اردو ترجمے کا مفہوم، ضرورت و اہمیت اور اغراض و مقاصد


زندگی جہاں بھی اپنا اظہار کرتی ہے ، اپنا نظام اور ماحول خود بنا لیتی ہے۔ اگر گردوپیش میں دیکھا جائے تو مختلف جاندار اور بے جان اشیاء اپنے وجود کا اظہار کرتی نظر آتی ہیں۔ جانداروں میں حیوان، درندے، انسان اور نباتات ہیں اور بے جان اشیاء میں پہاڑ، دریا، صحرا، جنگل، زمین اور پانی وغیرہ موجود ہیں۔ ماحول میں ہر وقت مختلف طرح کی آوازیں اپنا اظہار کر رہی ہیں۔ یہ آوازیں درحقیقت اشارات اور علامات ہیں۔ جب بادل گرجتے ہیں اور بارش برستی ہے تو جاندار اس آواز کو سنتے ہی اپنی اپنی پناہ گاہ کی طرف جانے لگتے ہیں۔

گویا یہ ایک پیغام ہے کہ اپنی حفاظت کر لی جائے بارش ہونے والی ہے۔ ہر ذی روح اپنے ماحول کی ان آوازوں کو پہچانتا ہے۔ اور یہ آواز صوت ہے۔ انسان دیگر جانداروں کی نسبت ترقی یافتہ ہے ، اس لیے اس نے ان اصوات کو علامتیں دی ہیں ، یہ علامتیں حروف ہیں۔ حروف الفاظ بنتے ہیں اور الفاظ جملے اور اس طرح متن۔ بنظر غائر دیکھا جائے تو یہ علامتیں ایک معانی رکھتی ہیں ان آوازوں کا جن کا یہ اظہار ہیں۔ آواز اور حرف کا گہرا رشتہ ہوتا ہے۔

آواز ایک حقیقت ہے اور معنی اس کا سایہ ہے۔ اصل آواز ہے علامت ظل ہے۔ گویا معنی اس آواز کا ترجمہ ہے۔ جب بھی کوئی لفظ بولا جاتا ہے یا لکھا جاتا ہے اس کے معنی پڑھنے یا سننے والے کے ذہن میں ترجمہ کے عمل سے ہی واضح ہوتے ہیں۔ گویا آواز، صوت، علامت یا معنی ان سب کا باہم رشتہ ترجمہ سے ہی عبارت ہو جاتا ہے۔

خالد محمود خان اپنی کتاب ”فن ترجمہ نگاری۔ نظریات“ میں لکھتے ہیں:

”انسان اپنی جدت پسندی اور اختراعی صلاحیت کی وجہ سے آوازوں کی علامتوں کو معنی بنا لیتے ہیں۔ دیگر ذی روح ان آوازوں کو خاص واقعہ یا چیز کی علامت سمجھتے ہیں۔ کوئی آواز اور اس کی علامت معنی کا درجہ حاصل کر لیتی ہے۔ علم لسانیات میں ان آوازوں کو لفظ کہتے ہیں۔ ہر لفظ کے معنی ہوتے ہیں۔ ان لفظوں کو لغت کہا جاتا ہے ، ان کے معنی اپنے پس منظر میں آوازوں یعنی لفظوں سے گہرا تعلق رکھتے ہیں“

ترجمہ کا معنی و مفہوم

ترجمہ عربی زبان کا لفظ ہے ، کسی ایک زبان کے مافی الضمیر کو دوسری زبان میں ڈھالنا ترجمہ کہلاتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو ترجمہ ایک زبان میں دوسری زبان کی تبدیلی ہوتا ہے جس میں مفہوم کو موجود رکھا جاتا ہے۔ اے ایچ سمتھ کے مطابق:

To translate is to change into another language retaining as much of the sense as one can.

 ’’ترجمہ ایک زبان سے دوسری زبان کی تبدیلی ہوتا ہے جس میں حتی الامکان مفہوم کو موجود رکھا جاتا ہے“ ۔ جب ترجمہ کیا جاتا ہے تو جس زبان میں ترجمہ کیا جا رہا ہے اور جس زبان سے کیا جا رہا ہے دونوں کی لغت کی معنویت کو تلاش کیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں سی جی کرافورڈ لکھتے ہیں:

The central problem of translation practice is that of finding TL translation equivalents. A central task of translation theory is that of defining the nature and condition of translation equivalence

”ترجمہ کی مشق کا مرکزی مسئلہ یہ ہے کہ ترجمہ کی زبان میں ساری معنویت کی لغت کو تلاش کیا جائے۔ ترجمہ کے نظریہ کا یہ مرکزی تقاضا ہے کہ معنویت کے مساوی لغت کی نوعیت اورکیفیت کی تعریف متعین کی جائے۔‘‘

ترجمہ کے مفہوم کو جانتے ہوئے یہ بات مدنظر رہنی چاہیے کہ ترجمہ کرتے ہوئے دونوں زبانوں کا آہنگ ایک سا ہو۔ آہنگ ایسے ہی ہوتا ہے جیسا کہ ایک سماجی عمل۔ اگر آہنگ میں تطابق اور یکسانیت نہیں ہو گی تو اس صورت میں ترجمے کا درست مفہوم کسی طرح بھی ادا نہیں ہو سکے گا۔ اور اگر ایک بات کہنے والا اپنی بات کو سمجھا ہی نہیں پا رہا تو اس کی اتنی محنت کا کیا فائدہ۔

ترجمہ کی تعریف میں ہنری میکنک کچھ یوں رقم طراز ہے:

It is a new field in the theory and in the practice of literature. Its epistemological importance lies in its contribution to the theoretical practice of homogeneity of the natural union between the signifier and the signified. This homogeneity is proper to that social enterprise which we call writing.

ادب کے نظریہ اور عمل میں یہ ایک نیا میدان ہے۔ اس کی علمیاتی اہمیت اس کے اسی کردار پہ منحصر ہے یہ نظریاتی عمل میں ہم آہنگی ہو جس میں نمایاں کار مظہر کو متصل کر دیا جاتا ہے۔ یہ ہم آہنگی سماجی عمل کی طرح ہے جسے ہم تحریر کہتے ہیں

ترجمہ کی ضرورت و اہمیت

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ترجمہ کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ انسان ایک سماجی جانور ہے ، اس کو اپنی ضروریات کے لئے دوسروں پہ انحصار کرنا پڑتا ہے۔ دوسروں لوگوں سے تعلقات بنانے پڑتے ہیں۔ ایک علاقے کی ثقافت اور کلچر دوسرے علاقے سے مختلف ہوتا ہے۔ زبان میں بھی فرق آئے گا۔ رسم و رواج اور علامات و اشارات بھی مختلف ہوں گے۔ جب ایک سماجی گروہ دوسرے گروہ سے لین دین، تجارت، سیاحت، سفارت یا بغرض علاج تعلقات قائم کرے گا تو اسے علامات و اشارات اور زبان کے مروجہ اظہار سے واقفیت حاصل کرنا لازمی ہو گی۔

اگر دیکھا جائے تو زمانہ قدیم میں جنگ و جدل ہوتی رہتی تھی۔ بادشاہ اپنی سلطنت کو وسعت دینے کے لیے دوسری قوموں پہ چڑھائی کر دیتے تھے۔ علاوہ ازیں اپنی قوم کے لیے نئے وسائل کی تلاش کی خاطر بھی جنگیں ہوتی رہی ہیں۔ ایک قوم کے لوگ دوسری قوم کے لوگوں سے تبادلہ خیال کیلے اپنے سفیر تعینات کرتے ہوں گے۔ یا لوگ سیر و سیاحت کی غرض سے آتے جاتے ہوں گے۔ ایک قوم کو دوسری قوموں کے ساتھ تعلقات بنانے پڑتے تھے۔ تعلقات بنانے میں جو بنیادی رکاوٹ ہوتی تھے وہ اپنی بات کا اظہار تھا۔

اب مافی الضمیر کے اظہار کے لیے ان کو زبان سیکھنی پڑتی تھی لیکن ظاہر بات ہے یہ ایک طویل عمل تھا۔ زبان سیکھنا فوری ممکن نہ تھا۔ ایک علاقے سے لوگ دوسرے علاقے میں بسلسلہ تجارت، علاج اور تعلیم سفر کرتے تھے۔ اور کچھ لوگ اتنے ذہین ہوتے تھے کہ وہ اپنی زبان کے ساتھ ساتھ دوسروں کی زبان بھی سیکھ لیتے تھے۔ اس صورت میں فاتح ان لوگوں کو اپنے کام میں لاتے تھے اور ان کو ترجمان بنا لیتے۔ وہ دونوں اطراف کے مافی الضمیر کو ایک دوسرے تک ٹھیک ٹھیک انداز میں پہنچانے کی کوشش کرتے ہوں گے۔ اس ضرورت کے تحت کچھ لوگوں نے ترجمہ کرنا سیکھا ہو گا۔

صفدر رشید اپنی کتاب ”فن ترجمہ کاری۔ مباحث“ میں کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں:

”ترجمے کا فن اتنا ہی قدیم ہے، جتنا کہ انسان کی سماجی زندگی۔ جب ایک سماجی گروہ کا دوسرے گروہ سے سماجی رشتہ قائم ہونے پر ایک دوسرے کی بات سمجھنے کے لیے  ترجمہ کاسہارا لینا پڑتا ہو گا تو ترجمہ کچھ  آوازوں اور کچھ اشاروں پر مبنی ہو گا۔ حملہ آوروں، سفیروں اور سیاحوں وغیرہ کی بنیادی ضرورت یہ تھی کہ وہ دوسرے لوگوں کو اپنی بات سمجھا سکیں۔ اس سے پہلے کہ یہ لوگ ایک دوسرے کی زبان سمجھنے کے قابل ہوتے، کسی ترجمان کے ذریعے انھوں نے ایک دوسرے تک بات پہنچائی ہو گی۔“

اگرچہ ترجمہ کے عمل کو ایک برائی بھی کہا گیا۔ یہاں تک کہ مترجم کو غدار اور گندم نما جو فروش کہا گیا۔ ترجمہ ایک ناگزیر برائی ہے۔ ترجمہ کبھی بھی اصل کے برابر نہیں ہو سکتا۔ اصل تو اصل ہے ترجمہ اس کا سایہ ہے رہے گا۔ لیکن یہ ضروری ہے کہ اس برائی کو سر انجام دیا جائے ، اگر اسے سر انجام دینا ضروری ہی ہے تو اسے لازمی کیا جائے۔ بے شک اصل نہ سہی کم تر سہی لیکن دوسری زبانوں میں موجود علم و فن کو اپنی زبان میں ڈھالنا ضروری ہے۔

دنیا میں جو علم بکھرا پڑا ہے ، اس کو ایک زبان چاہ کر بھی اپنے دامن میں سمیٹ نہیں سکتی۔ اس عالمگیر نور اور سرور سے لطف و انبساط کے حصول کے لیے ایک زبان سے دوسری زبان میں تراجم ضروری ہیں۔ جب لوگ ایک دوسرے کے علم، مہارت اور تجربے کو کام میں لانے کی جستجو رکھیں گے تب تک ترجمے کا سہارا حاصل کرنا یقینی بات ہے۔ علم و آگہی، جذبے اور شعور، فکر و احساس، تیکنیک اور سائنس کے علوم میں اشتراک کی آشا من میں رہے گی تب تک ذہن کے نہاں خانوں میں اور دل کے کسی گوشے میں یہ ضرورت جنم لے گی اور ترجمے کی اہمیت اور افادیت کا سوال ہوتا رہے گا۔

پروفیسر محمد حسن کچھ یوں رقم طراز ہیں:

”ضرورت اکثر برائیوں کو اچھائیوں میں بدل دیتی ہے۔ ایسی ہی ایک برائی ترجمہ بھی ہے ، مترجم کو غدار اور گندم نما جو فروش کہا گیا ہے۔ ترجمہ اگر اصل کا کام دینے لگے تو ترجمہ کیوں کہلائے لازمی طور پر اصل سے کم ہو گا۔ اور جو کم تر ہو وہ برائیوں میں کیوں نہ گنا جائے۔ مگر ضرورت کہتی ہے کہ عالمگیر آگہی کا نور اور سرور ایک زبان کے دامن میں تو سمٹنے سے رہا۔ جب تک زبان کے بولنے والے دوسری زبانوں کے علم و آگہی، جذبے اور شعور، فکر و احساس، ٹیکنیک اور سائنس تک پہنچنا چاہیں گے ترجمے کا سہارا لیں گے۔ خواہ یہ سہارا کیسا ہی ناقص اور ناتمام کیوں نہ ہو۔ بینادی طور پر ترجمہ لسانی اور تہذیبی مفاہمہ ہے جو نہ اصل کی لذت کو پوری طرح پا سکتا ہے نہ اس سے مکمل طور پر محرومی کو قبول کرتا ہے۔“

ترجمے کے اغراض و مقاصد

بنیادی طور پر مترجم کے نزدیک ترجمہ کرنے کی کچھ وجوہات ہیں۔ ان میں ایک معلوماتی ترجمہ ہے۔ مترجم عام طور پر کچھ تخلیقات کا ترجمہ اپنی زبان میں کرتا ہے۔ اصل میں جب وہ اس بات کو محسوس کرتا ہے کہ اس کی زبان میں اس مواد کی کمی ہے۔ وہ جو معلومات دینا چاہ رہا ہے اس کی اپنی زبان میں اس کے جیسا مواد نہایت کم ہے یا اعلیٰ درجے کا نہیں ہے تو قاری کو نئی معلومات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے ترجمہ کر سہارا لیتا ہے۔

الفاظ کیا کام کرتے ہیں۔ الفاظ مختلف اقدار اور روایات کی ترسیل کرتے ہیں۔ ترسیل کے مختلف درجات ہوتے ہیں۔ ان میں سے جو سب سے سطحی درجہ ہے وہ معلومات کو دوسرے تک پہنچانا ہوتا ہے۔ اب یہ مترجم کی مہارت اور صلاحیت پر منحصر ہے کہ وہ ترجمہ کو کتنا اصل کے قریب رکھتا ہے۔ اس کر ترجمہ جس قدر اصل سے قریب ہو گا معلومات کی ترسیل اسی قدر آسان ہو گی اور قاری تک اپنا مفہوم واضح انداز میں پہنچائے گی۔ اس طرح کے تراجم میں سائنسی تراجم شامل کیے جا سکتے ہیں۔

ترجمے کا دوسرا مقصد تہذیبی ہو سکتا ہے۔ اس قسم کے تراجم میں ایک تہذیب کے تصورات اور نظریات و خیالات کو دوسری زبان میں ڈھالا جاتا ہے۔ اس کا یہ مفہوم نہ لیا جائے کہ ایک زبان کے لفظ کا ترجمہ دوسری زبان میں کیا جائے۔ بلکہ اصل مقصد معنویت ہے اس میں فرق نہ آنے پائے۔ ایک مترجم کی مہارت یہ ہے کہ ایک تہذیب کی معنویت کو دوسری تہذیب کی معنویت میں ڈھال دے۔ تہذیبی عمل کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آئے گی کہ تہذیب اقدار کی جنم گاہ ہے۔

اقدار تہذیب کی کوکھ سے جنم لیتی ہیں اور اقدار مستقل نہیں ہوتی ہیں۔ ان کی صورت اور درجات میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی ایک ناگزیر عمل ہے۔ ان اقدار کی بنیاد پہ لسانی آبادی ردعمل دیتی ہے۔ ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک لفظ ایک تہذیب کے اندر مخصوص تصورات کا آئینہ ہے لیکن وہی لفظ دوسری زبان میں مہملیت کا شکار ہو کے رہ گیا۔ ہر تہذیب مختلف الفاظ کو اپنی کوکھ میں رکھ کے ایک نئے انداز میں سنوارتی ہے۔ الفاظ اپنی تہذیبی اقدارکے آئینہ دار ہیں۔

گویا مترجم تصورات کی تہذیبی آبادکاری کرتا ہے۔ تراجم کی تیسری صورت جمالیاتی ہے۔ جمالیاتی عمل سے لطف اندوزی بذات خود ایک پیچیدہ عمل ہے۔ جمالیاتی طور پر لذت حاصل کرنا اور فن پارے میں ایسا بیان کہ فکر و فن لطف و انبساط کا ذریعہ ہو جائے بہت معنی خیز عمل ہے۔

ایک زبان سے دوسری زبان میں اس جمالیاتی مفہوم کی ادائیگی ناممکن نہ سہی مشکل اور ادق ہے۔ الفاظ کا بیان صرف معلومات ہی فراہم نہیں کرتا بلکہ ایک خاص ماحول اور کیفیت بنائی جاتی ہے جو مفہوم کی ترسیل اور ادائیگی کے لیے معاون ہوتی ہے۔

سنسکرت زبان میں ماہرین شعریات نے سات مختلف نوعییتیں بیان کی ہیں۔ معلومات کی ترسیل، طنز، تضاد، محاورہ، علامتی اظہار، کنایہ اور کیفیت سبھی شامل ہے۔ ایک زبان کی ہمہ جہت الفاظ کے مفاہیم کو ٹھیک اسی طرح دوسری زبان میں ادا کرنا اور اس کے سیاق و سباق میں فٹ کرنا نہایت دقیق عمل ہے۔

ہر مترجم کے سامنے تین بنیادی سوالات ہوتے ہیں:

1۔ ترجمہ کرنے کا مقصد کیا ہے؟
2۔ ترجمہ کن افراد و اشخاص کے لیے کیا جا رہا ہے؟
3۔ کس تحریر کا ترجمہ مقصود ہے۔ ناول، افسانہ، ڈرامہ، شاعری، معلوماتی مضون؟

کتابیات
1۔ اعجاز راہی، اردو زبان میں ترجمہ کے مسائل، اسلام آباد، مقتدرہ قومی زبان: 1987
2۔ حامد بیگ، مرزا، ڈاکٹر، مغرب سے نثری تراجم، اسلام آباد، مقتدرہ قومی زبان، اشاعت اول:مئی 1998
3۔ خلیق انجم، فن ترجمہ نگاری، نئی دہلی، ثمر آفسٹ پرنٹرز، اشاعت سوم، 1996
4۔ رشید امجد، ڈاکٹر، ترجمہ کا فن، لاہور، مقبول اکیڈمی: 1988
5۔ قمر رئیس، ڈاکٹر، ترجمہ کا فن اور روایت، دہلی، خواجہ پریس:جون 1976
6۔ مولوی عبدالحق، خطبات عبد الحق (حصہ دوم) ، دہلی، انجمن ترقی اردو، (ہند) : 1944
7۔ مولوی وحید الدین سلیم، وضع اصطلاحات، نئی دہلی، ترقی اردو بیورو: 1960
J. Crawford, A linguistic Theory of translation, London, oxford university8. press.1965
J.M. Cohen, ”translation“ , Encyclopedia Americana, 1986, vol.279.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments