بھارت میں وبا کے تیز پھیلاؤ کی وجہ کیا وہاں سامنے آنے والی کرونا کی نئی قسم ہے؟


ماہرین کے نزدیک بڑے عوامی اجتماعات کے باعث وبا کے تیز پھیلاؤ کے لیے صرف وائرس کی بھارتی قسم کو سبب قرار نہیں دیا جاسکتا۔(فوٹو،فائل)

وبائی امراض میں آنے والی تبدیلیوں پر تحقیق کرنے والے ماہر کرس مری کا کہنا ہے کہ بہت کم مدت میں جس پیمانے پر بھارت میں وبا پھیلی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاید بیچ میں ایک اور قسم بھی ہے جو ریکارڈ ہونے سے رہ گئی ہے۔

ویب ڈیسک — بھارت میں رواں ماہ کے دوران دیگر ممالک کے مقابلے میں سب سے زیادہ تیزی سے کرونا وائرس وبا پھیلنے کا ریکارڈ سامنے آیا ہے۔ کیسز میں اضافے کے باعث دارالحکومت دہلی اور ممبئی کے اسپتالوں میں بستروں، دواؤں اور آکسیجن کی قلت ہو گئی ہے۔

خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق سائنس دان بھارت میں وبا کے اس تیز ترین پھیلاؤ کی وجوہ کا جائزہ لے رہے ہیں۔ خاص طور پر اس سوال کا جواب تلاش کیا جا رہا ہے کہ وبا کی اس شدت کے لیے حال ہی میں بھارت میں سامنے آنے والی کرونا وائرس کی نئی قسم کو کتنا ذمے دار ٹھیرایا جا سکتا ہے۔

بھارت میں سامنے آنے والی کرونا وائرس کی نئی قسم یا ’ویرینٹ بی ون سکس ون سیون‘ (B.1.617) کے کیسز اب تک 17 ممالک میں سامنے آ چکے ہیں اور اس حوالے سے ماہرین کو مختلف خدشات کا سامنا ہے۔

بھارتی ویرینٹ کیا ہے؟

بھارت سے تعلق رکھنے والے وبائی امراض کے ماہر شاہد جمیل کا کہنا ہے کہ B.1.617 ویرینٹ میں وائرس کی بیرونی ’اسپائک‘ میں دو کلیدی تبدیلیاں یا ’میوٹیشنز‘ ہوئی ہیں۔

اسپائک یا ابھار وائرس کا وہ حصہ ہیں جن کے ذریعے وہ انسانی خلیے سے منسلک ہوتا ہے۔

عالمی ادارہٴ صحت نے بھارت میں سامنے آنے والی قسم کو ’ویرینٹ آف انٹرسٹ‘ قرار دیا ہے۔ یعنی اس کے بارے میں ابھی بہت سی ایسی معلومات سامنے آ سکتی ہیں جس سے اس بات کا تعین ہو گا کہ وائرس میں آنے والی یہ تبدیلیاں اس کے پھیلاؤ میں تیزی اور بیماری کی شدت میں اضافے کے ساتھ ویکسین کی اثر پذیری کے حوالے سے کیا اثرات رکھتی ہیں۔

اس سے قبل برطانیہ، برازیل اور جنوبی افریقہ میں تشخیص ہونے والی اقسام کو زیادہ خطرناک ہونے کی وجہ سے ’ویرینٹ آف کنسرن‘ یعنی ایسی قسم جس کے بارے میں تشویش ہو کے زمرے میں رکھا گیا تھا۔

کیا نئی قسم وبا کی شدت کا باعث ہے؟

عالمی ادارہٴ صحت کا کہنا ہے کہ بھارت میں وبا کے تیز پھیلاؤ اور اس میں آنے والی شدت کے حوالے سے وہاں سامنے آنے والی قسم کو وجہ قرار دینے کے لیے فوری طور پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ حتمی طور پر ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

تاہم لیبارٹری میں ہونے والے محدود نمونوں کے جائزے سے وائرس کی نئی قسم اور پھیلاؤ میں اضافے کے درمیان تعلق کا اشارہ ملتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے تصویر واضح نہیں کیوں کہ بھارت میں کچھ حصوں میں تیزی سے وائرس کے پھیلاؤ کے پیچھے برطانیہ میں سامنے آنے والا B.117 ویرینٹ تھا۔

بھارت کے نیشنل سینٹر فور ڈیزیز کنٹرول کے ڈائریکٹر سجیت سنگھ کے مطابق مارچ کے آخری نصف میں برطانوی قسم کے کیسز کی تعداد تقریباََ دگنی ہو گئی تھی۔

ان کا کہنا ہے کہ بھارتی ویرینٹ سب سے زیادہ متاثرہ ریاست مہاراشٹرا میں پایا گیا ہے۔

امریکہ کی واشنگٹن یونیورسٹی کے وبائی امراض میں آنے والی تبدیلیوں پر تحقیق کرنے والے ماہر کرس مری کا کہنا ہے کہ بہت کم مدت میں جس پیمانے پر بھارت میں وبا پھیلی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاید درمیان میں ایک اور قسم بھی ہے جو ریکارڈ ہونے سے رہ گئی ہے۔ ممکن ہے یہ قسم آبادی میں قدرتی انفیکشنز کے نظام مدافعت پر غالب آگئی ہو۔

ان کا کہنا ہے کہ زیادہ امکان تو یہی ہے کہ B.1.617ہی کی وجہ سے وبا میں تیزی آئی لیکن بھارت میں کرونا وائرس میں آنے والی تبدیلیوں کا ڈیٹا بہت بکھرا ہوا ہے اور کئی معاملوں میں برطانوی اور جنوبی افریقی قسم بھی تیز پھیلاؤ کا سبب بنی ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت میں بڑے عوامی اجتماعات ہوئے ہیں اس لیے وبا کے تیز پھیلاؤ کے لیے صرف بھارتی قسم ہی کو سبب قرار نہیں دیا جا سکتا۔

ویکسین اسے روک پائے گی؟

اس حوالے سے امید افزا بات یہ قرار دی جارہی ہے کہ ویکسین بھارت میں سامنے آنے والی قسم سے تحفظ فراہم کرسکتی ہے۔

وائٹ ہاؤس کے مشیر اعلیٰ برائے طبی امور انتھونی فاؤچی نے رواں ہفتے کہا تھا کہ اس بات کے تجرباتی شواہد سامنے آئے ہیں کہ بھارت میں بنائی گئی ویکسین جس کا نام ’کوویکسن‘ ہے وہاں سامنے آنے والی کرونا وائرس کی نئی قسم سے تحفظ فراہم کرنے کے قابل ہے۔

برطانیہ میں صحتِ عامہ کے محکمے کا کہنا ہے کہ اس معاملے پر اپنے بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر اس پر کام کر رہے ہیں تاہم ابھی تک ایسے شواہد سامنے نہیں آئے جن کی بنیاد پر یہ کہا جا سکے کہ بھارتی اور دیگر متعلقہ دو ویرینٹ بیماری میں شدت یا حال ہی میں دی جانی والی ویکسینز کے اثرات کو کم کرنے کا باعث ہیں۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments