کورونا: ’میں نے ان سے بستر طلب کیا تو انھوں نے مجھے لاشیں دکھائیں‘


نشی شرما کے شوہر ایک صنعتکار ہیں اور وہ خود بھی کام کرتی ہیں۔

نشی شرما کے شوہر ایک صنعتکار ہیں اور وہ خود بھی کام کرتی ہیں۔

انڈیا میں اس وقت آکسیجن سلنڈروں، وینٹیلیٹرز اور ہسپتالوں کے آئی سی یوز کی طلب اس کی رسد سے زیادہ ہے۔ چاہے شہر ہوں یا دیہات، صورتحال ہر جگہ نہایت خراب ہے۔

کورونا وائرس کی نئی لہر کے دوران روزانہ ریکارڈ تعداد میں ہلاکتیں ہو رہی ہیں۔ ان میں سے کئی لوگ طبی سہولیات کی شدید عدم دستیابی کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔

ان ہزاروں لوگوں میں سے دو کی کہانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس وقت انڈیا کس مشکل وقت سے گزر رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا کورونا کی خطرناک دوسری لہر کو روکنے میں ناکام کیوں رہا؟

انڈیا کورونا کے پھیلاؤ کے وجوہات کو تسلیم کرنے پر تیار کیوں نہیں ہے؟

’ہمیں ہسپتال کے بستر کی تلاش میں 200 افراد کو فون کرنا پڑے‘

نِشی شرما، دلی

ہم اُنھیں نہیں بچا سکے۔ پیسہ اور اثر و رسوخ کام نہیں آیا۔ ایک لیڈر نے فون پر کہا کہ وہ لیڈر ہیں، اُن کا کام بستر مہیا کرنا نہیں ہے۔ دوبارہ کال مت کرنا۔

یہ صبح کا وقت تھا۔ میری ساس بینا شرما کی سانس پھولنے لگی اور آکسیجن کی سطح گرنے لگی تھی۔

ہمیں لگا کہ ہمیں پرائیوٹ ہسپتال جانا چاہیے مگر جب ہم نے قریبی پرائیوٹ ہسپتال میں انکوائری کی تو ہمیں معلوم ہوا کہ وہاں کوئئ آکسیجن بیڈ نہیں تھا۔

بینا شرما کی عمر 55 سال تھی۔ اس کا شوہر بھی اس دنیا میں نہیں ہے۔

بینا شرما کی عمر 55 سال تھی۔ اس کا شوہر بھی اس دنیا میں نہیں ہے۔

اس کے بعد ہم اُن کو سرکاری ہسپتال گرو گوبند سنگھ ہسپتال لے گئے۔

وہاں اُنھیں آکسیجن لگائی گئی مگر صرف 10 منٹ بعد ہی ہسپتال نے صاف انداز میں کہہ دیا کہ اُن کے پھیپھڑے 60 فیصد ناکارہ ہو چکے ہیں، اور اُنھیں آئی سی یو میں رکھنے کی ضرورت ہے۔

اس کے بعد فون کالز کا سلسلہ شروع ہوا۔ اسی افراتفری میں ہم نے کسی طرح آکسیجن ایمبولینس حاصل کی اور دوسرے ہسپتال لے جانے لگے۔

جب تک ہم وہاں پہنچے، تب تک وہ بیڈ کسی اور مریض کو دے دیا گیا تھا۔ بہت منت سماجت کے بعد اُنھیں ایمرجنسی میں داخل کر کے آکسیجن لگا دی گئی۔

مگر پھر اُنھوں نے کہا کہ اُن کی حالت بگڑ رہی ہے اور وہ بچ نہیں پائیں گی۔ وہ صرف 55 سال کی تھیں۔ کیا یہ اُن کے منھ پر کہنا ضروری تھا؟

’اُنھوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور کہا، بیٹی، چیزوں کا خیال رکھنا۔‘

’اُنھوں نے ہمت ہار دی ہوگی مگر ہمیں اپنی ہمت بلند رکھنی تھی۔ چنانچہ ہمیں ایک وینٹیلیٹر اور ایک ڈاکٹر ایمبولینس کی ضرورت تھی۔ ‘

’میں نے اضافی پیسے دے کر ایک ایمبولینس منگوائی اور اُنھیں سرکاری ہسپتال جی ٹی بی لے گئی۔ میں سارے راستے اُن کی ہیلپ لائن پر کال کر کے اُن سے معلوم کرتی رہی کہ کیا وہاں بیڈز موجود ہیں یا نہیں۔‘

’ہمیں بار بار بتایا گیا کہ ہسپتال میں 23 بیڈ دستیاب ہیں۔ مگر جب ہم وہاں پہنچے تو اُنھوں نے ہمیں میری ساس کو ایمبولینس سے بھی نہیں اتارنے دیا۔ اُنھوں نے کہا کہ ہیلپ لائن کے پاس درست معلومات نہیں ہیں۔‘

’میں نے اُن کے سامنے ہاتھ جوڑے، روئی، کہا کہ ہم ایک گھنٹے کا سفر کر کے صرف اس لیے آئے ہیں کیونکہ ہمیں بتایا گیا تھا کہ یہاں بیڈز موجود ہیں۔‘

مگر ڈاکٹر نے کہا کہ یہاں کوئی بیڈ موجود نہیں ہیں۔

وہ مجھے ہسپتال کے عقبی حصے میں لے گئے، دروازہ کھولا اور کہا، دیکھیں، یہاں صرف میتیں ہیں۔

میں نے اس سے پہلے کبھی اتنی لاشیں ایک ساتھ نہیں دیکھی تھیں۔ وہ خوفناک منظر اب بھی مجھے رات کو سونے نہیں دیتا۔ وہ بار بار میرے ذہن میں دوڑ جاتا ہے۔

اس ہسپتال سے بھی ناامید ہونے کے بعد ہمیں بالآخر ایک ہسپتال میں ایک جاننے والے کے توسط سے وینٹیلیٹر بیڈ مل گیا، مگر تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔

ہم اُنھیں نہیں بچا سکے۔ اب ہمارے گھر میں میری دو بیٹیوں اور بیٹے سمیت سبھی لوگ کووڈ کے شکار ہیں۔

اب مجھے کالز آتی ہیں۔ لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آکسیجن کہاں ملے گی، کن ہسپتالوں میں جانا چاہیے، ایمبولینس کے لیے کسے کال کرنی چاہیے۔

مجھ سے جتنا ہو سکتا ہے، میں اُنھیں بتاتی ہوں۔ ہم اپنی والدہ کے لیے کچھ نہیں کر سکے مگر وہ کسی اور کے لیے کچھ کر کے بہت خوش ہوتیں۔

سچن سینی، پالڈی گاؤں، مظفرنگر، اترپردیش

میری اہلیہ انجلی چھ ماہ کی حاملہ تھیں۔ ہمارے دو بچے ہیں، ایک تین سالہ بیٹا اور پانچ سالہ بیٹی۔ وہ ہمارا یہ بچہ ہماری سالی کو دینے والی تھیں مگر یہ نہ ہو سکا۔

مجھے کچھ دن قبل کورونا ہوا تو انجلی کا بھی ٹیسٹ کروایا گیا۔ اینٹی باڈیز ٹیسٹ منفی آیا اور اب میں پی سی آر ٹیسٹ کے نتائج کا انتظار کرنے لگا۔

اس دوران اُنھیں کھانسی شروع ہوئی اور اُن کی آکسیجن کی سطح 85 تک گر گئی۔

جب ہم گاؤں کے پرائیوٹ کلینک گئے تو اُنھوں نے کہا کہ انھیں یقینی طور پر کورونا ہو چکا ہے، اس لیے انھیں بڑے ہسپتال لے جایا جائے۔

جب ہم اُنھیں ایمبولینس کے ذریعے بڑے ہسپتال لے جانے لگے تو ہسپتال نے کہا کہ اُن کی رپورٹ منفی ہے، اس لیے اُنھیں داخل نہیں کیا جا سکتا، اور اُنھیں ضلعی ہسپتال لے جایا جائے۔

بہت منت سماجت کرنے پر ڈھائی گھنٹے بعد ہسپتال نے اُنھیں ایمرجنسی میں داخل کیا اور آکسیجن لگائی۔ اس کے بعد دوبارہ اینٹی باڈیز ٹیسٹ کیا گیا جو ایک مرتبہ پھر منفی آیا، تو اُنھیں وہاں سے نکال دیا گیا۔

پھر ہم نے اُنھیں ایمبولینس میں ڈالا اور مظفرنگر کے ضلعی ہسپتال لے گئے۔ وہاں اُنھیں داخل کیا گیا اور ٹیسٹ کیا گیا تو اس مرتبہ اُن کا ٹیسٹ مثبت آیا۔

‘وائرس مہلک ہے مگر یہ نظام بھی ہلاکت خیز ہے’

ضلعی ہسپتال نے کہا کہ وہ اُنھیں نہیں رکھ سکتے، اُنھیں بیگاراجپور میڈیکل کالج واپس لے جایا جائے۔

اُن کی مثبت رپورٹ کے ساتھ ہم ایک مرتبہ پھر اس ہسپتال کی جانب بھاگے۔ اس مرتبہ اُنھیں داخل کر لیا گیا تاہم چند ہی گھنٹوں میں اُن کی حالت اس قدر بگڑ گئی کہ اُنھیں وینٹیلیٹر پر رکھنے کی ضرورت پڑ گئی۔

پھر مجھے کال آئی کہ بچہ ماں کے پیٹ میں ہی مر گیا ہے اور اس کی دل کی دھڑکن نہیں سنائی دے رہی۔

پھر مجھے بتایا گیا کہ انجلی کی بھی موت واقع ہو گئی ہے۔ میری انجلی اپنے دو بچوں کو چھوڑ کر چلی گئی۔

میں تین دن تک اُنھیں دو ہسپتالوں کے درمیان لے کر دوڑتا رہا۔ ٹیسٹ کی رپورٹیں آتی رہیں اور اُن کی حالت بگڑتی رہی۔ اگر اُنھیں تین دن تک طبی امداد ملتی تو شاید وہ بچ جاتیں۔

یہ وائرس مہلک ہے، مگر یہ نظام اس سے بھی زیادہ ہلاکت خیز ہے جس نے ہمیں ہرا دیا ہے۔

اب میں اپنے بچوں کو دیکھتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ شاید وہ کچھ کر سکیں۔ میں اُنھیں سول سروس میں بھیجوں گا۔ شاید ہم نظام ٹھیک کر سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32483 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp