نیٹ فلکس دستاویزی فلم سیزپائریسی میں سمندری حیات کے حوالے سے کیے گئے دعوے کتنے درست ہیں؟


ماہی گیری کی صنعت کے سمندروں اور سمندری حیات پر اثرات کے حوالے سے بنائی گئی ایک دستاویزی فلم نے ایک بحث کو جنم دے دیا ہے۔

زیادہ تر ناظرین نے یہ دستاویزی فلم دیکھنے کے بعد کہا کہ وہ دوبارہ کبھی مچھلی نہیں کھائیں گے۔ ناظرین نے صنعتی پیمانے پر ماہی گیری کی وسعت پر حیرانی کا اظہار کیا ہے۔

کچھ لوگوں نے دلیل دی ہے کہ اس فلم میں ایک انتہائی پیچیدہ معاملے کو سادہ بنا کر پیش کیا گیا جبکہ معاملے اتنا سادہ نہیں۔ ان لوگوں کی دلیل ہے کہ دنیا کی کئی آبادیاں اپنے روزگار اور اپنی خوراک کے لیے مچھلی پر انحصار کرتی ہیں اور درحقیقت یہ ماہی گیر آبادیاں مچھلی پکڑنے کے لیے ایسے طریقے استعمال کرتی ہیں جس سے مچھلیوں کی آبادیاں متاثر نہ ہوں۔

اس مضمون میں ہم نیٹ فلکس کی اس دستاویزی فلم ‘Seaspiracy’ میں کیے گئے چند دعوؤں پر نظر ڈالیں گے۔

سنہ 2048 میں سمندر عملی طور پر آبی حیات سے خالی ہوجائیں گے

دستاویزی فلم کے ہدایت کار اور صداکار علی تبریزی کہتے ہیں: ‘اگر ماہی گیری کے موجودہ رجحانات جاری رہے تو سنہ 2048 تک سمندر عملی طور پر خالی ہو چکے ہوں گے۔’

اُن کا یہ دعویٰ درحقیقت سنہ 2006 کے ایک مطالعے پر مبنی ہے اور اس فلم میں اس وقت کی نیویارک ٹائمز کی ایک خبر کا حوالہ دیا گیا ہے جس کی سرخی تھی کہ ‘نئی تحقیق میں مچھلیوں کے عالمی سطح پر خاتمے کی پیشگوئی۔’

یہ بھی پڑھیے

آبی حیات پلاسٹک کیوں کھاتی ہے؟

پاکستانی ماہرین کا کارنامہ، کھانے کے قابل پلاسٹک تیار

ویل مچھلی کے پیٹ میں سے ’40 کلوگرام‘ پلاسٹک نکلا

مگر اس تحقیق کے مرکزی محقق کو بھی اس بات پر شک ہے کہ کیا اُن کی تحقیق سے آج یہ نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں؟

کینیڈا کی ڈلہاؤزی یونیورسٹی کے پروفیسر بورس ورم نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ‘یہ مضمون سنہ 2006 کا ہے۔ تب سے اب تک 15 سال گزر چکے ہیں اور اس میں موجود زیادہ تر ڈیٹا 20 سال پرانا ہے۔’

وہ کہتے ہیں کہ ‘تب سے اب تک ہم نے کئی خطوں میں دیکھا ہے کہ مچھلیوں کی آبادیاں بڑھانے کی کوششوں میں اضافہ کیا گیا ہے۔’

پروفیسر ورم کے مطابق اب بھی کئی مسائل موجود ہیں جن میں حد سے زیادہ مچھلیاں پکڑنا، غیر مطلوب مچھلیوں کا جال میں پھنس جانا، مچھلیوں کے قدرتی ماحول کا خاتمہ، آلودگی اور موسمیاتی تبدیلیاں شامل ہیں۔

مگر وہ نشاندہی کرتے ہیں کہ ‘اس نقصان کو پورا کرنے کے لیے لاتعداد کوششیں کی جا رہی ہیں۔’

سمندر، نیٹ فلکس، علی تبریزی

پلاسٹک آبی حیات کے لیے سب سے بڑے خطرت میں سے ہے

کچھ ماہرین نے تو سنہ 2006 کی اس تحقیق میں اس وقت کیے گئے دعووں کو ہی مسترد کیا ہے۔

امریکہ کی یونیورسٹی آف واشنگٹن میں ماہی گیری کے ماہر مائیکل میلنیچک کے مطابق ‘غیر حقیقی تخمینہ لگایا گیا جو دستیاب ڈیٹا کی حدود سے بھی کہیں آگے تھا۔’

وہ کہتے ہیں کہ ماہی گیری سے منسلک سائنسی کمیونٹی نے اس تحقیق کی پذیرائی نہیں کی تھی اور یہ کہ ‘تب سے اب تک’ یہ رائے قائم رہی ہے۔

وہ کہتے ہیں: ‘اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ دنیا کے کئی خطوں میں حد سے زیادہ مچھلی پکڑنا ایک مسئلہ ہے مگر وہ خطے جہاں فشریز کی انتظام کاری کے معیارات سائنسی حقائق پر مبنی ہیں اور اُن کی کڑی پابندی کی جاتی ہے، وہاں مچھلیوں کی زیادہ تر آبادیاں پھل پھول رہی ہیں۔’

‘بحر الکاہل میں کچرے کے جزیرے کا نصف مچھلیوں کے جال پر مبنی ہے’

ویسے تو جزیرے مٹی و پتھر کے بنے ہوتے ہیں لیکن شمالی بحرالکاہل میں ایک جزیرہ ایسا بھی ہے جو کچرے سے بنا ہے۔ کچرے کا یہ جزیرہ تیرتا رہتا ہے اور سمندر میں پھینکے گئے کچرے سے بنا ہوا ہے۔

اس دستاویزی فلم کا ایک مرکزی نکتہ ماہی گیری کی صنعت کے سمندر پر اثرات اور ناکارہ جال اور ماہی گیری کے آلات سے پیدا ہونے والی آلودگی ہے۔

اس فلم میں بحرالکاہل کے اس کچرے کے جزیرے پر بھی بات کی گئی ہے جس میں بہت سے ماہی گیری کے جال بھی ہیں۔

ماہرِ ماحولیات جارج مونبائیوٹ نے اس دستاویزی فلم میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘ہم اس بارے میں بہت کچھ سنتے ہیں۔ اس میں 46 فیصد ناقابلِ استعمال مچھلی کے جال ہیں جو بحری حیات کے لیے ہمارے پلاسٹک کے سٹراز سے زیادہ نقصان دہ ہیں۔’

یہ دعویٰ کرنے کے لیے جس تحقیق کا حوالہ دیا گیا ہے اس میں بھی یہی نتیجہ اخذ کیا گیا ہے تاہم اسے سیاق و سباق میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔

تحقیق کے ایک اور مصنف بویان سلیٹ کہتے ہیں: ‘ماہی گیری کا کچرا عمومی طور پر بڑے حجم کا ہوتا ہے مثلاً بوائیز، جنگلے اور جال شامل ہیں۔ یہ کچرا بہت آہستہ ٹوٹتا ہے اور یہ سطح پر تیرتا رہتا ہے۔ یہ سب چیزیں بحرالکاہل میں کچرے کے عظیم جزیرے میں سب سے زیادہ پائی جاتی ہیں۔’

اس کے علاوہ دیگر باریک اور چھوٹے پلاسٹکس ہیں جن میں تھیلیاں اور سٹرا شامل ہیں جو ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بالآخر ڈوب کر سمندر کی تہہ میں پہنچ جاتے ہیں۔

‘پلاسٹک کے سٹرا سمندری کچرے کا صرف 0.03 فیصد حصہ ہیں’

علی تبریزی اس دستاویزی فلم میں کہتے ہیں کہ پلاسٹک کے سٹراز پر پابندی لگانے کی عالمی مہم ‘ایسی ہی ہے جیسے ایمازون کے جنگلات کو بچانے اور درختوں کی کٹائی کو روکنے کے لیے ٹوتھ پکس پر پابندی عائد کر دی جائے۔

سمندری کچرے میں پلاسٹک سٹرا کا حصہ 0303 فیصد ہونے کے اعداد و شمار کے لیے اس دستاویزی فلم میں دو تحقیقی مطالعوں کا حوالہ دیا گیا ہے۔ اس تحقیق امریکہ کی یونیورسٹی آف جارجیا کی جینا جیمبیک کی ہے جبکہ دوسری دو آسٹریلوی سائنسدانوں ڈینیز ہارڈیسٹی اور کرس ولکوکس کی ہے۔

پروفیسر جیمبیک کی تحقیق سنہ 2015 کی ہے اور اس میں ‘زمین سے سمندروں میں جانے والے کچرے’ کا عالمی تخمینہ لگایا گیا ہے۔’

سمندر، نیٹ فلکس، علی تبریزی

ماہی گیری کے گمشدہ یا پھینک دیے گئے آلات بشمول جال سمندری حیات کی جان لینے کا سبب بنتے ہیں

ایک اور تحقیق میں یہ تخمینہ لگایا گیا ہے کہ دنیا بھر کے ساحلوں پر کتنی تعداد میں سٹرا پڑے ہوئے ہیں۔

بظاہر یہ تخمینہ ان نتائج کو دیکھتے ہوئے لگایا گیا ہے۔

اس کے علاوہ بلومبرگ نے 2018 میں اپنے ایک مضمون میں 0.03 فیصد کا عدد پیش کیا تھا۔

یہ کافی حد تک ایک تخمینہ ہی ہے اور پروفیسر جیمبیک کہتی ہیں کہ کوئی بھی یہ نہیں جانتا کہ کتنے سٹرا موجود ہیں، مگر ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ ان کی تعداد پھر بھی سمندر میں پھینکے گئے ماہی گیری کے سامان سے کم ہے۔’

پرفیسر ہارڈیسٹی کو یہ یقین نہیں ہے کہ سٹرا گمشدہ آلاتِ ماہی گیری سے بڑا خطرہ ہیں مگر اُن کے نزدیک جالوں سے پیدا ہونے والا خطرہ کہیں بڑا ہے۔

اُنھوں نے کہا: ‘پھینک دیے گئے یا گم ہو چکے آلاتِ ماہی گیری ساحلوں پر اور سمندروں میں رہنے والی بحری حیات کو سخت نقصان پہنچاتے ہیں، جبکہ جانداروں کی جانب سے جال میں پھنس کر تکلیف دہ موت مرنے کے خطرے کے بارے میں ہم اُن کے کسی چیز کو نگل کر مرنے سے زیادہ جانتے ہیں۔’

‘خردبینی سمندری نباتات ایمازون سے چار گُنا زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں’

یہ دعویٰ اس حوالے سے ہے کہ عالمی حدت کو کم کرنے میں سمندروں کا کیا کردار ہوتا ہے۔

فائیٹوپلینکٹن کہلانے والے خردبینی جاندار بالکل پودوں کی طرح ہی کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں اور آکسیجن خارج کرتے ہیں۔

اس دستاویزی فلم میں بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں یہ حساب لگایا گیا ہے کہ یہ ‘ایک ارب 70 کروڑ درختوں کی جانب سے جذب کردہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے برابر ہے اور یہ ایمازون کے جنگلات سے چار گُنا زیادہ صلاحیت ہے۔’

سمندر، نیٹ فلکس، علی تبریزی

کسی کو معلوم نہیں کہ سمندر میں کتنے سٹرا موجود ہیں لیکن ماہرین کا اتفاق ہے کہ یہ پھینکے گئے ماہی گیری آلات سے کچھ کم ہی نقصان دہ ہیں

ماہرین کا کہنا ہے کہ ویسے تو یہ عدد کافی حد تک درست ہے مگر فائیٹوپلینکٹن کا فائدہ شاید یہاں تک ہی محدود نہ ہو۔

برطانیہ کے شہر ساؤتھیمپٹن میں نیشنل اوشیانوگرافی سینٹر سے وابستہ ماہر بی بی کیل کہتے ہیں کہ ‘یہ کہنا ٹھیک ہے کہ سمندروں میں موجود فائیٹوپلینکٹن ایمازون سے چار گُنا زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں۔’

اور کیل یہ بھی کہتے ہیں کہ سمندر ایک طویل عرصے تک کاربن کو ذخیرہ کیے رکھتے ہیں۔

‘فائیٹوپلینکٹن کی جذب کردہ کاربن ڈائی آکسائیڈ سمندروں کی تہہ میں جا بیٹھتی ہے اور وہاں سینکڑوں اور ہزاروں برس تک رہتی ہے جس دوران اسے آہستہ آہستہ سطح پر لوٹاتا رہتا ہے۔’

کیل کہتے ہیں کہ اس عرصے میں درخت فضا سے کہیں کم کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں۔

حالیہ تحقیق میں یہ بھی پایا گیا ہے کہ فائیٹوپلینکٹن کی کچھ اقسام دوسروں کے مقابلے میں زیادہ کاربن جذب کرتی ہیں۔

سنہ 2020 کے ایک تحقیقی مطالعے میں فائیٹوپلینکٹن کی سالانہ نشونما پر غور کیا گیا اور پایا گیا کہ زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے کی صلاحیت رکھنے والے بڑے فائیٹوپلینکٹن پہلے کے تخمینوں کے مقابلے میں کم سامنے آتے ہیں۔

سمندر، نیٹ فلکس، علی تبریزی

دستاویزی فلم میں زمین سے سمندر میں جانے والے کچرے کو موضوع بنایا گیا ہے

امریکہ کی اوریگون سٹیٹ یونیورسٹی کے مائیکروبائیولوجسٹ سٹیو جیووانونی کا کہنا ہے کہ ‘یہ واضح طور پر کاربن کے جذب اور خارج کرنے کے ماڈل پر اثرانداز ہوگا۔’

سنہ 2020 میں ہی شائع ہونے والی ایک تحقیق میں اس حوالے سے غور کیا گیا کہ جب پلینکٹن مر جاتے ہیں اور سمندر کی تہہ میں چلے جاتے ہیں تو کیا ہوتا ہے۔

تحقیق کے مصنف کین بوئیسلر کہتے ہیں: ‘اگر سمندر کی تہہ اتنی کاربن جمع نہ کرتی جتنی کرتی ہے، تو زمین آج کے مقابلے میں کہیں زیادہ گرم ہوتی۔’

بوئیسلر کہتے ہیں: ‘ہمارا اندازہ ہے کہ فائیٹوپلینکٹن سطحِ سمندر سے پچھلے اندازوں کے مقابلے میں دو گُنا زیادہ کاربن جمع کرتے ہیں۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32553 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp