اقوام متحدہ کے مطابق ہیومن اور یوتھ ڈویلپمنٹ انڈیکس میں سندھ سب سے آگے


حال ہی میں وزیر اعظم عمران خان صاحب کوئٹہ تشریف لے گئے جہاں انہوں نے ایک منصوبے کا افتتاح فرمایا۔ انہوں نے تقریر کرتے ہوئے فرمایا ”میں سب سے پہلے اپنا فلسفہ آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔“ ظاہر ہے کہ یہ ایک غیر معمولی بات تھی کہ ایک وزیراعظم سڑکوں کے منصوبے کا افتتاح کرتے ہوئے یکلخت فلسفے کی دنیا میں نکل کھڑا ہو۔ اس کے بعد انہوں نے فرمایا کہ ”ہر کامیابی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے اور اللہ اسے کامیابی دیتا ہے جو اللہ کی مخلوق کے لئے کچھ کرتا ہے۔“

یہاں تک ہم بھی ان سے متفق تھے۔ پھر پرانے اولیاء کرام کا سرسری ذکر کرنے کے بعد انہوں نے اس ضمن اپنی حکومت کی مثال پیش فرمائی کہ ان کی حکومت نے کس طرح مخلوق کی خدمت کی ہے اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ جب اتنے سال پہلے خیبر پختونخوا میں ان کی حکومت بنی تو ہر ایک یہ کہہ رہا تھا کہ کہاں گیا نیا پاکستان؟ اور ہر ایک نے یہی پیشگوئی کی کہ اگلی مرتبہ وہ اس صوبہ میں بری طرح شکست سے دوچار ہوں گے۔

لیکن جب اگلے انتخابات ہوئے تو تحریک انصاف دو تہائی نشستیں حاصل کر گئی۔ اس کے بعد انہوں نے فرمایا کہ اس کی وجہ یہ تھی کہ 2018 میں یو این ڈی پی نے ایک رپورٹ جاری کی تھی کہ ان کی حکومت کے دوران خیبر پختونخوا میں غربت میں سب سے زیادہ کمی ہوئی یعنی امیر اور غریب کا فرق کم ہو گیا ہے۔ جس طرح چھوٹے بچوں کو جب کوئی کہانی سنائی جائے تو آخر میں کہانی سے حاصل ہونے والا سبق ضرور بیان کیا جاتا ہے۔ شاید اس خوف سے کہ بچہ کوئی غلط نتیجہ ہی نہ نکال بیٹھے۔ اس لئے بنا بنایا نتیجہ بھی اس پر مسلط کر دیا جاتا ہے تاکہ وہ اچھا بچہ بن کر رہے۔

وزیراعظم صاحب نے اس کہانی کا یہ نتیجہ پیش کیا کہ جو مخلوق کی خدمت کرے اسے ہی کامیابی ملتی ہے۔ بر سبیل تذکرہ یہ بتاتے چلیں کہ آج ہی کراچی کے انتخاب میں پیپلز پارٹی کو جو کامیابی ملی ہے اور تحریک انصاف دوڑ سے ہی باہر ہو گئی ہے شاید اس کا بھی خلق خدا کی خدمت سے کوئی تعلق ہو۔ بہرحال یہ ایک ضمنی بات تھی۔ اب اصل موضوع کا تجزیہ کرتے ہیں۔

کسی بھی ملک یا معاشرے میں امیر اور غریب کے درمیان فرق کو سائنسی طور پر مختلف طریقوں سے ماپا جاتا ہے۔ ان میں سے ایک طریق Ginni Coefficient کا بھی ہے۔ اس کی سطح جتنی زیادہ ہو گی اس ملک یا معاشرے میں غریب اور امیر کا فرق زیادہ ہو گا۔ اقوام متحدہ کے ادارے یو این ڈی پی کی رپورٹوں میں بھی یہ معیار استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی ادارے کی رپورٹوں کے مطابق ہمیشہ سے پنجاب اور سندھ کے مقابلے پر خیبر پختونخوا میں امیر اور غریب کا فرق نسبتاً کم رہا ہے۔

یہ ایک قابل تعریف بات ہے لیکن اس کا تحریک انصاف کی حکومت سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ جب اس صوبے میں تحریک انصاف کی حکومت نہیں آئی تھی بلکہ عمران خان صاحب نے ابھی سیاست میں قدم بھی نہیں رکھا تھا صورت حال اسی طرح تھی۔ اسی ادارے نے 2009 میں جو رپورٹ جاری کی تھی اس کے مطابق 1987 سے مسلسل پنجاب اور سندھ میں خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی نسبت امیر اور غریب کا فرق کافی زیادہ تھا۔ اسے کسی طرح بھی ان کی پارٹی کی عظیم کامیابی قرار نہیں دیا جا سکتا۔

محترم وزیراعظم کی تقریر سے تین ہفتے پہلے اسی ادارے نے پاکستان کے بارے میں ایک اور رپورٹ جاری کی ہے۔ یہ رپورٹ کسی بھی پہلو سے پاکستان یا حکومت کے لئے خوش کن نہیں ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں دو دور گزرے ہیں جب امیر اور غریب کی آمد میں فرق خاطر خواہ کم ہوا تھا۔ پہلا دور 1990 کی دہائی تھی۔ اور اس دہائی میں بے نظیر بھٹو صاحبہ اور نواز شریف صاحب وزیراعظم رہے تھے۔ دوسرا دور 2016 سے شروع ہو کر 2019 تک رہا ہےاور 2016 میں بھی میاں نواز شریف صاحب وزیراعظم تھے۔

ہمارے وزیر اعظم بار بار ہمیں یقین دلا چکے ہیں کہ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی چوروں کا ٹولہ ہے جو ملک کو لوٹ کر کھا کر دولت کے انبار بیرون ملک لے گئے ہیں۔ ایک اور دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں امیر اور غریب کا سب سے کم فرق 1996 کے سال میں تھا۔ اور آپ کو یاد ہو گا کہ یہ سال محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کے دوسرے دور کا آخری سال تھا۔ آخر صرف لٹیروں کے دور ہی میں کیوں غریبوں کی کچھ اشک شوئی ہوتی ہے؟

اس سال اپریل کے شروع میں اس ادارے نے جو اردو رپورٹ شائع کی ہے اس کے صفحہ 8 پر پاکستان کی موجودہ صورت حال کے بارے میں ایک جملہ ملاحظہ ہو:

”دولت کی عدم مساوات کے اس بڑھتے رجحان کے ساتھ دو طرح کے پاکستان کی تقسیم کی دیواریں بلند ہوتی نظر آ رہی ہیں۔“

یہ جملہ موجودہ حکومت کے لئے لمحۂ فکریہ ہونا چاہیے کہ اس کے دور اقتدار میں ایک نہیں دو پاکستان وجود میں آ رہے ہیں۔ ایک غریب کا پاکستان اور ایک امیر کا پاکستان۔

انسانی ترقی کو ماپنے کا ایک ذریعہ ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس ہے۔ اس معیار میں صحت تعلیم اور آمدنی کے مواقع کو پرکھا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے صوبہ سندھ پاکستان میں سے سب سے آگے ہے۔ اور 2007 سے لے کر اب تک اس لحاظ سے صوبہ سندھ سب سے آگے اور پنجاب دوسرے نمبر پر ہے۔ اور ان برسوں میں ان دونوں صوبوں میں بالترتیب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون زیادہ تر عرصہ حکومت میں رہے ہیں۔ اسی طرح فی کس جی ڈی پی [یعنی مجموعی داخلی پیداوار] کے لحاظ سے بھی صوبہ سندھ ہی سب سے آگے ہے۔ [اردو رپورٹ صفحہ 10 ]

اسی طرح بچوں کی صورت حال کے پرکھنے کے لئے اس رپورٹ میں پہلی مرتبہ چائلڈ ڈویلپمنٹ انڈکس متعارف کرایا گیا ہے۔ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کو سب سے زیادہ حکومت کرنے کا موقع ملا ہے۔ اس لحاظ سے یہ صوبہ پنجاب اور پھر سندھ سے پیچھے تیسرے نمبر پر ہے۔

تحریک انصاف نے اپنے آپ کو نئی نسل کی پارٹی کے روپ میں پیش کیا تھا۔ اسی رپورٹ میں نوجوانوں کو ملنے والے مواقع کو سامنے رکھتے ہوئے یوتھ ڈویلپمنٹ انڈیکس متعارف کرایا گیا ہے ۔ اس معیار کے مطابق صوبہ سندھ سب سے بہتر حالت میں ہے۔ دوسرے نمبر پر پنجاب اور تیسرے نمبر پر خیبر پختونخوا ہے۔ البتہ تحریک انصاف کو اس بات پر خوش ہونا چاہیے کہ مزدور کی آمدنی کے لحاظ سے صوبہ خیبر پختونخوا سب سے بہتر حالت میں ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہمیں امید ہے کہ محترم وزیراعظم اس بات پر بھی توجہ فرمائیں گے کہ اس رپورٹ کے مطابق ترقی کی سب سے خراب صورت حال بلوچستان میں ہے اور وزیراعظم نے یہ تقریر بھی بلوچستان میں فرمائی تھی۔

اس پس منظر میں وزیر اعظم کی خدمت میں مندرجہ ذیل گزارشات پیش ہیں:

1۔ آپ فی البدیہہ تقریر سے مکمل پرہیز فرمائیں۔ ہر تقریر کے وقت مکمل متن یا درست اعداد و شمار اپنے سامنے رکھیں۔

2۔ پوری دنیا میں صدور اور وزراء اعظم کی تقاریر کی تیاری کے لئے ماہرین مقرر ہوتے ہیں۔ اگر آپ مختلف ماہرین کی ٹیم مقرر کر دیں جو کہ تقاریر کی تیاری میں آپ کی مدد کریں تو اس سے بہت فائدہ ہو سکتا ہے۔

3۔ ہر تقریر میں سابقہ حکمرانوں کو چور اور لٹیرا کہنے سے پرہیز فرمائیں کیونکہ دنیا یہی گمان کرے گی کہ یہ قوم ہی چوروں اور لٹیروں کی ہے تبھی تو چوروں اور لٹیروں کو اپنا سربراہ بناتی ہے۔

4۔ سیاسی مخالفین کا ذکر کرتے ہوئے اگر یہ کہنے کی بجائے کہ وہ کہتا تھا اگر آپ یہ کہیں کہ وہ کہتے تھے یا یہ کہنے کی بجائے کہ اس کے دور میں اگر آپ یہ کہیں کہ ان کے دور میں تو اس سے آپ کے احترام میں کمی نہیں آئے گی بلکہ اضافہ ہو گا۔

اور یہ خیال رکھیں کہ انٹرنیٹ کے دور میں اب ہر شخص آسانی سے اعداد و شمار اور حقائق کا جائزہ لے سکتا ہے، اس لئے اب مبالغہ آمیز تقاریر صرف مقرر کو ہی نقصان پہنچا سکتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments