امریکی اور نیٹو افواج کا افغانستان سے واپسی کا آغاز


US troops training the Afghan Army 215th Corp in Helmand, July 2016
افواج کا انخلا 11 ستمبر تک مکمل ہو جائے گا
امریکہ نے افغانستان سے اپنی فوجوں کے مکمل انخلا کا باقاعدہ پر آغاز کر دیا ہے۔ نئے امریکی صدر جو بائیڈن نے افغانستان میں جاری جنگ کو ’ہمیشہ کی جنگ‘ کہہ کر پہلی ستمبر تک وہاں سے نکلنے کا اعلان کیا تھا۔

جمعے کو افغانستان، امریکہ، چین، روس اور پاکستان نے نیٹو افواج کے انخلا کے دوران امن کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ انخلا 11 ستمبر تک جاری رہے گا۔

افغان سکیورٹی فورسز واپس لوٹنے والے امریکی اور نیٹو کے فوجی دستوں پر کسی بھی حملے سے نمٹنے کے لیے ہائی الرٹ پر ہیں۔

امریکہ افغانستان میں کیوں آیا؟

گیارہ ستمبر 2001 کو امریکہ میں حملے میں 3000 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ان حملوں کی ذمہ داری اسلامی دہشت گرد گروہ القاعدہ پر عائد کی گئی۔

طالبان افغانستان میں قابض تھے اور انھوں نے اسامہ بن لادن کو پناہ دے رکھی تھی اور وہ اسے امریکہ کے حوالے کرنے سے انکاری تھے۔ چنانچہ نائن الیون کے ایک ماہ کے بعد امریکہ نے افغانستان کے خلاف فضائی حملوں کا آغاز کیا۔

دوسرے ملکوں نے بھی جنگ میں شمولیت اختیار کی اور جلد ہی طالبان کو اقتدار سے ہٹا دیا گیا۔

لیکن وہ بالکل غائب نہیں ہوئے ان کا اثرو رسوخ پھر سے بڑھا اور وہ اندر تک پہنچ گئے۔

تب سے امریکہ اور اسے کے اتحادی افغان حکومت کو ختم ہونے سے بچانے کے لیے اور طالبان کے تباہ کن حملوں کو ختم کروانے کی کوششیں کی ہیں۔

یہ بھی پڑھیئے

افغانستان سے انخلا کے بعد دنیا دہشت گردی کے خلاف کیسے لڑے گی؟

امریکہ افغانستان سے کیوں نکل رہا ہے؟

تشدد اب بھی جاری ہے کیا یہ درست ہے؟.

امریکی فوجوں کے انخلا کی شروعات میں طالبان اور حکومت کے درمیان امن معاہدے کی غیر موجودگی میں شدید جھڑپیں ہو رہی ہیں۔

راتوں رات صوبہ غزنی میں تشدد کے واقعے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد معلوم نہیں۔

People inspect the wreckage the day after a car bomb in Pul-e-Alam

افغانستان میں پولے عالم پر جمعے کو ہونے والے حملے میں کم ازکم 24 افراد ہلاک ہوئے۔

اور جمعے کو افغان صوبے لوگر کے علاقے پولے عالم میں کار بم دھماکے میں کم ازکم 24 افراد ہلاک ہوئے اور 110 زخمی ہوئے جن میں زیادہ تر سکول کے بچے تھے۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کا جواز موجود ہے۔ انھوں نے کہا کہ امریکی افوج نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ افغانستان دوبارہ مغرب کے خلاف کارروائی کے لیے غیر ملکی جہادیوں کا گڑھ نہ بنے۔

اور صدر اشرف غنی کہتے ہیں کہ اب ان کے ملک کی فوجیں مکمل طور پر باغیوں سے نمٹنے کی اہلیت رکھتی ہیں۔

لیکن بہت سے لوگ ایسے ہیں ڈر ہے کہ افغانستان میں امن قائم نہیں رہ پائے گا۔

مینا نوروزی کابل کے ایک پرائیویٹ ریڈیو سٹیشن میں کام کرتی ہیں ان کا کہنا ہے کہ `ہر کوئی خوفزدہ ہے کہ شاید ہم پھر طالبان کے تاریک دور میں لوٹ جائیں گے۔’

وہ کہتی ہیں کہ `طالبان اب بھی ویسے ہی ہیں وہ بدلے نہیں، امریکہ کو اپنی موجوگی کو ایک یا دو سال تک بڑھانا چاہیے تھا۔’.

پاکستان اور افغانستان کے لیے بی بی سی کے نامہ نگار سکندر کرمانی نے کہا ہے کہ عسکریت پسندوں اور افغان حکومت کے درمیان امن مذاکرات رک گئے ہیں۔ بین الاقوامی دخل اندازی کے خاتمے کے باوجود یہ بات یقینی لگتی ہے کہ جنگ جاری رہے گی۔

امریکہ کے طالبان کے ساتھ سنہ 2020 میں ہونے والے ایک معاہدے کے تحت امریکی افواج کو یکم مئی تک انخلا کرنا کرنا تھا۔ لیکن صدر بائیڈن نے اس ڈیڈ لائن کو واپس لینے پر زور دیا۔

طالبان کا موقف ہے کہ امریکہ کا انخلا کے ٹائم ٹیبل پر عمل نہ کرنا معاہدے کی شرائط کی خلاف ورزی ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ جنگجو اب ایسے کسی معاہدے کے پابند نہیں کہ وہ غیر ملکی فوجوں پر حملے نہیں کریں گے۔

صدر بائیڈن نے گذشتہ ماہ کہا تھا کہ امریکی فوجوں کا انخلا 11 ستمبر تک مکمل ہو جائے گا۔ یہ امریکہ میں نائن الیون حملوں کے 20 برس مکمل ہونے کی تاریخ ہے۔

یکم مئی بھی ایک اہم تاریخ ہے، 10 سال پہلے امریکی فوجوں نے اسی روز اسامہ بن لادن کو پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں سپیشل فورسز کے ذریعے ایک حملے میں ہلاک کیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32300 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp