میری ہکلاہٹ اور اس سے جڑی کہانیاں



انگریزی میں ہکلانے کو پتا نہیں کیا کہتے ہوں گے لیکن پنجابی زبان میں ہکلانے کو ”گئیر اڑنا“ کہتے ہیں، آپ یقیناً ہنس پڑے ہوں گے لیکن جب ہمیں یہ سننے کو ملتا ہے تو اتنا پارا چڑھتا ہے کہ بندہ صرف ماں اور بہن کی گالی دینے پر ہی بس کرتا ہے، کیونکہ بیٹیاں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں، میں ہکلانے کو ایک بہت بڑا مسئلہ سمجھتا ہوں، ویسے آپ نہ بھی سمجھتے ہوں تو کوئی بڑی بات نہیں ہے، کیونکہ ہم پوری دنیا کی آبادی کا صرف ایک فیصد حصہ ہیں، دنیا میں سات کروڑ ایسے لوگ پائے جاتے ہیں، جن کے گئیر اڑتے ہیں اور یہ عمر کے کسی حصے میں بھی ہو سکتے ہیں، ایک مشہور مصنف کے تحقیقی مضمون کا ایک حصہ ملاحظہ فرمائیں، میں اسے مشہور اس لئے بھی کہ رہا ہوں کیونکہ یہ ہمارے متعلق گفتگو کر رہا ہے۔

بیتھ گلبرٹ اپنے مضمون ’ہکلاہٹ: فسانہ یا حقیقت‘ میں لکھتے ہیں کہ ہکلاہٹ کے مرض کی ماہر کیتھرین منٹگمری کا ایک مریض ہکلانے کے ساتھ ساتھ نابینا بھی تھا۔ اس سے کسی نے ایک مرتبہ پوچھا کہ کیا چیز اس کی زندگی میں زیادہ مشکلات پیدا کر رہی ہے، اس کا نہ دیکھ سکنا یا ہکلانا؟ اس نے ایک لمحہ کے لیے سوچا اور بولا ”ہکلاہٹ، کیونکہ لوگ نہیں سمجھتے کہ ہکلانا میرے اختیار سے باہر ہے۔“

یہ پڑھ کر آپ افسوس کا اظہار ضرور کریں گے لیکن چند لوگ ابھی بھی شکی نگاہ سے اس مریض کو دیکھیں گے کہ یہ کیسا عجیب مریض جسے دیکھنے سے زیادہ ہکلاہٹ کی فکر ہے۔

وجوہات کیا ہیں ، یہ تو کوئی ماہر ہی بتا سکتا ہے نہیں تو کچھ تھوڑی بہت تحقیق مصنف نے بھی کر رکھی ہے، آگر آپ مجھے مصنف ماننے کو تیار ہیں تو چلیں میں بتا ہی دیتا ہوں ، ویسے شکل سے نہ میں لکھنے والا لگتا ہوں نہ بولنے میں ہکلانے والا ، خیر شکل تو ویسے بھی تمام لکھاریوں کی غضب ناک ہی ہوتی ہے، اور ہکلانے والا ضروری نہیں کہ ساتھ کوئی ٹرانسلیٹر بھی رکھے۔

پہلی بنیادی وجہ تو یہ بتائی جاتی ہے کہ تقریباً تمام بچے ہی ایک خاص عمر تک بولنا سیکھتے رہتے ہیں، اور اس عمل کے دوران وہ ہکلا کر یا توتلا بولتے ہیں، پھر یہ سیکھنے کا مرحلہ جب گزر جاتا ہے تو اٹھانوے فیصد بچے ٹھیک انداز سے بولنا شروع کر دیتے ہیں اور دو فیصد بچے وہی پرانی روش اختیار کیے رکھتے ہیں، اور ہکلا ہکلا کر وہ لوگوں کو ہنسانے کا موجب بنتے رہتے ہیں۔

دوسری وجہ بولنے کے خلیوں کی کمزوری بتائی جاتی ہے، یہ کمزوری نشو و نما میں کمی کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہے، اور یہ نشو و نما میں کمی والی حرکت تو میرے ساتھ ضرور ہوئی ہو گی، لیکن یہ کمزوری دوسری کمزوریوں سے ذرا ہٹ کر الگ نوعیت کی ہے۔

تیسری وجہ نفسیاتی طور پر دباؤ کا شکار ہونا بھی ہے، اور یہ وجہ سب سے زیادہ پائی جاتی ہے، کیونکہ بولنے سے پہلے ہی ہم اگلے انسان کو چول سمجھ بیٹھتے ہیں کہ وہ تو ضرور ہنسے گا، آب سنجیدہ گفتگو یہاں پر ختم کرتے ہیں ، نہیں تو ہم مظلوم تصور کیے جائیں گے، اور آپ نے بجائے ہمدردی دکھانے کے آپ ہم پر ہنسنا ہی ہے۔

ہنسنا آپ کا حق بنتا ہے کیونکہ جس طرح ہم ہکلاتے ہیں اس سے میری اپنی ہنسی بھی نکل جاتی ہے، ایک واقعہ یاد آتا ہے، نوکری کے سلسلے میں ایک انسان نما ایجنٹ کو فون کرنا تھا، اب میں بات کرنے سے پہلے ہی نفسیاتی طور پر ہکلاہٹ کا شکار تھا، کال جا رہی تھی اور میں ن سے ن غنہ بنانے میں مصروف تھا، ایجنٹ نے ہیلو ہائے کے بعد نام پوچھا تو گئیر اڑنا شروع، گئیر ایسے اڑے کہ مکمل خاموشی چھا گئی، وہ بیچارہ کسی ٹریفک جام میں کھڑا تھا، مکمل خاموشی محسوس کرتے ساتھ ہی کہنے لگا ”جے نام ذہن اچ نئی آ ریا تے آلے دوآلے کسی کولوں پچھ لے(اگر نام ذہن میں نہیں آ رہا تو آس پاس کسی سے پوچھ لو)“ اب بھلا یہ کوئی بات ہے کرنے والی؟ ایسے بہت سے واقعات جو ہر لمحے وقوع پذیر ہوتے ہیں، سب بتائے نہیں جا سکتے کیونکہ کچھ میں مزاح نہیں ہوتا اور کچھ حد سے زیادہ سنجیدہ ہو جاتے ہیں۔

عموماً بات چیت کے دوران ہم چھوٹے فقرے استعمال کرتے ہیں، اور جتنا جلدی ہو سکے جملہ ادا کر دیتے ہیں، نہیں تو زبان کو بھنک پڑ جاتی ہے کہ بندہ کچھ ضرورت سے زیادہ ہی بول رہا ہے، ابھی تک میرا واسطہ کسی اپنے جیسے سے نہیں پڑا، نہیں تو ہم ابھی تک ایک ہی بات کو لے کر بیٹھے ہوتے۔

میرے والد نے مجھے خاصا مایوس کیا ہے، شاید اس لئے دل سے ان کے لئے کبھی اچھی بات نہیں نکلتی، ایک دفعہ کا ذکر ہے میں ان کے پاس بیٹھا چھٹی جماعت کا سبق پڑ رہا تھا اور اس کے ساتھ دوسری بدقسمتی یہ کہ سبق بھی انگریزی کا تھا، اب مجھ سے ڈبل آر (rr) ایک ساتھ نہیں پڑھا جا رہا تھا، میں اسے آسان زبان میں آر آر پڑھ رہا تھا، بس پھر ابا جان نے مجھے چھٹی کا دودھ یاد کرا دیا ، سب کے سامنے کتے کی طرح مارا۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ نویں جماعت کی کتابیں اٹھا کر انہوں نے میرے سامنے زمین پر پھینک دیں ، کہنے لگے تم نے کیا زندگی گزارنی ہے؟ کیونکہ مجھے سبزی والے کے سامنے ”دیسی ٹینڈے“ بولنے نہیں آئے تھے، آپ کو یہ مزاح لگ رہا ہو گا، لیکن ابھی ہم پر اتنا بھی برا وقت نہیں آیا کہ ایسے واقعات کو مزاح بنایا جائے، خیر اسی لئے مجھے ٹینڈے پسند نہیں ہیں۔

ابھی تک اپنوں میں ایسا کوئی نہیں ملا جس نے میرا مذاق اڑایا ہو یا بنایا ہو، ویسے اپنا کوئی ایسی حرکت کر بھی دے تو برا نہیں لگتا، اور وہ دوست تو سب سے پیارا لگتا ہے جو میرا ہکلاہٹ والا جملہ مکمل کر کے میرا منہ بند کرائے، ایسا عموماً قریبی دوست اور گھر والے ہی کرتے ہیں، اور کچھ تو اتنے منحوس ہوتے ہیں، ایٹم (مؤنث والی) دیکھتے رہتے ہیں لیکن مجال ہے کہ جملہ مکمل کر دیں، میرا جگری دوست بلال اسے میری عادت سمجھتا تھا، اکثر کہتا تھا یہ عادت نہ چھوڑیں توں۔

باتیں کرنے والی بہت ہیں لیکن میں نہیں چاہتا کہ ہم مظلوم بنیں، ہمیں تو سینہ تان کر چلنا ہے، کیا ہوا جو ہم بولنے میں ہکلاتے ہیں لیکن یہ کوئی عیب نہیں ہے، بڑے بڑے لوگ ہکلاتے تھے میں ان کا نام لکھ کر اپنی اہمیت کم نہیں کرنا چاہتا، اور تو اور ہم پر فلمیں بھی بن چکی ہیں، جس میں ہمیں ایک ایٹم (آئٹم) کے طور پر پیش کیا گیا ہے، یہ وہ سٹیج ڈرامے والی مؤنث ایٹم ہے، مذکر تو دھماکے والا ہوتا ہے، یاسر حسین نے ہکلانے والا رول کراچی سے لاہور اور پھر لاہور سے آگے میں کیا اور کیا کمال ادا کیا، اسی لئے مجھے وہ پسند ہے، لیکن اس کی بیوی کو ابھی تک میں نے اس کی بیوی تسلیم نہیں کیا، زبان میں ہکلاہٹ ضرور ہے لیکن جنسی درندگی میں ابھی تک کوئی ہکلاہٹ نہیں ہے، برطانیہ کے ایک بادشاہ پر ہالی ووڈ کی فلم بھی بن چکی ہے، جس کی چند جھلکیاں میری نظر سے گزری ہیں ، یقین مانیں رونا آتے آتے رہ گیا، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہم ایک فیصد ہی سہی کم از کم اپنی جگہ تو رکھتے ہیں۔

یہ مضمون میرے علاوہ کسی اور ہکلانے والے میرے دوست تک پہنچنے کی ویسے امید تو نہیں ہے لیکن پھر بھی اگر کسی کمینے دوست یا قارئین نے آگے شیئر کر دیا تو اسے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ ہکلانا عیب نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments