقات کے نتائج کی روشنی میں وہ سخت اقدامات کریں گے۔

عمران خان نے وزیرِ اعظم معائنہ کمیشن کو 15 روز میں اس معاملے کی تحقیقات کرکے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔

پاکستان میں حالیہ حکومت کا ماننا ہے کہ سمندر پار پاکستانی ملک کے لیے اثاثہ ہیں اور اُن کی جانب سے بھیجی گئی رقوم پاکستان کی غیر ملکی آمدن کا اہم ذریعہ ہیں۔

مالی سال 2020 کے دوران بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں نے مجموعی طور پر 23 ارب 12 کروڑ ڈالرز پاکستان ارسال کیے۔

سعودی عرب میں لگ بھگ 30 لاکھ کے قریب پاکستانی مقیم ہیں اور سمندر پار پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی رقوم کا ایک بڑا حصہ سعودی عرب سے آنے والی رقوم پر مشتمل ہے۔

پاکستان کے قومی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے نو ماہ یعنی جولائی سے مارچ 2021 میں سعودی عرب سے ترسیلاتِ زر کی مد میں پانچ ارب 70 کروڑ ڈالر پاکستان آئے ہیں۔

اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ غیر ملکی ادائیگیوں اور غیر ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر مستحکم رکھنے میں ترسیلات زر بہت اہم ہیں۔

سعودی عرب میں پاکستانی تارکینِ وطن اور پاکستانی اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز ایسوسی ایشن نے وزیرِ اعظم کے اس اقدام کو سراہا ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ اس اقدام سے ان کے لیے آسانیاں پیدا ہوں گی۔

اسد کیانی اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز ایسوسی ایشن کے رکن ہے اور اُن کی تنظیم وزارت سمندر پار پاکستانیوں کے تعاون سے ہنر مند افراد کو بیرون ملک ملازمت کے حصول میں معاونت کرتی ہے۔

اسد کیانی کہتے ہیں کہ کرونا وائرس کے بعد کی صورتِ حال میں پاکستانی تارکینِ وطن کے لیے سعودی عرب میں مشکلات میں اضافہ ہوا ہے اور ان حالات میں سفارت خانہ کے عملے کو زیادہ فعال کردار ادا کرنا چاہیے تھا۔

انہوں نے وزیرِ اعظم کے اقدام کو سراہتے ہوئے امید ظاہر کی کہ ان کے آئندہ ماہ دورہٴ ریاض سے سعودی عرب میں پاکستانی تارکینِ وطن کے حالات میں بہتری کے اقدامات کیے جائیں گے۔

وزیرِ اعظم عمران خان آئندہ ماہ کے اوائل میں سعودی عرب کا دورہ کریں گے۔

اسد کیانی نے بتایا کہ اسی ہزار پاکستانی سعودی عرب جانے کو تیار ہیں۔ اُن افراد کے لیے ورک پرمٹ اور ویزہ جاری ہو چکا ہے۔ مگر پروازوں کی بندش کے باعث یہ عمل رکا ہوا ہے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments