یوم آزادی صحافت اور پاکستانی میں لکھی گئی صحافتی تاریخ


پاکستان کی صحافتی تاریخ بھی سیاسی تاریخ کی بھی دو گروہوں کی مترب کردہ ہے۔ ان میں سے ایک گروہ وہ ہے جس کی کتابیں صحافت کے طلبا و طالبات کو پڑھائی جاتی ہیں اور ان کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ان میں صرف ایک ہی نقطۂ نظر بیان کیا جاتا ہے۔ اسے ”نوائے وقت“ کا مکتب فکر بھی کہا جا سکتا ہے اور یہی گروہ ریاستی سطح پر ہمیشہ سے غالب رہا ہے۔

حال ہی میں ڈاکٹر ناظر محمود صاحب کے مضامین پر مشتمل کتاب بنام ”پاکستان: متبادل تاریخ“ شائع ہوئی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے ایک مضمون بعنوان ”پاکستان میں صحافت کی متبادل تاریخ“ میں صحافت پر لکھی جانے والی چند کتابوں کا جائزہ لیا ہے۔

ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں :

پاکستان میں اردو میں صحافتی کتابیں درجنوں کی تعداد میں لکھنے والے دو بڑے نام ہیں۔ ایک عبدالسلام خورشید اور دوسرے مسکین حجازی، یہ دونوں حضرات دائیں بازو کے قوم پرست تھے اور ان پر مذہبی اور دو قومی نظریہ شدت سے حاوی تھا۔ انہوں نے صحافت کو ایسے رخ پر ڈالا جس میں صحافت کا کام یہ نہیں کہ تنقیدی صلاحیتوں والے صحافی پیدا کیے جائیں بلکہ یہ تھا کہ ریاستی بیانیے کو ہرگز نہ للکارا جائے۔

اس گروہ کے لکھنے والوں کی کتابوں میں نہ تو صحافتی پابندیوں کا ذکر ہے اور نہ ہی صحافیوں کی جدوجہد کے بارے کچھ بتایا گیا ہے۔ جیسا کہ عابد مسعود تہامی صاحب اپنی کتاب ”جرنلزم“ میں لکھتے ہیں:

جنرل ضیاء کی فوجی حکومت کے قیام کے دو سال کے عرصے میں اخباروں کو کچھ آزادی ملی، اس دوران لاہور سے ایک انگریزی اخبار ”دی سن“ اور اسلام آباد سے ”دی مسلم“ کا اجراء ہوا۔ کتاب میں عابد صاحب کو ضیاء کی صحافت کو دی گئی آزادی تو یاد رہی مگر ان سینکڑوں صحافیوں کا کوئی تذکرہ نہیں جو اس دور میں جیلوں میں گئے، جنہوں نے کوڑے کھائے مگر آزادی صحافت پہ آنچ نہ آنے دی۔

اسی طرح ایک اور کتاب احسن اختر ناز کی تحریر کردہ ”صحافتی ذمہ داریاں ہے“ جس میں صحافتی کھوج سے دور رکھنے کے لیے ایک آیت کا سہارا کچھ یوں لیا گیا ہے کہ ”اور تجسس نہ کیا کرو اور تم سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے“ ۔ اس کتاب میں بار بار احادیث سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ کچھ غلط ہوتا دیکھ کر بھی آنکھیں بند کر لیں۔ اس لیے مصنف ایک حدیث کا حوالہ یوں دیتے ہیں ”جو شخص مسلمانوں کے عیب ڈھونڈنے کے درپے ہو گا اللہ اس کے درپے ہو جائے گا“ ۔

ایک اور کتاب ہمایوں ادیب کی ”صحافت پاکستان میں“ ہے، یہ کتاب بھی ریاستی بیانیے کو شہہ دیتی ہے اور صوبائی تعصب سے لبریز ہے۔ اس کتاب میں مصنف یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اخبارات پر پابندیاں خود بخود لگ گئیں اور پابندیوں کے پیچھے چھپے چہروں کے نام لکھتے ہوئے ان کے پر جلتے ہیں۔

دوسری طرف ڈاکٹر ناظر محمود نے ان کتابوں کا بھی جائزہ لیا ہے جو صحافت کی اصل تاریخ بیان کرتی ہیں مگر انہیں نصاب کی ہوا نصیب نہیں ہوتی۔ اس مکتب فکر کی پہلی کتاب پروفیسر مہدی حسن کی ہے جو بعنوان ”مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں میڈیا کا کردار“ ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے یہ کتاب لکھنے کے لیے ملک کے دونوں حصوں کے اخبارات کی فائلیں کھنگالیں، ریڈیو اور ٹی وی کے پروگرام شیٹ کا جائزہ لیا اور محکمۂ اطلاعات سے مدد حاصل کی۔ اس کے بعد اس شخصیت کی کتابوں کا جائزہ بھی لیا گیا ہے جن کے بارے میں معروف صحافی مجاہد بریلوی نے اپنی کتاب ”فسانہ رقم کریں“ میں لکھا ہے کہ ”اخبارات کے دفتر اور چینل میں اس صحافی کا داخلہ ممنوع قرار دینا چاہیے جس نے ضمیر نیازی کی کتابوں کا ورق ورق نہ پڑھا ہو“ ۔

ڈاکٹر ناظر محمود کے بقول ضمیر نیازی صاحب کی لکھی گئی کتابوں میں نہ تو روایتی تاریخ ہے اور نہ ہی کوئی کتاب کم اہم ہے۔ ان کی سب سے مشہور کتاب Press In Chains  ہے جس کا اردو ترجمہ اجمل کمال صاحب نے ”صحافت پابند سلاسل“ کے نام سے کیا ہے۔ اس کتاب میں جہاں ضمیر نیازی نے اخبارات پر پابندیوں اور قدغنوں کا تفصیلی جائزہ لیا ہے ، وہیں انہوں نے شعبۂ صحافت کے اندر پائے جانے والے ”آزادی صحافت“ کے بڑے بڑے علمبرداروں کے پردے بھی چاک کیے ہیں۔

صحافت کی ایسی تاریخ لکھنے والوں میں آئی اے رحمان اور وارث میر جیسی شخصیات بھی شامل ہیں۔ ڈاکٹر ناظر محمود نے وارث میر کی دو کتابوں ”حریت فکر کے مجاہد“ اور ”کیا عورت آدھی ہے“ کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔

ڈاکٹر ناظر محمود کے کتابی جائزہ سے ہٹ کر چند سال قبل صحافت کے بارے میں اکمل شہزاد گھمن صاحب کی بہترین کتاب ”میڈیا منڈی“ شائع ہوئی۔ 2016 میں اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن جمہوری پبلیکیشنز سے شائع ہوا۔ اس کتاب میں ملک کے بڑے انگریزی و اردو اخبارات کی مختصر تاریخ بیان کی گئی ہے اور ساتھ ہی ہر اخبار کی کسی نمایاں شخصیت سے انٹرویو بھی کیا گیا ہے۔ ”پاکستان“ سے سردار خان نیازی اور مجیب الرحمان شامی، ”ایکسپریس“ سے عباس اطہر اور ”خبریں“ سے ضیاء شاہد صاحب کا انٹرویو شامل کتاب ہے۔

ان انٹرویوز میں شعبۂ صحافت کی اندرونی ”سرد جنگ“ کی تفصیل ملتی ہے اور ساتھ ہی ”اندر کی خبریں“ دینے والے خود اپنے شعبہ کے ”اندر کی خبریں“ دیتے پائے جاتے ہیں۔ شاید اسی وجہ سے کتاب موصول ہونے کے چند دن بعد ہی معروف صحافی مجیب الرحمان شامی نے پبلشر سے فون کر کے کہا کہ ”کتاب میں حقائق کے برعکس ہمارے خلاف بہت کچھ چھاپا گیا ہے لہٰذا ہم کورٹ میں جا رہے ہیں“ ۔

مزید اس کتاب میں اردو اور انگریزی صحافت کا تفصیلی موازنہ کیا گیا ہے، کچھ ”عظیم“ کالم نگاروں کی کالم نگاری پر روشنی ڈالی گئی ہے اور کتاب کے آخری باب میں صوبائی صحافت کو بھی جگہ دی گئی ہے، اس باب کا مختصر جائزہ کچھ یوں ہے :

پاکستان میں اردو، انگریزی کے بعد سندھی اخبارات سب سے زیادہ چھپتے ہیں۔ سندھ کے کم پڑھے لکھے لوگوں کے ہاں بھی اخبار اور کتاب پڑھنے کا رجحان ملتا ہے۔ بلوچستان میں ایک سو سے زائد روزنامے کوئٹہ سے شائع ہوتے ہیں لیکن مارکیٹ میں ایک درجن ہی پہنچ پاتے ہیں۔ بلوچستان میں صحافت خطرناک ترین شعبہ ہے، جہاں حقائق منظرعام پر نہ لانے کے لیے صحافیوں کو سکیورٹی اداروں، مسلح گروہوں اور مختلف سیاسی، سماجی و مذہبی تنظیموں کی جانب سے دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

پیشہ ورانہ امور کی انجام دہی کے دوران بلوچستان کے مختلف اضلاع میں گزشتہ چند سالوں کے دوران تیس کے قریب صحافی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ صحافیوں کے لیے مہلک ترین علاقوں کی فہرست میں بلوچستان پہلے نمبر پر ہے۔ پاکستان میں پشتو زبان بولنے والے لوگوں کی تعداد خاصی ہے مگر پشتو صحافت کی حالت پتلی ہے۔ پشتو کا سب سے بڑا اخبار ”وحدت“ ہے جو 1933 سے 1985 تک بطور ہفت روزہ شائع ہوتا رہا۔ دوسرا اہم اخبار ”خبرونہ“ ہے جو ”وحدت“ کے مقابلے میں زیادہ جمہوری اور ترقی پسند ہے۔ 2010 میں پشتو کا ایک اور اخبار ”جرگہ“ کے نام سے جاری ہوا۔

پاکستان بننے کے تقریباً چالیس سال بعد پنجابی زبان کا پہلا روزوار اخبار ”سجن“ 1989 میں ترقی پسند خیالات کے صحافیوں حسین نقی، ظفریاب احمد اور شفقت تنویر مرزا کی بدولت منظر عام پر آیا، مگر اکیس ماہ کے بعد ہی کسمپرسی کے عالم میں وفات پاگیا۔ 1997 میں پنجابی کے دوسرے روزوار اخبار ”بھلیکا“ کا آغاز ہوا جو زیادہ پذیرائی حاصل نہ کر سکا مگر تاحال اشاعت جاری رکھے ہوئے ہے۔ 2004 میں خبریں گروپ کا اخبار پنجابی زبان میں بنام ”خبراں“ شائع ہونا شروع ہوا مگر بہت جلد بند ہو گیا۔11 جون 1990 کو ضلع رحیم یار خان سے پہلے سرائیکی روزنامے ”جھوک“ کی اشاعت کا آغاز ہوا۔

اکمل شہزاد گھمن صاحب کی کتاب  گلگت بلتستان کی صحافت اور اس پر گلگت کے معروف صحافیوں کی رائے پر اختتام پذیر ہوتی ہے۔

حال ہی میں پاکستانی صحافت پر ایک اور بہترین کتاب ”پی ایف یو جے : آزادی صحافت کی جدوجہد کے ستر سال“ بھی شائع ہوئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments