قرآن، تقوی اور رمضان


اللہ تبارک و تعالٰی نے انسان کو ایک عظیم منصوبے کے تحت زمین پر بسایا۔ اس منصوبے میں انسان کے لئے رشد و ہدایت کا حصول ممکن بنا کر انسان کو مختلف صلاحیتوں سے نوازا گیا۔ ان صلاحیتوں میں سماعت، بصارت اور فہم و ادراک کو خاصی اہمیت حاصل ہے۔ ان صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر انسان ہدایت کے ذرائع تک پہنچتا ہے اور ہدایت کی راہ پر گامزن رہ کر اس کو نہ صرف عرفان حق ہوتا ہے بلکہ اسے خدا کی ابدی رضامندی بھی حاصل ہوتی ہے۔ اس طرح انسان اس مقام کو حاصل کرتا ہے جس کے حصول کے لئے اسے زمین پر بھیجا گیا ہے۔

انسان خدا کی طرف سے ودیعت کی گئی اندرونی قابلیتوں اور صلاحیتوں کو استعمال کر کے بھی اپنے مقصد زندگی تک پہنچ سکتا تھا، لیکن اس صورت میں اسے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا۔ اس صورت میں یہ امکان بھی تھا کہ دنیا کی الجھاؤ سے پر مختلف راہوں میں سے صراط مستقیم یا سواء سبیل کا انتخاب انسان کو تذبذب کا شکار کر سکتا تھا۔ اس لئے خالق کائنات نے انسان کے لئے خارج میں بھی ہدایت کا انتظام کیا تاکہ اس کے لئے ہدایت کا حصول آسان ہو۔

انسان کے لئے صراط مستقیم کے حصول کی تسہیل کے لئے اللہ تبارک و تعالٰی کی طرف سے ابتدائے آفرینش سے ہی انبیاء کو مبعوث کیا جاتا رہا۔ اس کا اعلان خالق کائنات نے آدمؑ کو زمین پر بھیجنے کے ساتھ ہی کر دیا تھا:

”ہم نے کہا تم سب یہاں سے چلے جاؤ، جب کبھی تمہارے پاس میری ہدایت پہنچے تو اس کی تابعداری کرنے والوں پر کوئی خوف و غم نہیں۔“ (البقرہ: 38 )

انسان کو فطرت سالم (الروم: 30 ) پر تخلیق کرنے اور اسے فجور اور تقویٰ کی سمجھ بوجھ (الشمس: 8 ) عطا کرنے کے علی الرغم اللہ تعالٰی کی طرف سے خارج میں انسان کی ہدایت کا اعلیٰ انتظام کیا گیا، جس کا ذکر مندرجہ صدر آیت میں کیا گیا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انسان ”پیدائشی گناہگار“ ہے اور نہ ہی اسے تاریکیوں میں بھٹکنے کے لئے چھوڑ دیا گیا ہے۔ خارج سے ملنے والی ہدایت آدمؑ سے لے کر محمد ﷺ تک مختلف صحیفوں اور کتب کی شکل میں انسانیت کو عطا کی گئی۔

ہر صحیفے اور ہر کتاب میں یہ ہدایت نور بن کر انسان کی راہوں کو روشن کرتی رہی۔ ہدایت کی اس ترسیل کا قرآن میں مختلف اسالیب میں اظہار کیا گیا ہے۔ تورات کے بارے میں فرمایا کہ ”ہم نے تورات نازل فرمائی ہے جس میں ہدایت و نور ہے۔“ (المائدہ: 44 ) اسی طرح انجیل کے بارے میں فرمایا کہ ”ہم نے انہیں انجیل عطا فرمائی جس میں ہدایت و نور ہے۔“ (المائدہ: 46 ) مختلف صحیفوں کے بارے میں اعلان کیا گیا کہ ”اور آخرت بہت بہتر اور بہت بقاء والی ہے۔ یہ باتیں پہلی کتابوں میں بھی ہیں۔ (یعنی) ابراہیم اور موسیٰ کی کتابوں میں۔“ (الاعلیٰ: 17۔ 19 ) یہی بات قرآن میں بڑے واشگاف انداز میں کہی گئی ہے : ”(قرآن) جس میں ہدایت کی اور حق و باطل کی تمیز کی نشنیاں ہیں۔“ (البقرہ: 184 )

اس طرح سے تمام کتب سماوی کا مقصد یہ رہا ہے کہ انسان کو زندگی کے تئیں سنجیدہ بنایا جائے تاکہ انسان دنیاوی زندگی کی مختصر مدت پر فریفتہ ہونے سے بچ جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ انسان کو یہ بھی باور کرایا جاسکے کہ اسے ”نفس امارہ“ کے حوالے نہیں کیا گیا ہے کیوں کہ ”بیشک نفس (امارہ) تو برائی پر ابھارنے والا ہی ہے، مگر یہ کہ میرا پروردگار ہی اپنا رحم کرے۔“ (یوسف: 53 )

انسان کو سمجھایا جائے کہ اسے آسمانی ہدایت کی روشنی میں ”نفس لوامہ“ کو بروئے کار لانا ہے تاکہ وہ شیطان کی وسوسہ اندازیوں سے خود کو محفوظ رکھ سکے : ”میں قسم کھاتا ہوں قیامت کے دن کی۔ اور قسم کھاتا ہوں اس نفس کی جو ملامت کرنے والا ہو۔“ (القیامہ: 1۔ 2 )

اسی صورت میں انسان کے لئے ”نفس مطمئنہ“ کا حصول ممکن ہے اور وہ ابدی کامیابی اور کامرانی سے ہمکنار ہو سکتا ہے: ”اے اطمینان والی روح! تو اپنے رب کی طرف لوٹ چل اس طرح کہ تو اس سے راضی وہ تجھ سے خوش۔ پس میرے خاص بندوں میں داخل ہو جا۔ اور میری جنت میں چلی جا۔“ (الفجر: 27۔ 30 )

اور یہی ایک راستہ ایسا ہے جس پر چل کر انسان ”قلب سلیم“ لے کر اللہ کی بارگاہ میں حاضری کے قابل ہو سکتا ہے : ”اور جس دن کہ لوگ دوبارہ جِلائے جائیں مجھے رسوا نہ کرنا۔ جس دن کہ مال اور اولاد کچھ کام نہ آئے گی۔ لیکن فائدہ والا وہی ہو گا جو اللہ تعالٰی کے سامنے بے عیب دل لے کر جائے۔“ (الشعراء: 87۔ 89 )

زندگی کے تئیں سنجیدگی پر مبنی اسی رویے کو قرآن نے تقویٰ سے تعبیر کیا ہے۔ دراصل یہ ایک ایسا رویہ یا طریقہ زندگی ہے جو اس زندگی کی مہلت کو اگلی آنے والی پائیدار زندگی کی فلاح کے لئے استعمال کرنے کے گر سکھاتا ہے۔ قرآن حقیقت میں اسی رویے کی ایک آخری، ابدی اور عالمگیر تشریح اور توضیح ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگرچہ قرآن پوری انسانیت کے لئے ہدایت کا ابدی پیام ہے، لیکن اس سے ہدایت وہی لوگ حاصل کرتے ہیں جو زندگی کے بارے میں سنجیدہ، یعنی متقی ہوتے ہیں۔ قرآن کی رو سے : ”الم۔ اس کتاب (کے اللہ کی کتاب ہونے ) میں کوئی شک نہیں۔ (متقین) پرہیزگاروں کو راہ دکھانے والی ہے۔“ (البقرہ: 1۔ 2 )

اب جہاں تک تقویٰ کی ہمہ جہتی کا تعلق ہے تو یہ ایک ایسا رویہ ہے جو پوری زندگی کا احاطہ کرتا ہے۔ یہ کسی خاص وضع قطع کا نام ہے اور نہ ہی یہ کسی امتیازی شکل و صورت اختیار کرنے کو کوئی اہمیت دیتا ہے۔ تقویٰ دراصل انسان کو اتنا حساس اور سنجیدہ بنا دیتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کا ہر پل احساس خداوندی میں گزارنا سیکھ جاتا ہے۔ تقویٰ انسان کے ہر عمل کو آخرت رخی اور خدا رخی بنا دیتا ہے۔ انسان کسی بھی راہ پر چلے لیکن اس کا زاد راہ ہمیشہ تقویٰ ہوتا ہے : ”اور اپنے ساتھ سفر خرچ لیا کرو، سب سے بہتر توشہ اللہ تعالٰی کا ڈر (تقویٰ) ہے اور اے عقلمندو! مجھ سے ڈرتے رہا کرو۔“ (البقرہ: 197 )

انسان کوئی بھی لباس زیب تن کرے لیکن اس کی اصل زینت تقویٰ ہوتا ہے : ”اے آدم کی اولاد! ہم نے تمہارے لئے لباس پیدا کیا جو تمہاری شرمگاہوں کو بھی چھپاتا ہے اور موجب زینت بھی ہے اور تقویٰ کا لباس، یہ اس سے بڑھ کر ہے۔ یہ اللہ تعالٰی کی نشانیوں میں سے ہے تاکہ یاد رکھیں۔“ (الاعراف: 26 )

انسان کسی بھی غذا کو اپنا طعام بنائے لیکن اس کے ہر لقمے اور نوالے سے تقویٰ کی صفت ٹپکتی ہے : ”اللہ تعالٰی کو قربانیوں کے گوشت نہیں پہنچتے نہ ان کے خون بلکہ اسے تو تمہارے دل کی پرہیزگاری (تقویٰ) پہنچتی ہے۔“ (الحج: 37 )

اسی تقویٰ کے سبق کو اللہ تبارک و تعالٰی نے قرآن کی صورت میں سیدالانبیاء ﷺ پر نازل فرما کر انسان کی تقویٰ شعاری کے لئے ابدی اور آفاقی انتظام کیا۔ تقویٰ کا یہ درس قرآن کے ورق ورق سے جھلکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ نبی ﷺ کی حیات طیبہ اسی تقوی شعاری کی اعلیٰ ترین مثال تھی۔ یعنی آپ ﷺ کا خلق ”خلق قرآن“ ہی تھا اور جس زمانے میں قرآن کا نزول شروع ہوا اس وقت آپ ﷺ غار حرا میں ایک اعتبار سے روزے کی حالت میں تھے۔ چوں کہ صوم کا مقصد حصول تقویٰ ہے اور قرآن کا مقصد نزول بھی تقویٰ ہی ہے، اس لئے رمضان المبارک میں صوم کی فرضیت کا حکم دے کر نزول قرآن کے دور کو تقویٰ (البقرہ: 183 ) کا موسم بنا دیا گیا۔

اس طرح تقویٰ کے نصاب (قرآن) ، نزول قرآن کے دور (رمضان) اور تقویٰ کی مشق (صوم) کے درمیان ایک خاص مماثلت اور مطابقت پیدا کی گئی۔ کسی تشبیہہ کے بغیر کہا جا سکتا ہے کہ جیسا پاکیزہ اور نورانی ماحول نزول قرآن کی ابتدا کے وقت غار حرا کے اندر تھا کچھ ویسا ہی ماحول مومنین کی بستیوں میں کیا جاتا ہے تاکہ پاکیزہ ماحول میں پاکیزہ کلام کا استقبال کیا جا سکے۔ ساتھ ساتھ مومنین کے پاکیزہ وجود اللہ تعالٰی کی نعمت عظمیٰ کے لئے اللہ کا شکر بجا لائیں:

”اللہ تعالٰی کا ارادہ تمہارے ساتھ آسانی کا ہے، سختی کا نہیں، وہ چاہتا ہے کہ تم گنتی پوری کرو اور اللہ تعالٰی کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی بڑائیاں بیان کرو اور اس کا شکر کرو۔“ (البقرہ: 185 )

رمضان میں دوران صوم قرآن کے توسط سے مومن کا جو رشتہ اللہ کے ساتھ استوار ہوتا ہے، اس کو علامہ اقبال کا یہ شعر بیان کرتا ہے :

تیرے وجود پر جب تک نہ ہو نزول کتاب
گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشاف

مطلب یہ کہ مومن کا وجود روحانیت کی اس سطح پر آ جاتا ہے جہاں اس پر قرآن کے اسرار و غوامض کھل جاتے ہیں اور اس کے لئے نہ صرف ہدایت پانا آسان ہو جاتا ہے بلکہ وہ اس ہدایت پر اللہ تعالٰی کا ہمہ تن شکر گزار بن جاتا ہے۔ اب وہ اسی کلام کے ذریعے اللہ تعالٰی سے دن رات سرگوشیاں کرتا ہے :

”جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں۔ ہر پکارنے والے کی پکار کو جب کبھی وہ مجھے پکارے، قبول کرتا ہوں۔ اس لئے لوگوں کو بھی چاہیے کہ وہ میری بات مان لیا کریں اور مجھ پر ایمان رکھیں، یہی ان کی بھلائی کا باعث ہے۔“ (البقرہ: 186 )

یہی معنی ہیں اس حیث مبارک کے کہ ”جب رمضان کا مہینہ آ جاتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کیے جاتے ہیں اور سرکش شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے۔“ یعنی رمضان قرآن کی تحریک تزکیہ و تقویٰ کی کچھ اس انداز میں تجدید کرتا ہے کہ مومن پاکیزگی کی وہ سطح حاصل کر لیتا ہے جس کے بغیر جنت میں داخلہ ناممکن ہے۔

اس طرح قرآن کی جبریلؑ کے ذریعے غار حرا میں ابتدا اور سید الانبیاء ﷺ کی حیات مبارکہ کے آخری رمضان میں قرآن کو جبریلؑ ہی کے ذریعے ”العرضہ الآخرہ، (Last Presentation) کے تحت ترتیب دیا جانا اس بات کے غماز ہیں کہ قرآن، رمضان اور تقویٰ رسالت مآب ﷺ کی تحریک تزکیہ کے اجزاء لاینفک ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments