حوادث میں قیادت و رہبری کا امتحان


کسی بھی تحریک کے دوران پیش آنے والے حوادث و واقعات اس تحریک کی کامیابی یا ناکامی میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر تحریک کی قیادت ایک بابصیرت اور دور اندیش رہبر کے ہاتھ میں ہو تو ہر پیش آنے والا حادثہ تحریک کے سفر کو مزید تیز کر دیتا ہے لیکن اگر قیادت و رہبری کے اندر حوادث کا رخ موڑنے کی صلاحیت موجود نہ ہو تو یہ تحریک بہت جلد دم توڑ دیتی ہے۔

حوادث کی مدد سے سب سے پہلا اور اہم کام یہ لیا جاتا ہے کہ لوگوں کو موجودہ نظام سے مطلقاً بیزار کر دیا جائے۔ کیونکہ عوام ہمیشہ حکومت کی طرف سے ہمدردی کی امید رکھے ہوئے ہوتے ہیں اور یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ انقلاب کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ فاسد نظام سے وابستہ امیدیں ہی ہوتی ہیں۔ قیادت کا کام ہے کہ پیش آنے والے حوادث کی مدد سے عوام کے اندر موجود ان جھوٹی امیدوں کو ختم کر کے یہ باور کروا دے کہ فاسد نظاموں سے کسی بھی قسم کی بھلائی کی امید رکھنا عبث ہے۔

حوادث کے دوران نام نہاد انقلابی شخصیات اور تنظیموں کا چہرہ بھی عوام کے سامنے عیاں ہو جاتا ہے کیونکہ ان نام نہاد انقلابی گروہوں کا انقلابی فکر یا انقلابی اقدامات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ یہ صرف انقلاب کے حامی ہوتے ہیں اور وہ بھی نام کی حد تک۔ نام نہاد انقلابی قیادتیں درحقیقت حوادث کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتی ہیں نہ کہ انقلاب کی کامیابی کے لیے۔ لہٰذا اس طبقے سے انقلاب کی امید رکھنا بانجھ عورت سے بچے کی امید رکھنے کے مترادف ہے۔ قیادت و رہبری کے لیے سب سے دشوار ترین کام اسی نام نہاد انقلابی اور مقدس معاب طبقے سے عوام کو دور کرنا ہے اور اس کام کو حوادث آسان بنا دیتے ہیں۔

اکثر حوادث کے بعد حکومت کی طرف سے عوامی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے چند اقدامات کیے جاتے ہیں، مثلاً جاں بحق ہو جانے والوں یا زخمیوں کے لیے مالی امداد کا اعلان کر دینا، بیواؤں اور ان کے بچوں کے لیے مالی اور تعلیمی امداد مہیا کر دینا وغیرہ۔ اگر کوئی بھی حکومت کسی حادثے کے بعد یہ امدادی چیک تقسیم کرنے میں کامیاب ہو جائے تو گویا انقلابی تحریک کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے۔ کیونکہ عوام کے اندر ایجاد کی ہوئی بیزاری دوبارہ امید میں بدل جاتی ہے اور لوگ اسی ظالم و ستم گر حکومت کو اپنا خیر خواہ سمجھنے لگتے ہیں لہٰذا قیادت و رہبری کا ایک اہم تقاضا یہ کہ حوادث کے بعد حکومت کی طرف سے کیے جانے والے ایسے کاذب اقدامات کو مکمل طور پر غیر مؤثر بنا دیا جائے۔

اس کے علاوہ حوادث کی مدد سے نوع مبارزہ کو مشخص کرنا بھی بابصیرت رہبر کا ہی کام ہے، ممکن ہے کسی حادثے کے وقوع پذیر ہونے سے پہلے تحریک ایک اور طرح سے فاسد حکومت کے خلاف اپنا قیام جاری رکھے ہوئے ہو لیکن حادثہ رونما ہو جانے کے بعد مبارزے کی نوعیت کو تبدیل کر دینے کے لیے ایک اہم قائدانہ صلاحیت کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ ان حوادث کو عوامی بیداری کے لیے استعمال کیا جا سکے اور تحریک کے اندر مزید تیزی لائی جا سکے۔

مدرسہ فیضیہ کے سانحے کے بعد شاہ مطمئن تھا کہ اب اسلامی تحریک عبرت کا نشان بن چکی ہے اور کوئی بھی حکومت مخالف اقدامات کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ فیضیہ سانحہ کی وجہ سے پیدا ہونے والے خوف و ہراس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومت نے آئندہ محرم کی مجالس میں خطباء و ذاکرین پر مجالس میں کسی بھی طرح کی سیاسی بات کرنے پر مکمل پابندی عائد کر دی۔ بالخصوص یہ کہنے پر پابندی عائد کر دی گئی کہ ”اسلام خطرے میں ہے“ (یہ پیغام امام خمینی اپنی تقریروں میں دیا کرتے تھے)۔

5 جون 1963 کو امام خمینی نے یوم عاشور کی مجلس کے دوران ایک ایسی حکومت مخالف تقریر کی جس نے عوام اور حکومت دونوں کے ہوش اڑا دیے، امام خمینی نے اس تقریر میں شاہ کو شدید تحقیر و تذلیل کا نشانہ بنایا اور اس کے ظلم و ستم کو یزید کے ظلم و ستم سے تشبیہہ دی۔ امام خمینی نے عوام کو بتایا کہ جو جنایت شاہ نے مدرسہ فیضیہ میں انجام دی ہے یہی درحقیقت اس کا اصلی چہرہ ہے اور اس یزید صفت حکومت سے کسی بھی بھلائی کی توقع رکھنا حماقت ہے۔

اس تقریر کے دوسرے روز ہی ساواک (خفیہ ایجنسی) کے لوگ آئے اور امام خمینی کو گرفتار کر کے تہران لے گئے۔ امام خمینی کی گرفتاری کی خبر عام ہوتے ہی قم، تہران، شیراز اور مشہد میں شاہ مخالف احتجاجات کا سلسلہ شروع ہو گیا اور پہلی مرتبہ ایران میں ”مرگ بر شاہ“ (مردہ بادشاہ) کا نعرہ فضاؤں میں گونجنے لگا۔ شاہ کے مشیروں نے اس کو مشورہ دیا کہ یہ چند لوگ ہیں اور ان کے ساتھ کوئی بھی عوامی حمایت شامل نہیں ہے لہٰذا ان احتجاجات کو کچل کر ادھر ہی ختم کر دینا چاہیے۔

شاہ نے ایسا ہی کیا، فوج سڑکوں پر آ گئی، سراپا احتجاج لوگوں پر گولیاں برسائی گئیں اور دن دیہاڑے نہتے عوام کا قتل عام کیا گیا۔ ملک بھر میں کرفیو نافذ کر دیا گیا اور ہنگاموں میں کسی حد تک کمی آ گئی۔ اس سے قبل شاہ نے دنیا میں یہ تأثر قائم کیا ہوا تھا کہ ایرانی عوام شاہ سے بہت محبت کرتی ہے اور حکومت سے راضی ہے لیکن اس قتل عام نے دنیا بھر میں شاہ کی حیثیت مخدوش کر دی۔

دوسری طرف قم میں موجود انقلابی علماء نے ایسا ماحول بنا دیا تھا کہ سیاست سے لاتعلق یا  غیر انقلابی علماء میں سے بھی کئی افراد انقلابی میٹنگز میں شرکت کرنے لگے۔ علماء کی ایک میٹنگ میں امام خمینی کے حق میں اور شاہ کے مخالف ایک قرارداد منظور کی گئی جس پر علماء کی کثیر تعداد نے دستخط کیے۔ علماء نے حکومت کو متنبہ کیا کہ اگر امام خمینی کو رہا نہ کیا گیا تو ملک بھر میں احتجاجات کا سلسلہ دوبارہ شروع کر دیا جائے گا۔

اس اعلان کے بعد شاہ نے امام خمینی کو آزاد تو کر دیا لیکن ساتھ ہی میڈیا میں یہ بات کہلوا دی کے امام خمینی اور حکومت کے درمیان اس بات پر اتفاق ہو گیا ہے کہ یہ آئندہ سیاست میں مداخلت نہیں کریں گے۔ امام خمینی نے اس خبر کی یکسر تردید کرتے ہوئے کہا کہ ایسا کوئی معاہدہ حکومت کے ساتھ نہیں ہوا بلکہ شاہ کی اسلام مخالف حکومت کے خلاف جو اقدامات شروع کیے تھے وہ جاری رکھیں گے۔

یہ وہ موقع تھا جب امام خمینی کو انقلابی تحریک کے قائد و رہبر کے عنوان سے عوام کے اندر قبول کر لیا گیا اور اس کے ساتھ ہی دیگر تمام نیشنلسٹ، کمیونسٹ، یا نام نہاد انقلابی افراد کا کردار بھی عیاں ہو گیا جو اس سے قبل انقلابی تحریک کی قیادت کے دعوے دار تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments